افغان طالبان کی دوحہ مذاکراتی ٹیم کے اہم رکن سہیل شاہین کا نجی ٹی وی سے خصوصی انٹرویو
اسلام آباد (ویب ڈیسک)
افغان طالبان کی دوحہ مذاکراتی ٹیم کے اہم رکن سہیل شاہین نے کہا ہے کہ مفاہمت، مذاکرات اور بات چیت کے زر یعے افغان مسئلہ کے حل تک پہنچنا افغان طالبان کی پالیسی ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ ابھی بھی ہماری دوحہ میں دوسری مذاکراتی ٹیم کے ساتھ بات چیت ہورہی ہے اور جس ایجنڈا پر ہم دونوں نے اتفاق کیا ہے اس پر بحث ہو رہی ہے ۔ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ ہمارے برادرانہ تعلق ہوں، پاکستان ہمارا پڑوسی ملک اور مسلمان بھی ہے،ہماری مشترکہ تاریخی، ثقافتی اور مذہبی اقدار ہیں،پاکستان امن کے حوالہ سے ہمیں مشورہ دے سکتا ہے تاہم کوئی چیز ہم پر مسلط کرے یا ڈکٹیشن دے تو یہ ہمارے اصولوں کے خلاف ہے اور عالمی اصولوں کے مطابق بھی نہیں ہے۔طالبان او بھارت کے درمیان کوئی براہ راست رابطہ نہیں ہوا ہے ہم انڈیا سے چاہتے ہیںکہ وہ افغانستان کے مسئلے میں غیرجانبدار رہے اور افغانستان کے عوام کے ساتھ رہے نہ کہ ایک مسلط شدہ حکومت کے ساتھ رہے۔ ہم نے کہا ہے کہ ہم اپنے ایجنڈا کو مذاکرات کی میز پر لاتے ہیں جیسے دوسرا فریق اپنا ایجنڈا جمہوریت ہو یا جو بھی ہو اس کو مذاکرات کی میز پر لائے لیکن ہم یہ نہیں کہتے کہ ہمارے ایجنڈے کو زبردستی نافذکردیا جائے بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ مذاکرات کی میز پر حکومت کے حوالہ سے جو بھی فیصلہ ہوا وہ ہمیں قابل قبول ہے۔ان خیالات کااظہار سہیل شاہین نے نجی ٹی وی سے انٹرویو میں کیا۔ سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ جو بھی مذاکرات کی میز پر فیصلہ ہو گا وہ ہمیں قبول ہو گا لیکن نظام اسلامی ہو گا، مفاہمت مذاکرات کے ذریعے حل کو پہنچے یہ ہماری پالیسی ہے۔ اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، ٹی وی چینلز پر حکومت کا احتساب ہو سکے گا تنقید بھی ہو گی اور خواتین اس میں پردے کے بغیر نہیں آ سکیں گی۔ تقریباً چھ ہفتوں میں افغانستان کے170 اضلاع پر ہمارا قبضہ ہے۔ہمارے لوگ امار ت مانتے ہیں یا نہیں مانتے یہ ہمارے افغان عوام کا قانونی حق ہے۔ایک سوال پر سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے امیر مفتی نور ولی کی افغان طالبان کے امیر ملا ہیبت اللہ کی بیعت کرنے کی ویڈیو کا مجھے علم نہیں ہے اور نہ میں نے یہ ویڈیو دیکھی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلامی امارات کی پالیسی یہ ہے کہ کوئی بھی فرد ہو یا گروپ ہو ہم افغانستان کی سرزمین کو کسی کے خلاف استعمال نہیں ہونے دینگے، اس حوالہ سے ہماری پوزیشن واضح ہے اور یہ پیغام سب تک پہنچ گیا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ ہم ٹیکنالوجی کے استعمال کے خلاف نہیں ہیں بلکہ اگرہمارے ہاں سلامی نظام آ جائے تو ہم سائنس اور ٹیکنالوجی کے لئے بہت کوشش کریں گے اور اسلامی اصول کی رو سے بھی ضروری ہے ۔۔