بھارت رشوت خوری میں ایشیا میں سرفہرست …ٹرانسپیرینسی انٹرنیشنل
نئی دہلی (ویب ڈیسک )ایک تازہ ترین بین الاقوامی سروے کے مطابق بھارت براعظم ایشیا میں رشوت خوری کے معاملے میں 39 فیصد کے ساتھ اول نمبر پر ہے۔ عوامی خدمات تک رسائی کے لیے ذاتی تعلقات کے استعمال کرنے کے حوالے سے بھی بھارت سرفہرست ہے۔عالمی سول سوسائٹی تنظیم ٹرانسپیرینسی انٹرنیشنل کی جانب سے جاری کردہ بین الاقوامی سروے رپورٹ کے مطابق بھارت 39 فیصد کے ساتھ براعظم ایشیا میں رشوت خوری کے معاملے میں پہلے نمبر پر ہے اس کے علاوہ عوامی خدمات حاصل کرنے کے لیے ذاتی تعلقات بروئے کار لانے کے لحاظ سے بھی بھارتی شہری سب سے آگے ہیں۔گلوبل کرپشن بیرومیٹر۔ایشیا کے عنوان سے شائع اس سروے کے تیاری دوران ٹرانسپیرینسی انٹرنیشنل نے 17 ممالک کے 20000 سے زائد لوگوں سے سوالات پوچھے۔ یہ سروے جون اور ستمبر کے درمیان کیا گیا تھا۔ ان سے گزشتہ بارہ ماہ میں بدعنوانی کے حوالے سے ان کی رائے معلوم کی گئی۔ ان سے چھ قسم کی عوامی خدمات یعنی عدالتیں، پولیس، طبی سہولیات، سرکاری دستاویزات اور سہولیات کے حصول کے بارے میں سوالات پوچھے گئے۔بھارت کے بعد سب سے زیادہ رشوت خوری کمبوڈیا میں ہے جہاں 37 فیصدلوگ رشوت دیتے ہیں۔ 30 فیصد کے ساتھ انڈونیشیا تیسرے نمبر پر ہے۔ بھارت کے مقابلے بنگلہ دیش اور سری لنکا میں رشوت خوری کی شرح کافی کم ہے۔ ان میں ملکوں میں یہ بالترتیب 24 فیصد اور 16فیصد ہے۔ پاکستان کو اس سروے میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔افریقی ملک صومالیہ 9 پوائنٹس حاصل کر کے 180ویں نمبر پر ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق سن 2016 میں صومالیہ کے دس پوائنٹس تھے جب کہ اس سے گزشتہ تین برسوں کے دوران بھی یہ ملک آٹھ کے اسکور کے ساتھ کرپٹ ترین ملک رہا تھا۔جاپان اور مالدیپ پورے ایشیا میں دو ایسے ملک ہیں جہاں سب سے کم رشوت خوری ہے۔ ان ملکوں میں صرف 2 فیصد لوگوں کا کہنا تھا کہ انہیں اپنے کام کے لیے رشوت دینی پڑی۔بھارت میں گزشتہ ایک برس کے دوران رشوت خوری کے سلسلے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں 47 فیصد لوگوں کا ماننا تھا کہ اس میں اضافہ ہوا ہے، 27 فیصد لوگوں کا خیال تھا کہ رشوت خوری کم ہوئی ہے، 23 فیصد لوگوں کے خیال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے جبکہ 3 فیصد لوگوں نے کسی رائے کا اظہار نہیں کیا۔46 فیصد لوگو ں نے تسلیم کیا کہ انہیں پولیس کو رشوت دینی پڑی۔ مقامی افسروں کورشوت دینے والوں کی تعداد بھی 46 فیصد تھی۔ جب کہ 42 فیصد لوگوں نے اراکین پارلیمان کو رشوت دی،41 فیصد نے سرکاری ملازمین کو حتی کہ عدالتوں اور ججو ں سے بھی کام کرانے کے لیے 20 فیصد لوگوں نے رشوت دینے کا اعتراف کیا۔عوامی خدمات کے لیے رشوت بھارت میں بہت بڑا مسئلہ ہے۔ سست او رپیچیدہ افسر شاہی، غیر ضروری لال فیتہ شاہی اور مبہم قانونی ضابطے شہریوں کو بنیادی خدمات کے حصول کے لیے متبادل حل تلاش کرنے پر مجبور کردیتے ہیں جس کے نتیجے میں بدعنوانی کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔رپورٹ میں اس بات پر تشویش ظاہر کی گئی ہے کہ لوگ گوکہ یہ بات اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ بدعنوانی گھن کی طرح ملک کو کھا رہی ہے اوراس کی رپورٹ کرنا اہم ہے لیکن 63 فیصد افرا د ایسا کرنے پر کسی انتقامی کارروائی کے انجام سے ڈرتے ہیں۔رپورٹ کے مطابق ہر چار میں سے تین لوگوں کا خیال تھا کہ ملک میں حکومتی بدعنوانی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ ہر تین میں سے ایک شخص اپنے حلقے کے ممبر پارلیمان کو سب سے بدعنوان سمجھتا ہے۔رپورٹ کے مطابق تقریبا 50 فیصد لوگوں سے رشوت مانگی گئی جب کہ ذاتی تعلقات استعمال کرکے اپنا کام نکلوانے والے 32 فیصد کا کہنا تھا کہ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو وہ ان کے لیے حکومتی سہولیات یا دستاویزات حاصل کرنا ممکن نہیں تھا۔پولیس سے کام نکلوانے کے لیے 39 فیصد لوگوں کی ذاتی تعلقات استعمال کرنے پڑے جب کہ شناختی دستاویزات حاصل کرنے اور عدالتی کام کے سلسلے میں بالترتیب 42 فیصد اور 38 فیصد لوگوں نے ذاتی تعلقات کا سہارا لیا۔ٹرانسپیرینسی انٹرنیشنل نے اس سے قبل جنوری میں ڈاووس میں منعقدہ ورلڈ اکنامک فورم کے موقع پر اپنی رپورٹ جاری کی تھی۔ جس میں 180 ممالک میں بدعنوانی کی صورت حال کا جائزہ لیا گیا تھا۔ اس میں بھارت 80 ویں مقام پر تھا۔گزشتہ برس ستمبر میں وزیر اعظم نریندر مودی نے ‘بدعنوانیو ں سے پاک حکومت کا وعدہ کرتے ہوئے دعوی کیا تھا کہ انہوں نے بدعنوانی کے خلاف ایک وسیع مہم شروع کررکھی ہے۔ اس سے قبل پہلی مرتبہ اقتدار میں آنے کے وقت انہوں نے یہ مقبول نعرہ دیا تھا’نہ کھاوں گا، نہ کھانے دوں گا۔”