سود کا غیر رسمی نظام بہت بھیانک ،غریب لوگ شدید متاثر ہیں،اس نظام کو ختم کرنا بہت ضروری ہے،سینیٹر اسحاق ڈار
سود سے پاک معاشرے کیلئے اسلامی بینکنگ کے ساتھ غیر بینکاری شعبوں کو بھی ترقی دینی ہوگی
مفتی تقی عثمانی کی جانب سے پیش کی گئی قرار داد کی نقول وزیراعظم کے پاس لیکر جاوں گا،وزیر خزانہ کا سیمینار سے خطاب
کراچی( ویب نیوز)
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ سود سے پاک معاشرے کے حقیقی فوائد حاصل کرنے کے لیے اسلامی بینکنگ کے ساتھ ساتھ غیر بینکاری شعبوں کو بھی اسلامی بنیادوں پر ترقی دینی ہوگی، سود کا غیر رسمی نظام بہت بھیانک ،غریب لوگ شدید متاثر ہیں،اس نظام کو ختم کرنا بہت ضروری ہے۔کراچی میں حرمت سود کے موضوع پر سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا کہ وفاقی شریعت عدالت کے فیصلے کے خلاف جب دو سرکاری بینکوں نے درخواستیں دائر کیں تو مجھے بہت تشویش ہوئی اور میں نے عزم کیا کہ جب بھی پاکستان گیا اور موقع ملا تو میرے پہلا کام یہ درخواستیں واپس کرنا ہوگا۔ اسحق ڈار نے کہا کہ ملک کا مالیاتی نظام معاشی ترقی میں اہمیت کا حامل ہوتا ہے اور اس کے ذریعے ہی ملک کی کاروباری برادری کی ضروریات پوری کرنے کا عمل انجام پاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سود پر مبنی بینکاری نظام روایتی طور پر معیشت کی مختلف مالی ضروریات کو پورا کرتا رہا ہے اور یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ کاروباری طبقے کے ساتھ ساتھ عوام کی جانب سے بینکاری خدمات کا استعمال جدید دور کی زندگی کی ضرورت بن چکا ہے۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ دنیا کی کوشش ہے کہ دور دراز علاقوں کے لوگ بھی بینکنگ نظام میں آجائیں اور ماضی میں ہم نے کوشش کرکے 30 فیصد تک آبادی کو بینکنگ نظام کے ساتھ منسلک کردیا تھا۔ انہوں نے کہا بینکنگ نظام دنیا کی ضرورت بن چکا ہے کیونکہ کیش لین دین پر لوگوں کو شکوک ہوتے ہیں اور اس میں دہشت گردی جیسے عوام میں معصوم لوگ استعمال ہوتے ہیں جس کو روکنے کے لیے بھی بینکنگ نظام ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی مالیاتی نظام کا مقصد وسیع تر انصاف کا حصول اور مقصد شریعت کو عملی جاما پہنانا ہے تاکہ سماجی اور اقتصادی ترقی کو حاصل کیا جا سکے اور معاشرے کی تمام طبقات کی بنیادی ضروریات پوری کی جا سکیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ سودی نظام شریعت میں جائز نہیں ہے کیونکہ ایک بار آپ نے پیسے دے دیے پھر کسی کا کام چلے یہ نہ چلے آپ کو پیسے چاہئیں، مگر بدقسمتی سے سود کا غیر رسمی نظام بہت بھیانک ہے جس میں غریب لوگ شدید متاثر ہیں جن کی بینکنگ نظام تک رسائی نہیں ہوتی لیکن اس نظام کو ختم کرنا بہت ضروری ہے۔انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت اسلامی بینکنگ نظام میں دلچسپی بھی رکھتی ہے اور عملی طور پر کوشش بھی کر رہی ہے۔ اسلامی بینکوں کے اثاثے 7 ٹرلین روپے ہیں اور ان کے ڈپوزٹس 5 ہزار ارب کے ہیں یعنی اس کا بنیاد ہو چکا ہے لیکن ہمیں نیت کے ساتھ پاکستان میں اس کو کامیاب نظام بنانا ہے۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ گزشتہ کچھ برس سے ہمارے پاس یہ نظام ہے مگر اب یہ ہم پر ہے کہ اس کو کس طرح آگے لے جاتے ہیں مگر اس وقت ملک میں 21 فیصد اسلامی بینکنگ نظام آ چکا ہے جبکہ ابھی مزید تیز رفتاری سے بڑھنا ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ سود سے پاک معاشرے کے حقیقی فوائد حاصل کرنے کے لیے اسلامی بینکنگ کے ساتھ ساتھ غیر بینکاری شعبوں کو بھی اسلامی بنیادوں پر ترقی دینی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ 2013 سے ہم نے ملک میں اسلامی مالیاتی نظام کو فروغ دینے کے لیے کافی اقدامات کیے جن میں سے تمام اہم شراکت داروں پر مشتمل اعلی سطح کی اسٹرینگ کمیٹی تشکیل دی گئی جس پر 3 سال کام ہوا اور 2016 میں اس کمیٹی نے سفارشات مرتب کیں۔ کمیٹی کی سفارشات کے پیش نظرمولانا تقی عثمانی نے تجویز کیا کہ اسٹیرنگ نافذ کمیٹی بھی بنائی جائے جس کے لیے بھی میں نے 2016 میں نوٹی فکیشن جاری کردیا مگر 2016 کے بعد ملک میں پاناما کے ڈرامے شروع ہوئے جس میں تمام کم رک گیا اور آج ہم وہاں کھڑے جہاں پہلے کھڑے تھے۔ وزیر خزانہ نے مزید کہا کہ جہاں 2016 میں ہم پہنچے تھے اگر وہ سلسلہ جاری ہوتا تو آج ہم 40 فیصد اسلامی بینکنگ نطام حاصل کر چکے ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اگر اس نظام پر تیزر رفتاری سے کام کریں تو 5 سال میں بہت کچھ کر سکتے ہیں، مزید کہا کہ گزشتہ حکومت میں ہم نے اسلامی نظام کے تحت کام کرنے والی کمپنیوں کو 2 فیصد ٹیکس میں بھی رعایت دی۔ انہوں نے مزید کہا کہ جس رفتار سے پاکستان ترقی کر رہا تھا دنیا کے ممالک نے کہا کہ پاکستان جی 20 کا رکن بھی بن جائے گا لیکن اب بھی دیر نہیں ہوئی جس طرح اسلامی بینکنگ نطام کو فروغ دینا ہے اسی طرح پاکستانی معیشت کو بھی ٹھیک کرنا ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ 2013 میں بھی پاکستان کے دیوالیہ ہونے کی باتیں کی گئیں مگر ہم نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور اچھی کارکردگی دکھائی جس پر دنیا نے پاکستانی معیشت کی تعریف کی۔ اسحاق ڈار نے مزید کہا کہ اس ملک پر دنیا کی بدترین معاشی پابندیاں عائد ہوئیں مگر کبھی کسی چیز کی کمی نہیں ہوئی مگر بدقسمتی سے ہم اپنے ملک کے خود ہی دشمن ہیں۔ ہم اپنی آمدنی سے زیادہ خرچ کرتے ہیں اگر مالیاتی نظم و ضبط نافذ کریں تو اس ملک کے وزیر خزانہ کو پانچ سال تک جلاوطن رہنا پڑتا ہے۔ وزیر خزانہ نے مزید کہا کہ عام بینکوں کے مقابلے اسلامی بینکنگ نظام کو فروغ دینا ہوگا اور مزید بہتری لانی ہوگی اور پھر ایسا نہ ہو کہ جس طرح ٹیکس سے بھاگ رہے ہیں بعد میں زکوات سے بھی دور بھاگیں۔ مفتی اعظم مفتی تقی عثمانی کی اس تجویز کی تائید کی کہ سودی بینکنگ کو مزید برانچ کھولنے کی اجازت نہ دی جائے اور ان کو جواب دیا کہ ملک ادھار پر چلتا ہے اتنے پیسے نہیں ہیں کہ اسلامی بینکوں میں رکھے جائیں۔انہوں نے کہا کہ مفتی تقی عثمانی نے جو قراردادیں پیش کی ہیں ان کے نقل وزیراعظم کے پاس لے جائوں گا کیونکہ ان میں پارلیمان سمیت ایک سے زائد وزارت کی مداخلت ہے۔انہوں نے کہا کہ ملک میں رائج سود کے نظام کو ختم کرنا ہے، اگر ہم خلوص نیت سے صرف اللہ کی رضا کے لیے فیصلہ کریں تو 5 سال میں ملک سے سود کا خاتمہ ہو سکتا ہے، زکو و عشر کا نظام اپنانا چاہیے۔ملک میں رائج سود کے نظام کو ختم کرنا ہے، اللہ کرے میرے پاس ایسا جادو ہو کہ میں ایک ہفتے، ایک ماہ میں سود ختم کردوں، لیکن ریاست کا کاروبار ہے جس میں سود 75 سال سے جاری ہے۔