سخت موسم کے باعث لاپتا کوہ پیماوں کی تلاش کا فضائی آپریشن پھر معطل
سکردو(ویب نیوز)کے-2 پہاڑ کی چوٹی سر کرنے کے مشن کے دوران لاپتا کوہ پیماوں کو تلاش کرنے کے لیے فضائی نگرانی کے ذریعے کیا جانے والا سرچ آپریشن مسلسل تیسرے روز پیر کو بھی جاری رہا جسے بالآخر شدید خراب موسم کے باعث روک دیا گیا۔محمد علی سد پارہ، آئس لینڈ کے جان اسنوری اور چلی کے ایم پی مہر سے اس وقت تک رابطہ نہیں ہوسکا جب سے انہوں نے جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب کیمپ 3 سے کے-ٹو کی چوٹی تک پہنچنے کے سفر کا آغاز کیا۔ریسکیو مشن میں بلندو بالا چوٹیاں سر کرنے والے مقامی کوہ پیماں میں شمشال سے فضل علی اور جلال، اسکردو سے امتیاز حسین اور اکبر علی، رومانیہ کے الیکس گوان، نذیر صابر، چنگ داوا شیر پا اور موسم سرما میں کوہ پیمائی کرنے والی ایس ایس ٹی ٹیم کے دیگر اراکین شامل تھے۔ ایک نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے الپائن کلب کے سیکریٹری کرار حیدری نے تصدیق کی کہ پیر کو بھی تلاشی کا عمل شروع کیا گیا تھا تاہم موسم کی موجودہ صورتحال نے سرچ آپریشن کو انتہائی مشکل بنا دیا ہے۔نیپال سے تعلق رکھنے والے چنگ داوا شیر پا اور لکپا دیندی شیر پا کو پاک فوج کے ہیلی کاپٹرز میں کے-2 کے بیس کیمپ سے پرواز پر لے جایا گیا لیکن بالآخر ٹیموں کو لوٹنا پڑا۔ٹوئٹر پر ایک پیغام میں چنگ داوا نے کہا کہ ‘آرمی ایوی ایشن 5 اسکواڈرن کی مدد سے پاک فوج کے 2 ہیلی کاپٹروں میں تلاشی کے لیے پرواز کی گئی۔ان کا مزید کہنا تھا کہ لکپا دیندی اور میں ان علاقوں سے گزرے جہاں ہمیں لاپتا کوہ پیماں کی موجودگی کا گمان تھا، تاہم حد نگاہ کم تھی اور پہاڑ کا بالائی حصہ بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘ گزشتہ 3 روز سے پائلٹس اپنی حد سے بڑھ کر اچھا کام کررہے ہیں لیکن ہمیں کوئی سراغ نہ مل سکا، ٹیم قدرے بہتر موسم کا انتظار کررہی ہے جب تلاش ممکن ہوسکے۔موسم کی سختی کس طرح تلاشی کے عمل کو محدود کرتا ہے کہ وضاحت کرتے ہوئے جاسمین ٹورز کے سربراہ علی اصغر پوریک نے بتایا کہ ہیلی کاپٹر کو 4 گھنٹے پرواز کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کے لیے صاف موسم درکار ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ‘ہیلی کاپٹر کو اسکردو سے کے-2 بیس کیمپ پہنچنے کے لیے 40 منٹ لگتے ہیں، سمت کے تعین کے لیے موسم صاف ہونا ضروری ہے، 5 ہزار میٹر بلندی پر موسم شدید اور ناقابل اعتبار ہوجاتا ہے۔دوسری جانب کے-2 پر سرچ آپریشن میں رضاکارانہ طور پر شامل ہونے والے محمد علی سد پارہ کے 2 رشتہ دار بھی واپسی کی راہ پر ہیں۔