سگریٹ چوری کے الزام میں نئی دہلی کے تہاڑ جیل میں قید18 سالہ مسلمان لڑ کے کا قتل
نئی دہلی(ویب نیوز) سگریٹ چوری کے الزام میں نئی دہلی کے تہاڑ جیل میں قید18 سالہ مسلمان لڑ کے کو تشدد کر کے قتل کر دیا گیا۔ 18 سالہ ذیشان ملک کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ اس کے جسم پر زخموں کے بہت سے نشانات تھے جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ اسے جیل میں تشدد کا نشانہ بنایا گیاہے۔مقتول ذیشان کے کندھے، بازو اور گھٹنے میں فریکچر تھاجبکہ پسلیاں بھی ٹوٹی ہوئی تھیں جو زخموں کے نشانات سے واضح تھا۔اس کے چچا نے بتایا کہ اسے بے دردی سے مارا گیاہے۔ ذیشان سگریٹ چوری کے کیس میں تین ماہ تک جیل میں تھا۔ 14 فروری کو تفتیشی افسر نرنجن کمار نے ذیشان کے والد ایوب ملک کو اپنے بیٹے سے ملنے کے لیے دین دیال اپادھیائے اسپتال جانے کو کہاجہاں اس کی حالت تشویشناک تھی۔ جب ذیشان کے والدین ہسپتال پہنچے تو کمار نے انہیں بتایا کہ ان کا بیٹا نہیں رہا۔ذیشان کے چچا فرقان نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ کچھ دن پہلے ذیشان کے والد نے ان سے تہاڑ جیل میں ملاقات کی تھی۔ ذیشان اس وقت بالکل ٹھیک ٹھاک تھا۔ وہ اچانک بیمار کیسے ہو سکتا ہے اور مر سکتا ہے؟ یہ ایک معمہ ہے۔فرقان نے کہاکہ میں نے ذیشان کی لاش کی تصویر دیکھی ہے۔ اس کے جسم کے مختلف حصوں پر زخموں کے نشانات تھے۔ اگر ذیشان کی موت کسی بیماری کی وجہ سے ہوئی ہوتی تو اس کے جسم پر زخم کے نشانات نہ ہوتے۔ فرقان نے کہا جب انہوں نے لاش دیکھی تو وہ ناقابل شناخت تھی۔تاہم اس کے والد نے اسے پیر کے ناخن دیکھ کر ہی پہچانا۔ اس کی ماں اور بہنوں نے اس کا چہرہ صاف کرنے کے بعد اسے پہچان لیا۔فرقان نے کہاکہ اس کے چہرے پر خون جمنے کے نشانات نمایاں تھے۔ اس کے سر پر بھی مار پیٹ کے نشانات تھے۔ اس کی آنکھوں پر بھی ضرب لگائی گئی تھی۔ذیشان کی موت کے فورا بعد لاش لواحقین کے حوالے نہیں کی گئی۔ لواحقین کو اس کی لاش تک پہنچنے میں تین دن لگے، تب ہی اسے دفنایا جا سکا۔ فرقان نے بتایا کہ انہیں اس کی لاش کو غسل دیتے ہوئے زخم کے نشانات ملے۔فرقان کا خیال ہے کہ اس کے بھتیجے کو چار سے پانچ لوگوں نے مارا پیٹا۔ ذیشان کے اہل خانہ نے انصاف کے لیے دہلی کے پتپڑ گنج روڈ پر مکڑ اسپتال کے سامنے پولیس کے خلاف احتجاج کیا۔