سپریم کورٹ میں 2005 کے زلزلہ متاثرین کی بحالی اور فنڈز کے آڈٹ کی رپورٹ طلب
پانچ سالہ منصوبے سنے تھے، کیا زلزلہ متاثرین کی بحالی کا 50 سال کا منصوبہ ہے؟
آنیاں جانیاں ختم کریں اور سنجیدگی سے کام کریں لوگ متاثر ہورہے ہیں،دوران سماعت ریمارکس
اسلام آباد(ویب نیوز)
سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بینچ نے وفاقی و صوبائی حکومتوں اور آڈیٹر جنرل آف پاکستان سے 2005 کے زلزلہ متاثرین کی بحالی اور فنڈز کے آڈٹ کی رپورٹ طلب کرلی۔ جبکہ بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اب تک جورپورٹ آرہی ہے اس کے مطابق محکموں، صوبائی اوروفاقی حکومت کے درمیان مسئلہ چل رہا ہے۔ آڈیٹر جنرل کاکام ہی آڈٹ کرنے کاہے۔ جبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ہرمنصوبے کاایک، دوسال وقت مکمل کرنے کادیاہوتا ہے وقت زیادہ لگنے کی وجہ سے اخراجات بڑھ جاتے ہیں، وقت پر کام مکمل نہ ہونے کی وجہ سے 5روپے کاکام 50روپے میں مکمل ہوتا ہے۔ چیئرمین ایرالیفٹیننٹ جنرل انعام حیدر ملک کوبلالیں۔ ٹاپ کے 2،3لوگ جاکرموقع کادورہ کرلیں اور جو 70،80فیصد منصوبے مکمل ہیں ان کو پہلے مکمل کریں اور باقی کو بعد میں دیکھیں۔ جب منصوبہ بنانہیں توسپریم کورٹ کیسے تاریخ دے سکتی ہے۔جبکہ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے ہیںکہ وہ منصوبے کہاں ہیں جو مکمل ہوئے؟کیا انسانوں کے لیے منصوبے بنائے گئے یاجنوں کے لیے؟کیا منصوبے ہوا میں بنے ہیں، کون منصوبوں کابینیفشری ہے۔ آڈٹ رپورٹ سے پتا چلے گاکہ کتنے پیسے آئے اور کتنے خرچ ہوئے۔ 2013سے درخواست بار،بارلگ رہی ہے کیا پیش رفت ہے۔ جبکہ جسٹس سید حسن اظہررضوی نے ریمارکس دیئے ہیں کہ رواں سال8اکتوبر کوزلزلہ کے20 سال ہوجائیں گے،پانچ سالہ منصوبے سنے تھے، کیا زلزلہ متاثرین کی بحالی کا 50 سال کا منصوبہ ہے؟ کیا کوئی متاثرین کاڈیٹا تیار کیا کہ کتنوں کی بحالی کی، کتنے متاثرین تھے، کوئی توڈیٹا ہو گا، 2لاکھ ،5لاکھ10لاکھ متاثرین تھے۔ جبکہ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے ہیں کہ آنیاں جانیاں ختم کریں اور سنجیدگی سے کام کریں لوگ متاثر ہورہے ہیں۔ جماعت اسلامی پاکستان کے رہنما پروفیسر محمد ابراہیم خان ، شیرازمحمود قریشی اوردیگر کی جانب سے 2005کے زلزلہ متاثرین کی بحالی سے متعلق ایرا کے خلاف دائر درخواستوں پرسپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید حسن اظہررضوی، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اخترافغان پر مشتمل 6رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔ دوران سماعت دوران متعلقہ فریقین عدالت میں پیش ہوئے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل راشدین نوازقصوری کاکہنا تھا کہ عدالتی حکم پر رپورٹ جمع کروادی ہے، تمام منصوبوں پرکام مکمل ہوگیاہے۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ آڈیٹر جنرل کاکام ہی آڈٹ کرنے کاہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ کیا منصوبوں کاآڈٹ ہوگیا ہے۔ جسٹس سید حسن اظہررضوی کاکہنا تھا کہ 20سال ہو گئے کوئی آڈٹ رپورٹ تیارہوگئی۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ آڈٹ توہرسال ہوتا ہے۔ جسٹس سید حسن اظہر رضوی کاکہنا تھا کہ کیا کوئی متاثرین کاڈیٹا تیار کیا کہ کتنوں کی بحالی کی، کتنے متاثرین تھے، کوئی توڈیٹا ہو گا، 2لاکھ ،5لاکھ10لاکھ متاثرین تھے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ یہ کیس کی ذمہ داری ہے اگرحکومت کی نااہلی ہے توکون اس کوچیک کرے گا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ 2013سے کیس زیر التوا ہے حکومت اپناکام دیکھے یاکوئی ادارہ بنادے جوکام چیک کرے، ہم کب سے رپورٹ مانگ رہے ہیں ، رپورٹ نہیں دے رہے، بہترہوگا کہ ہم کوئی اورکام کریں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ مین سبجیکٹ میں متاثرین ہیں، کتنون کی بحالی کی، حقائق کے مطابق رپورٹ بنالیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ ہرمنصوبے کاایک، دوسال وقت مکمل کرنے کادیاہوتا ہے وقت زیادہ لگنے کی وجہ سے اخراجات بڑھ جاتے ہیں، وقت پر کام مکمل نہ ہونے کی وجہ سے 5روپے کاکام 50روپے میں مکمل ہوتا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہرکادرخواست گزارکے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیاآج کی تاریخ کے حقائق آپ کے پاس ہیں۔