علی اصغر پوریک نے کہا کہ یہ دونوں تجربہ کار بلند چوٹیوں کے پورٹر ہیں اور ساجد سد پارہ کی بحفاظت نیچے آنے میں مدد گار تھے۔انہوں نے مزید کہا کہ چونکہ یہ دونوں بھی محمد علی سد پارہ کے خاندان سے ہیں اس لیے ان کے لیے دونوں خاص جذبات رکھتے ہیں تاہم ہم نے ان سے واپس زمین پر آنے کی درخواست کی جس پر وہ واپس آرہے ہیں۔علی اصغر پوریک کے مطابق جان اسنوری نے موسم سرما میں کے-2 سر کرنے کے لیے ان کی جاسمین ٹورز کی خدمات حاصل کی تھی اور محمد علی اور ساجد ان کے ہمراہ اس مہم کے لیے پورٹر کے طور پر ساتھ گئے تھے۔دریں اثنا ذرائع کا کہنا تھا کہ نیپالی کوہ پیماں نے اپنا بیس کیمپ لپیٹ دیا ہے، کینیڈین فلم ساز ایلیا سیک لے اور کوہ پیما پاسنگ نوربو شیر پا کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے واپس اسکردو پہنچادیا گیا۔اس ضمن میں علی سدپارہ کے بیٹے ساجد سدپارہ نے کے-ٹو سرچ آپریشن کے بعد اسکردو میں میڈیا سے بات چیت میں کہا تھا کہ علی سدپارہ اور ان کے ساتھیوں کو کے-ٹو سر کرنے کے بعد واپسی میں کوئی حادثہ ہوا ہے، وہ 8200 میٹر کی بلندی تک پہنچے تھے۔ساجد پارہ نے کہا کہ تین دنوں تک لاپتا ہونے کے بعد شدید ترین سردی میں زندہ بچنے کے بہت کم امکانات ہیں، اس موسم میں بغیر ساز و سامان کے تین دنوں تک کوئی زندہ نہیں رہ سکتا ہے تاہم باڈیز کو لانے کے لیے آپریشن کیا جاسکتا ہے۔میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ساجد نے کہا تھا کہ جب دیگر کوہ پیما نیچے اتر گئے تھے تو میں، میرے والد علی سد پارہ، جان اسنوری اور جے پی مہر نے نے رات 12 بجے کے-2 کی چوٹی کا مشن شروع کیا تھا لیکن 8 ہزار 200 میٹر کی بلندی پر آکسیجن ریگولیٹر لیکن ہونے کی وجہ سے مجھے واپس آنا پڑا۔انہوں نے بتایا کہ دوپہر 12 بجے انہوں نے بوٹل نیک سے نیچے اترنا شروع کیا اور 5 بجے کیمپ 3پر پہنچ گئے تھے لیکن مواصلاتی آلات نہ چلنے کی وجہ سے ان کا کوہ پیماں سے رابطہ نہیں ہوسکا۔ساجد سد پارہ نے کہا تھا کہ کیمپ 3 پر انہوں نے اپنے خیمے کی لائٹ جلا کر رکھی تا کہ لاپتا کوہ پیما اسے دیکھ سکیں، ہفتے کے روز کمپ مینیجر نے ساجد کو موسممی حالات کی وجہ سے اوپر جانے سے منع کیا اور انہیں نیچے آنے کا مشور دیا۔ساجد ہفتے کی شامل کے-2 کے بیس کیمپ میں پہن گئے تھے انہوں نے بتایا کہ ‘بدقسمتی سے کوہ پیما اگلے روز بھی واپس نہ آسکے۔انہوں نے کہا کہ جمعے کی صبح 11 بجے ان کے والد علی سد پارہ اور دیگر 2 کوہ پیما بوٹل نیک پار کررہے تھے جو کے ٹو کا سب سے خطرناک مقام ہے اور مجھے یقین ہے کہ انہیں چوٹی سے واپسی میں ہی کوئی حادثہ پیش آیا ہوگا