پلاسٹک آلودگی عالمی اخلاقی مسئلہ بن گئی، منصفانہ ماحولیاتی نظام کی ضرورت: ماہرین
فضلہ برآمد کرنے والے ملکوں کو ٹیکنالوجی کی منتقلی کے علاوہ انتظام میں مالی تعاون بھی کرنا ہوگا، ایس ڈی پی آئی ویبینار
اسلام آباد(ویب نیوز )
ماحول دوست ترقی کے عالمی ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہوئے، ماہرین، پالیسی سازوں، ماحولیاتی کارکنوں اور نجی شعبے کے نمائندگان نے خبردار کیا ہے کہ ترقی یافتہ اقوام کی جانب سے پلاسٹک کا فضلہ ترقی پذیر ممالک پر منتقل کرنا نہ صرف ماحولیاتی انصاف کی صریح نفی ہے بلکہ یہ عالمی ضمیر کے لئے ایک کڑی اخلاقی آزمائش بھی ہے۔پالیسی ادا رہ برائے پائیدار ترقی (ایس ڈی پی آئی) کے زیر اہتمام منعقدہ ورچوئل ویبینار میں شرکا نے اس امر پر زور دیا کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں کو پلاسٹک آلودگی کے خلاف جنگ میں تنہا چھوڑ دینا عالمی ذمہ داریوں سے پہلوتہی کے مترادف ہے۔ ماہرین نے عالمی یومِ ماحولیات 2025 کے تناظر میں منعقدہ اس مکالمے میں مطالبہ کیا کہ ترقی یافتہ ممالک صرف فضلہ برآمد نہ کریں بلکہ فضلہ انتظام، ری سائیکلنگ، اور دائرہ جاتی معیشت کے فروغ کے لیے مالی، تکنیکی اور اخلاقی معاونت بھی فراہم کریں تاکہ ماحولیات کے باب میں ایک منصفانہ اور پائیدار عالمی نظام قائم کیا جا سکے۔ اپنے خطاب میںایس ڈی پی آئی کے سربراہ ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے کہا کہ اصل مسئلہ پلاسٹک نہیں بلکہ اس کا غیر مناسب انتظام ہے۔انہوں نے پلاسٹک کی علیحدگی، ری سائیکلنگ کے مؤثر نظام اور ماحولیاتی انصاف پر مبنی ایک جامع حکمتِ عملی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ مغربی دنیا کی حد سے بڑھی ہوئی کھپت کا بوجھ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک پر ڈالنا کسی طور قابلِ قبول نہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ جو ممالک اپنا پلاسٹک فضلہ برآمد کرتے ہیں انہیں نہ صرف ٹیکنالوجی کی منتقلی بلکہ اس کے فضلے کے انتظام میں مالی تعاون بھی فراہم کرنا ہوگا۔ ایس ڈی پی آئی کے انرجی یونٹ کے سربراہ عبیدالرحمن ضیا نے پلاسٹک اور ماحولیاتی آلودگی کے درمیان گہرے تعلق کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ یہ بوجھ اب پاکستان کے لئے ناقابل برداشت ہو چکا ہے۔ انہوں نے پالیسی پر مبنی اور سفارتی سطح پر ہم آہنگ لائحہ عمل کی ضرورت پر زور دیا۔ہیڈ آف انرجی (چائنا) ڈاکٹر حسن داؤد بٹ نے کہا کہ اب عملی اقدامات کا وقت ہے کیونکہ ہر ماحولیاتی کوشش دراصل آنے والی نسلوں میں سرمایہ کاری ہے۔ انہوں نے سی پیک کے دوسرے مرحلے کو گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا جیسے علاقوں میں آف گرِڈ توانائی کے لئے گرین انرجی ایکسیلیریٹر بنانے کی تجویز دی۔ڈاکٹر عرفان یوسف نے پلاسٹک آلودگی کو اولین ترقیاتی چیلنج قرار دیا اور کہا کہ تعمیرات، صنعتی ڈیزائن اور مقامی ہنرمندی میں پلاسٹک کو دوبارہ استعمال کیا جا سکتا ہے، ۔ تاہم انہوں نے ایسے اقدامات پر زور دیا جو روزگار کے مواقع پیدا کریں اور محروم طبقات کو بااختیار بنائیں۔توانائی کے ماہر اسد محمود نے مقامی حکومتوں کے کردار کو اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ پلاسٹک کے استعمال میں تبدیلی کے لئے حکمرانی کے خلا کو پْر کرنا ہوگا اور کمیونٹی کی شمولیت کے ساتھ جامع اعداد و شمار کی بنیاد پر فیصلے کرنا ہوں گے۔پرائیویٹ فنانسنگ ایڈوائزری نیٹ ورک (PFAN) سے وابستہ حماد بشیر نے کہاکہ اگر نجی شعبے کو مالی اور ضابطہ جاتی معاونت ملے تو ان کامیابیوں کو مزید وسعت دی جا سکتی ہے۔صنعتی ڈیکاربونائزیشن پروگرام کی سربراہ صالحہ قریشی نے فضلہ انتظام اور ڈیکاربونائزیشن کے لیے ایک منظم اور ہم آہنگ حکمتِ عملی کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے زرعی فضلہ کو سیمنٹ انڈسٹری کے لیے صاف ایندھن کے طور پر استعمال کرنے اور سولر پینلز کی ری سائیکلنگ کے لئے ای پی آر (ایکسٹینڈڈ پروڈیوسر رسپانسبلٹی) فریم ورک کی عدم موجودگی کو ایک سنگین خلا قرار دیا۔آئی ایل او کے نمائندے حیدر مجتبیٰ نے پلاسٹک ویلیو چین میں شامل محنت کشوں کے مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ان میں سے بیشتر نہ تو کسی معاہدے کے تحت کام کرتے ہیں اور نہ ہی ان کے پاس حفاظتی لباس یا سماجی تحفظ موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ باعزت روزگار، کسی بھی دائرہ جاتی معیشت کی منتقلی کی بنیاد ہونا چاہئے۔ڈبلیو ڈبلیو ایف سے نازیفہ بٹ اورلیونگ اندس انیشی ایٹو کی حمیرا جہانزیب نے پلاسٹک آلودگی کو نہ صرف فضلے بلکہ ترقیاتی مسئلہ قرار دیا اور کہا کہ یہ ہمارے آبی ذخائر، معاشرتی شمولیت اور دریائے سندھ کے ماحولیاتی نظام کے لیے خطرہ ہے۔سویچ ایشیا کے نمائندے رنگا پلاوالا نے کہا کہ ای پی آر فریم ورک کو محض ضابطے کی حد تک نہیں بلکہ پلاسٹک ڈیزائن میں اختراع کے فروغ کا ذریعہ ہونا چاہیے تاکہ ماحولیاتی اثرات کم ہوں۔سپیل گروپ کے زیا حیدر ناقی نے پاکستان میں ناقص ڈیٹا انفراسٹرکچر کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ تصدیق شدہ اعداد و شمار کی کمی کے باعث حقیقی پلاسٹک فضلہ کا اندازہ درست نہیں لگایا جا سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ پلاسٹک کو قابل قدر بنانے کی حکمت عملی اپنائی جائے۔ ایس ڈی پی آئی کی سرکلرٹی یونٹ کی سربراہ ڈاکٹر زینب نعیم نے کہا کہ جب تک نفاذ کا مؤثر نظام موجود نہ ہو، ضوابط محض الفاظ کی مشق ہیں۔ ہمیں قومی اتفاقِ رائے پیدا کرکے عملی اقدام کا عزم کرنا ہوگا ۔