ان کا کہنا تھا کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی ایک ہتھیار ہے اور اس سے ہم استفادہ کررہے ہیںا ور آئندہ بھی کریں گے اور اس حوالہ سے کوئی شک نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جو اضلاع ہمارے قبضے میں آ گئے ہیں ہم نے یہی بیان دیا ہے کہ اس علاقے میں جو میڈیا یا اخبار ہیں ان کو فنکشنل ہونا چاہئے جیسے ماضی میں تھے اور بھی چینلز آ جائیں۔ اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن اس کا مواد ہماری روایت و سوسائٹی کے مطابق ہو گامغربی معاشرہ تو بعد میں آتا ہے۔ اسلام نے ہمیں آزادی اظہار رائے کی تعلیم دی ہے، اسلام میں تو1400سال پہلے آزادی اظہار رائے کی اجازت دی تاہم مغربی معاشرے میں تو یہ بہت بعد میں آئی۔ایک سوال پر سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ خواتین کو ان کے تمام بنیادی حقوق دیئے جائیں گے اور خواتین کو تعلیم حاصل کرنے اور کام کرنے کی آزادی ہو گی۔ موسیقی سے متعلق کہا کہ یہ خالص اسلامی مسئلہ ہے اس کا جواب مفتی صاحبان ہی دے سکیں گے اور جو بھی آئندہ مفتی ہوں گے ان کو یہ مسئلہ بھجوایا جائے گا اوروہی اس کا جواب دے سکیں گے۔ جو بھی اسلام میں موسیقی کے بارے میں اسلامی اصول ہیں اسی کے مطابق اس کا فیصلہ ہو گا۔ سہیل شاہین کا مزید کہنا تھا کہ ابھی بھی مذاکرات اور میٹنگ ہو رہی ہیں۔ اسی ایجنڈے پر جس پر دونوں نے اتفاق کیا ہے۔ نئی ڈویلپمنٹ کی وجہ یہ ہے کہ کابل ایڈمنسٹریشن پر سکیورٹی فورسز اعتماد نہیں رکھتیں۔ افغان فوجی ہماری طرف رضاکارانہ طور پر آ رہے ہیں جنگ کی وجہ سے نہیں آ رہے اور انہوں نے سرنڈر نہیں کیا ہمیں جوائن کیا ہے انہیں پہلے بھی کابل ایڈمنسٹریشن پر اعتماد نہیں تھا، 90فیصد سے زائد افغان فوجی رضاکارانہ طور پر اور بات چیت کے زریعہ ہمارے ساتھ شامل ہو گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ پراپیگینڈا ہے کہ طالبان صرف پشتونوں پر مشتمل ہیں ایسا نہیں ہے بلکہ اس میں سارے افغان عوام شامل ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ دوحہ معاہدہ میں طے پایا تھا کہ ہمارے تمام قیدیوں کو رہا کیا جائے گا تاہم اشرف غنی حکومت نے ابھی تک ہمارے تمام قیدیوں کو رہا نہیں کیا، جبکہ ہماری بلیک لسٹ کی ڈی لسٹنگ میں بھی ہماری کوئی مدد نہیں کی۔ ہماری پالیسی ہے کہ ہم افغانستان میں پائیدار امن لائیں اور ایسا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ہم افغانستان میں تمام بڑوں کے ساتھ مذاکرات نہ کریں اور بات چیت کے زریعہ مسئلہ کے حل کو نہ پہنچیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں کمیونسٹ پارٹی کی حکومت سے لے کر امارات اسلامی افغانستان کی حکومت تک ایک پارٹی افغانستان میں پر امن طریقہ سے حکومت نہیں کرسکی، یہ ہماری رائے ہے اور اس لئے ہم نے یہ پالیسی بنائی ہے ہم بات چیت کے زریعہ مسئلہ کے حل تک پہنچیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ افغانستان میں پائیدار امن ہو اور ہم تعمیروترقی پر توجہ دیں اور افغانستان میں دوسرے ممالک کی مداخلت ختم ہو جائے اور یہ اس وقت ممکن ہو گا جب تمام افغان اکٹھے ہوجائیں اور سب کو جوڑنے والی افغان اسلامی حکومت کو بنایا جائے یہ اس وقت ممکن ہے اور اس کا ایک طریقہ ہے کہ مذاکرات کے زریعہ اس مقصد تک پہنچیں۔ ایک سوال پر سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ اسلامی امارات ہمارا ایجنڈا ہے لیکن ہم نے کہا ہے کہ ہم اپنے ایجنڈا کو مذاکرات کی میز پر لاتے ہیں جیسے دوسرا فریق اپنا ایجنڈا جمہوریت ہو یا جو بھی ہو اس کو مذاکرات کی میز پر لائے لیکن ہم یہ نہیں کہتے کہ ہمارے ایجنڈے کو زبردستی نافذکردیا جائے بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ مذاکرات کی میز پر حکومت کے حوالہ سے جو بھی فیصلہ ہوا وہ ہمیں قابل قبول ہے۔ ہم کہتے آرہے ہیں کہ نظام اسلامی ہو گا کیونکہ جو قربانیاں ہم نے20سال میں دی ہیں اور یا جو قربانیاں 40سال پہلے مجاہدین نے سوویت یونین کے خلاف دی تھیں سب کا مقصد ایک تھا کہ افغانستان میں اسلامی نطام آجائے اور ہم اسے زبردستی نافذ نہیں کرتے اور اسے مذاکرات کی میز پر لائیں گے۔سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ ہماری پالیسی یہ ہے کہ ہم افغانستان میں پائیدار امن لائیں یہ تب تک ممکن نہیں تھا جب تک ہم افغانستان میں سارے دھڑوں کے ساتھ مذاکرات کریں اور حل کو پہنچیں جو بھی حکومت آئی ہے افغانستان میں ایک پارٹی افغانستان میں پرامن حکومت نہیں کر سکتا یہ ہمارا نظریہ ہے اس کے مطابق ہم نے پالیسی بنائی ہے اور دوسرے ممالک کی مداخلت افغانستان میں بند ہونی چاہئے۔ یہ سارے افغان اکٹھے ہوں اور ایک اسلامی افغان حکومت بنائیں ۔ جمہوریت وغیرہ جو بھی لانا چاہتے ہیں لائیں ہم اپنا ایجنڈا مسلط نہیں کرتے ہم کہتے ہیں جو بھی مذاکرات کی میز پر فیصلہ ہو گا وہ ہمیں قبول ہو گا لیکن نظام اسلامی ہو گا جو قربانیاں ہم نے دی ہیں اور سب یہی چاہتے ہیں کہ افغانستان میں نظام اسلامی ہو۔ افغانستان کو کیسے لے کر چلنا ہے اس کا ہمارا پاس خاکہ موجود ہے اور ہم نے شیئر بھی کیا ہے اور مذاکرات اسی کی بنیاد پر ہو رہے ہیں۔ ہم نے بیعت کی ہے اسلامی امارات افغانستان پر اور ہم نے20 سال جہاد کیا ہے اور ابھی دوحہ مذاکرات پر سائن کیا ہے جس کی بناء پر امریکا گئے ہیں ابھی جو مذاکرات ہو رہے ہیں وہ ہمارے سپریم لیڈر کی ہدایت کے مطابق ہو رہے ہیں اور ان کے تحت ہو رہے ہیں اور ایسا نہیں ہے کہ ہم نے کوئی الگ مذاکراتی ٹیم بنائی ہے اور الگ پالیسی ہے۔