وکیل کاکہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے2018میں ایراکومتاثرین کے لئے نیو بالا کوٹ سٹی رہائشی منصوبہ مکمل کرنے کے لئے 30ماہ کاوقر دیا تھا آج تک مکمل نہیں ہوا۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخواشاہ فیصل الیاس کاکہنا تھا کہ صوبائی حکومت نے زمین فراہم کی۔ ایرانمائندے کاکہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے ڈیڑھ ارب روپے کی لاگت سے زمین خریدی۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ اب تک جورپورٹ آرہی ہے اس کے مطابق محکموں، صوبائی اوروفاقی حکومت کے درمیان مسئلہ چل رہا ہے۔ نمائندہ ایراکاکہنا تھا کہ ہربینیفشری کو اُس کی زمین کے حساب سے پلاٹ دینا تھا، اتنا وقت گزرنے کے بعد لوگوں کے بچوں کی شادیاں ہو گئیں انہوں نے بھی دعویٰ کردیا، 52کیسز عدالتوں میں ہیں۔ درخواست گزاروںکے وکیل کاکہنا تھا کہ 12ہزارکنال زمین ہے۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ جوپہلے متاثرین ہیں ان کوپہلے دیں جو لوگ بعد میں آئے ہیں ان کو بعد میں دیکھیں۔ جسٹس سید حسن اظہررضوی کاکہنا تھا کہ رواں سال8اکتوبرکو زلزلہ کے 20 سال ہوجائیں گے،پانچ سالہ منصوبے سنے تھے، کیا زلزلہ متاثرین کی بحالی کا 50 سال کا منصوبہ ہے؟ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ جب وسائل موجود نہیں ہوتے توکیوں منصوبے شروع کرتے ہیں، دونوں حکومتیں بیٹھ جائیں، ہم یہاں بیٹھ کرآپ کے مسائل حل نہیں کرسکتے، دونوں حکومتیں بیٹھ کرمسائل حل کریں، آپ اپنی ذمہ داری پوری کریں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ اس کامطلب ہے کوئی پیش رفت نہیں ہے، ایراکس لئے بناتھا، 750منصوبے کس کے لئے ہیں، وہ منصوبے کہاں ہیں جو مکمل ہوئے؟کیا انسانوں کے لیے منصوبے بنائے گئے یاجنوں کے لیے؟کیا منصوبے ہوا میں بنے ہیں، کون منصوبوں کابینیفشری ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ چیئرمین ایرالیفٹیننٹ جنرل انعام حیدر ملک کوبلالیں۔ ایرانمائندے کاکہنا تھا کہ فنڈز کے حوالہ سے پلاننگ ڈویژن جواب دے سکتا ہے، فنڈز اقتصادی امورڈویژن کے پاس ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ آڈٹ رپورٹ سے پتا چلے گاکہ کتنے پیسے آئے اور کتنے خرچ ہوئے۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ کوئی 40فیصد اورکوئی 10فیصد منصوبہ مکمل ہوا ہے یہ ناقص منصوبہ بندی ہے۔ وکیل متاثرین کاکہنا تھا کہ بالا کوٹ میں تحصیل ہیڈکوارٹرز ہسپتال تعمیر کرنا تھا وہ اب تک تعمیر نہیں ہوا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ ٹاپ کے 2،3لوگ جاکرموقع کادورہ کرلیں اور جو 70،80فیصد منصوبے مکمل ہیں ان کو پہلے مکمل کریں اور باقی کو بعد میں دیکھیں، یہ ہماراکام نہیں کہ آپ کوبتاتے رہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ 2013سے درخواست بار،بارلگ رہی ہے کیا پیش رفت ہے۔ نمائندہ ایراکاکہنا تھا کہ 14ہزارمنصوبوں میں سے بالاکوٹ سٹی ایک منصوبہ ہے، 11070منصوبے 95فیصد سے زیادہ مکمل کرچکے ہیں۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ فریقین کے درمیان رابطے کافقدان ہے، اٹارنی جنرل حکومتوں اور محکموں کوآپس میں بیٹھنے کے لئے سہولت فراہم کریں۔ ایرا، صوبائی اوروفاقی حکومتیںمتاثرین کی بحالی اور آڈیٹر جنرل پاکستان فنڈزکے حوالہ سے آڈٹ رپورٹ جمع کروائیں۔جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ آنیاں جانیاں ختم کریں اور سنجیدگی سے کام کریں لوگ متاثر ہورہے ہیں۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ پی سی ون کے مطابق منصوبوں کو مکمل کریں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ مکمل منصوبوں کی کوئی تصویر دے سکتے ہیں تولگادیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ جب منصوبہ بنانہیں توسپریم کورٹ کیسے تاریخ دے سکتی ہے۔بعد ازاں آئینی بینچ نے کیس کی مزید سماعت ملتوی کردی۔