مودی سرکار نے جاسوسی کی یا نہیں،بھارتی سپریم کورٹ تفتیش کرائے گی
سکیورٹی خدشات کا بہانہ بنا کر ہر مرتبہ ‘فری پاس نہیں دیا جا سکتا،بھارتی عدالت اعظمی
نئی دہلی (ویب نیوز)بھارتی سپریم کورٹ نے پیگیسس جاسوسی معاملے میں مودی سرکار کے کردار کی تفتیش کرانے کا اعلان کر دیا ہے۔ عدالت کے مطابق سکیورٹی خدشات کا بہانہ بنا کر ہر مرتبہ حکومت کو ‘فری پاس نہیں دیا جا سکتا،میڈیا رپورٹ کے مطابق بھارتی سپریم کورٹ نے ماہرین کی ایک کمیٹی تشکیل دی ہے، جو وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کی جانب سے ایک اسرائیلی سافٹ ویئر کی مدد سے اپنے سیاسی مخالفین، صحافیوں اور انسانی حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں کی مبینہ جاسوسی کے معاملے کی چھان بین کرے گی۔ ایک ریٹائرڈ جج اس کمیٹی کی سربراہی کر رہے ہیں اور اس کی رپورٹ رواں سال کے اختتام تک متوقع ہے۔ عدالت عظمی نے یہ قدم صحافیوں، حزب اختلاف کے سیاست دانوں اور کارکنان کی جانب سے دائر کردہ ایک پٹیشن کے رد عمل میں اٹھایا ہے۔گلوبل میڈیا کنسورشیئم کی اس سال جولائی میں سامنے آنے والی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ اسرائیلی ساختہ عسکری نوعیت کے سافٹ ویئر پیگیسس کو استعمال کرتے ہوئے کم از کم پچاس ملکوں میں سینکڑوں اہداف کی جاسوسی کی گئی، جن میں سیاسی مخالفین، صحافی اور انسانی حقوق کے لیے سرگرم کارکن شامل ہیں۔ بھارت بھی اس سافٹ ویئر کو استعمال کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل تھا۔ رپورٹ کے اجرا کے بعد تہلکہ مچ گیا اور سافٹ ویئر بنانے والی کمپنی کا موقف سامنے آیا کہ ‘وہ یہ سافٹ ویئر صرف حکومتوں کو فروخت کرتی ہے اور اس کا استعمال صرف دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف کیا جاتا ہے۔ کمپنی نے یہ بھی واضح کیا کہ اسے کسی صارف یا متاثرہ شخص کے ڈیٹا تک رسائی حاصل نہیں۔بھارتی حکومت نے ایسی رپورٹوں کو مسترد کرتے ہوئے جاسوسی کے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا تھا۔ اس رپورٹ کے ناقدین نے بھی مذکورہ کمپنی کی وضاحت کو ‘غلط بیانی پر مبنی قرار دیا اور ایسے شواہد پیش کیے، جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ این ایس او نامی یہ کمپنی متاثرین کا ڈیٹا خود محفوظ رکھتی ہے۔ ناقدین نے مزید کہا کہ پیگیسس کا مسلسل اور وسیع پیمانے پر استعمال اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ نجی سطح پر جاسوسی سے متعلق انڈسٹری میں ریگولیشن کا کس قدر فقدان ہے۔پیگیسس کسی بھی شخص کے اسمارٹ فون میں داخل ہونے کے بعد تمام تر ڈیٹا تک رسائی حاصل کر لیتا ہے۔ حتی کہ کیمرا اور مائیکرو فون بھی اس کے کنٹرول میں ہوتے ہیں۔ یوں ہیکرز متاثرہ شخص کی تمام تر بات چیت، پیغامات کا تبادلہ و دیگر مواد کی جاسوسی کر سکتے ہیں۔بھارتی اپوزیشن جولائی سے ہی یہ مطالبہ کرتی آئی ہے کہ اس معاملے کی صاف شفاف تحقیقات کرائی جائیں۔ جولائی میں وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی نے گلوبل میڈیا کنسورشیئم کی رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد کہا تھا کہ نہ صرف یہ بے بنیاد ہے بلکہ یہ بھارت میں جمہوریت کو نقصان پہنچانے کی کوشش بھی ہے۔ تاہم حکومت نے کہیں بھی کھل کر یہ نہیں کہا کہ آیا اس نے سافٹ ویئر استعمال کیا یا نہیں۔ سپریم کورٹ نے بدھ کو تفتیشی کمیٹی کے قیام کے موقع پر کہا کہ سکیورٹی خدشات کا بہانہ بنا کر ہر مرتبہ ‘فری پاس نہیں دیا جا سکتا ہے