جو قوم اپنے نظریے سے ہٹتی ہے وہ کبھی کامیاب نہیں ہوتی، عمران خان
جتنا زیادہ ٹیکس اکٹھا کریں گے وہ نیچے لوگوں کو اوپر اٹھانے کے لئے لگائوں گا
وعدہ ہے لوگوں پر بوجھ کم اور مہنگائی کم کرنے کے لئے پیسہ کہیں اورنہیں جائیگا صرف لوگوں پر لگے گا
وزیر اعظم کا فیصل مسجد اسلام آباد میں کامیاب پاکستان پروگرام کے تحت بلاسود قرضوں کے اجراء کی تقریب سے خطاب
اسلام آباد ( ویب نیوز)
وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ایف بی آر کا نے پہلی دفعہ ریکارڈ ٹیکس اکٹھا کیا ہے ،میں لوگوں سے کہتا ہوں کہ وہ جتنا زیادہ ٹیکس دیں گے میں وہ نیچے لوگوں کو اوپر اٹھانے کے لئے لگائوں گا، لوگوں پر بوجھ کم اور مہنگائی کم کرنے کے لئے یہ میراوعدہ ہے، وہ کہیں اورپیسہ نہیں جائیگا صرف لوگوں پر لگے گا، جو قوم اپنے نظریے سے ہٹتی ہے وہ کبھی کامیاب نہیں ہوتی، جو انسان اپنے نظریے سے ہٹتا ہے وہ بھٹک جاتا ہے اور ہمارا نظریہ مدینہ کی ریاست کا نظریہ تھا، اس میں دو سب سے اہم چیزیں تھیں ، ایک انسانیت اور فلاحی ریاست ، جدھر ریاست نے اپنے کمزور طبقہ کی ذمہ داری لینی تھی جسے انگریزی میں ویلفیئر اسٹیٹ کہتے ہیں اور دوسرا جو نبی ۖ کا حکم تھا کہ جو قوم طاقتور چور کو چھوڑ دیتی ہے اور کمزور چور کو جیل میں ڈالتی ہے وہ تباہ ہو جاتی ہے، یعنی جس قوم میں انصاف نہیں ہوتا وہ تباہ ہو جاتی ہے اور پھر انہوں نے کہا کہ اگر میری بیٹی بھی چوری کرے گی تواس کو بھی سزا ملے گی یعنی کوئی قانون سے اوپر نہیں۔ان خیالات کااظہار وزیر اعظم عمران خان نے فیصل مسجد اسلام آباد میں کامیاب پاکستان پروگرام کے تحت بلاسود قرضوں کے اجراء کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ مسجد میں شرکاء تالیاں تو بجا نہیں سکتے تومجھے کیسے پتا چلے گا کہ میری باتیں آپ کو پسند آئی ہیں کہ نہیںتو ڈاکٹر الیاس کہہ رہے ہیں شرکاء ہاتھ کھڑا کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ایک بڑے خواب کا نام تھا، ہم نے ایک مثالی اسلامی فلاحی ریاست بننا تھا اور جو فلاحی ریاست کس کے طرز پر بننا تھا جو سب سے پہلے ہمارے نبیۖ نے مدینہ میں ایک ریاست قائم کی تھی ان اصولوں پر ہم نے پاکستان کو کھڑا کرنا تھا، مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وہ جو ہمارا قبلہ 1947میں ہونا چاہیے تھا ہم اس راستے پر نہیں چلے اور میرا یہ ایمان ہے کہ پاکستان کو اگر وہ عزت دنیا میں نہیں ملی اوراگرپاکستان کا وہ مقام دنیا میں نہیں ہوا جو ہونا چاہیئے تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ جس نظریے کے تحت پاکستان بنا تھا اس نظریے پر ہم نہیں چلے۔ وزیرا عظم عمران خان کا کہنا تھا کہ جو قوم اپنے نظریے سے ہٹتی ہے وہ کبھی کامیاب نہیں ہوتی، جو انسان اپنے نظریے سے ہٹتا ہے وہ بھٹک جاتا ہے اور ہمارا نظریہ مدینہ کی ریاست کا نظریہ تھا، اس میں دو سب سے اہم چیزیں تھیں ، ایک انسانیت اور فلاحی ریاست ، جدھر ریاست نے اپنے کمزور طبقہ کی ذمہ داری لینی تھی جسے انگریزی میں ویلفیئر اسٹیٹ کہتے ہیں اور دوسرا جو نبی ۖ کا حکم تھا کہ جو قوم طاقتور چور کو چھوڑ دیتی ہے اور کمزور چور کو جیل میں ڈالتی ہے وہ تباہ ہو جاتی ہے، یعنی جس قوم میں انصاف نہیں ہوتا وہ تباہ ہو جاتی ہے اور پھر انہوں نے کہا کہ اگر میری بیٹی بھی چوری کرے گی تواس کو بھی سزا ملے گی یعنی کوئی قانون سے اوپر نہیں۔یہ دو سب سے بڑے اصول تھے جو مدینہ کی ریاست کی بنیاد بنے اور بھی تھے، میرٹ تھا، خواتین کو پہلی دفعہ جائیداد میں حق دیا گیا، غلاموں کو انسانوں کی طرح رکھنے کا حکم دیا، بتایا گیا کہ سب انسان حضرت آدم علیہ اسلام کی اولاد ہیں ، کوئی بھی رنگ ہو اس میں کوئی انسانوں کے درمیان فرق نہیں ہے اور پھر رحمت اللعالمین نے سب انسانوں کو اکٹھا کیا،انسانیت کا پیغام دیا اورانسانوں کو تقسیم نہیں کیا۔اس ریاست کے اوپر کئی صدیوں تک مسلمانوں نے دنیا کی امامت کی ، آج مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جن اصولوں پر انہوں نے مدینہ کی ریاست کھڑی کی تھی ، وہ اصول ان ریاستوں میں نظرآتے ہیں جو مسلمان نہیں ہیں، میں ساری دنیا میں گیا ہوں، سوئٹزرلینڈ، نیوزی لینڈ اور سکینڈینیویا ، ان ملکوں میں آپ چلے جائیں آپ کو زیادہ اسلام نظرآئے گا، وہ مدینہ کی ریاست کے اصولوں کے زیادہ قریب ہیں، وہاں انصاف بھی ہے، انسانیت ہے اور فلاحی ریاست ہے، وہاں میرٹ ہے اورخواتین کو حقوق ملے ہوئے ہیں ، انسانوں میں فرق نہیںکرتے، دنیا میں 50سے زیادہ مسلمان ملک ہیں اور بڑے کم مسلمان ملکوں میں آپ کو وہ مدینہ کی ریاست کے اصول نظرآئیں گے۔ میں آج (جمعرات)کورحمت اللعالمین اتھارٹی کاآغاز کررہا ہوں،میرا صرف اورصرف مقصد یہ ہے کہ ہمارے بچے، بچے کو سمجھ آئے کہ نبیۖ کا پیغام کیا تھا، سیرت النبیۖ کیا تھی،سب کو پتا چل جائے، اللہ تعالیٰ کسی کو ایمان دیتا ہے یا نہیں دیتا وہ تواللہ کا تحفہ ہے لیکن ہم اپنی ریاستی ذمہ داری انسانوں حوالہ سے پوری کریں، اپنے بچوں کو بتائیں کہ نبیۖ کی سیرت کیا تھی، ان کا راستہ کیا تھا۔ آج جو ہم یہاں جمع ہوئے ہیں اس کا مقصد ایک ہے کہ ہم اس فلاحی ریاست کے راستے پر چلے جائیں اوراس کے لئے میں سب سے پہلے توآج اپنی قوم کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور ایف بی آر کا بھی کہ انہوں نے پہلی دفعہ پاکستان میں اتنا زیادہ ٹیکس اکٹھا کیا ہے، ہم نے پاکستان میں ریکارڈ ٹیکس اکٹھا کیا ہے اوراس کی وجہ سے میں نے پرسوں جبکہ دنیا میں تیل اور بجلی کی قیمتیں اوپر جارہی ہیں ، پانچ روپے بجلی کی قیمت کم کردی ہے اور 10روپے لیٹر تیل اور ڈیزل کی قیمت کم کردی ہے کیونکہ ہمارے پاس پیسہ زیادہ آیا ہے،میں لوگوں سے کہتا ہوں کہ وہ جتنا زیادہ ٹیکس دیں گے میں وہ نیچے لوگوں کو اوپر اٹھانے کے لئے لگائوں گا، لوگوں پر بوجھ کم کرنے کے لئے اور مہنگائی کم کرنے کے لئے یہ میراوعدہ ہے، وہ کہیں اورپیسہ نہیں جائیگا صرف لوگوں پر لگے گا۔ان کا کہنا تھا کہ ہم کامیاب پاکستان پروگرام میں 45لاکھ خاندانوں کو لے کرآئے ہیں، ایک ، ایک گھر میں اگر شہر میں ہے تو پانچ لاکھ روپے سود کے بغیر قرض اپنا کاروبار شروع کرنے کے لئے اور اگر دیہات میں ہیں تو کسان ساڑھے تین لاکھ روپے قرض بغیر سود اپنی زمین پر لگائے اور20لاکھ روپے بغیر سود قرضہ اپنا گھر بنانے کے لئے اورخاندان میں ایک شخص کو تکنیکی تعلیم دیں تاکہ وہ ہنرسیکھے اوراپنے گھر کے لئے کما سکے۔آئی ٹی ایسا شعبہ ہے کہ ایک بچے کو چھ ماہ اورایک سال میں تربیت دے سکتے ہیں اور وہ پیسے کما سکتا ہے۔ اب تک ہم اڑھائی ارب روپے دے چکے ہیں اوراگلے سال تک ہم ان 45لاکھ خاندانوں کوایک ہزارارب روپے کے قرضے دیں گے اور پھر ہم اس کو بڑھاتے جائیں گے، مقصد یہ ہے لوگ خود اپنے پائوں پر کھڑے ہوں، ہنر سیکھیں، کاروبار کریں، حکومت کے پاس تو کبھی بھی اتنا پیسہ نہیں آئے گا کہ سب کو نوکریاں دے، دے،22کروڑ عوام ہیں حکومت کے پاس تو اتنے وسائل نہیں ہوں گے،ہم لوگوں کی مدد کررہے ہیں کہ وہ اپنے پائوں پر کھڑے ہو سکیں۔ اب تک بینکوں کی جابب سے لوگوں کو گھر بنانے کے لئے 55ارب روپے کے قرضے دیئے گئے ہیں اور ہرہفتے یہ قرضے بڑھتے جارہے ہیں، حکومت سبسڈی دے رہی ہے تاکہ ایک عام آدمی کے لئے سود زیادہ نہ ہو۔ مجھے سب سے زیادہ ہیلتھ کارڈ پروگرام پر فخر ہے، اس مہینے کے آخر تک سارے پنجاب کے خاندانوں کے پاس ہیلتھ کارڈ آجائے گا، ہرخاندان کے پاس10لاکھ روپے کی ہیلتھ انشورنس پنجاب، خیبرپختونخوا، آزاد کشمیر ، گلگت بلتستان اور بلوچستان کے ہر خاندان کے پاس ہو گی۔ صرف سرکاری ہی نہیں کسی بھی اچھے سے اچھے نجی ہسپتال میں جاکر لوگ اپنا علاج کرواسکیں گے۔سب سے بُرا اور مشکل وقت ایک خاندان پر تب آتا ہے جب ایک گھر میں بیماری ہو ، ماں، باپ بیمار ہوں، بچے بیمار ہوں اوران کے پاس علاج کروانے کے لئے پیسہ نہ ہو،اس سے زیادہ ایک گھر میں بے بسی کا عالم نہیں ہوتا۔ ساڑھے تین سال میں مجھے سب سے زیادہ خوشی اس پروگرام سے ملی ہے۔ ہم اس راستے پر نکل گئے ہیں جو پاکستان کی عظمت کا راستہ ہے۔ ZS
#/S