امریکا سمیت کسی بھی ملک سے امداد مانگنے سے نفرت ہے: عمران خان
امریکا سے امداد نہیں تعاون مانگا ہے۔ برابری کی بنیاد پر دوستی چاہتے ہیں
 ہم امداد نہیں تجارت چاہتے ہیں۔ کوئی بھی قوم امداد سے نہیں چل سکتی 
  سیاسی جماعتوں سے نہیں بلکہ مافیا سے نبرد آزما ہوں  ،اپوزیشن ملک کو غیر مستحکم کرنے میں مصروف ہے
ہمارے ملک کی تنزلی کی وجہ بد عنوانی ہے،کرپشن کی وجہ سے دہشت گردی کے مقابلے میں زیادہ اموات ہو رہی ہیں
 افغان طالبان سے ملاقات کر کے انہیں امن مذاکرات کے لیے قائل کرنے کی کوشش کریں گے
  پاکستان کو امن اور استحکام کی ضرورت ہے  اس کیلئے ہمسایہ ملکوں کے ساتھ اچھے تعلقات ہونے چاہئیں
 پاکستان اور بھارت کے درمیان  بنیادی مسئلہ مقبوضہ کشمیر کا ہے۔مسئلہ کشمیر کا حل کشمیری عوام کی امنگوں میں ہے
 ایران تنازعہ کے فریق ملکوں کو معاملے کی سنگینی  کا ادراک ہونا چاہیے
 ایران تنازعے سے ہمسایہ ملک کی حیثیت سے پاکستان  زیادہ متاثر ہوسکتا ہے 
ہم کسی مسلح گروہ کو اپنی سرزمین استعمال نہ کرنے دیں
ہم  اپنے ملک میں اقلیتوں  کا مکمل تحفظ یقینی بنارہے ہیں
پاکستانی میڈیا برطانوی  میڈیا سے زیادہ آزاد ہے،وزیراعظم کاامریکی تھنک ٹینک یو ایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس سے خطاب
واشنگٹن(صباح نیوز)وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ  23 سالہ جدوجہد کے بعد اقتدار میں آیا تو لگا کہ میں سیاسی جماعتوں سے نہیں بلکہ مافیا سے نبرد آزما ہوں  ،اپوزیشن ملک کو غیر مستحکم کرنے میں مصروف ہے ،امریکا سے امداد نہیں تعاون مانگا ہے۔ برابری کی بنیاد پر دوستی چاہتے ہیں۔ ہم امداد نہیں تجارت چاہتے ہیں۔ کوئی بھی قوم امداد سے نہیں چل سکتی۔ کسی بھی ملک سے امداد مانگنے سے نفرت ہے۔ ہمارے ملک کی تنزلی کی وجہ بد عنوانی ہے۔   امریکا سے وطن واپس پہنچ کر افغان طالبان سے ملاقات کر کے انہیں امن مذاکرات کے لیے قائل کرنے کی کوشش کریں گے۔  پاکستان کو امن اور استحکام کی ضرورت ہے اور اس کیلئے ہمسایہ ملکوں کے ساتھ اچھے تعلقات ہونے چاہئیں۔، پاکستان اور بھارت کے درمیان  بنیادی مسئلہ مقبوضہ کشمیر کا ہے۔مسئلہ کشمیر کا حل کشمیری عوام کی امنگوں میں ہے،ہم  اپنے ملک میں اقلیتوں  کا مکمل تحفظ یقینی بنارہے ہیں۔ ماضی میں ایک مخصوص مذہبی گروپ نے ملک کو  یرغمال بنا رکھا تھا، پاکستانی میڈیا برطانوی  میڈیا سے زیادہ آزاد ہے، امریکی تھنک ٹینک یو ایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس سے خطاب   اور سوالات کے جواب کے دوران وزیر اعظم عمران خان نے کہاکہمیں آزاد ملک میں پیدا ہونے والی نسل میں سے ہوں ، ہمارے والدین  نو آبادیاتی نظام کے دور میں پیدا ہوئے ، پاکستان نے 60 کی دہائی میں تیزی سے ترقی کی ،70 کی دہائی کے بعد پاکستان کے حالات  خراب ہونا شروع ہوگئے ، سپورٹس کے بعد میں نے سماجی کام شروع کیے ، کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد کینسر ہسپتال بنایا ، میری والدہ کینسر سے اللہ کو پیاری ہوئیں اس وقت ملک میں کینسر کا کوئی ہسپتال نہ تھا بعد میں احساس ہوا کہ صرف سماجی کاموں سے ملکی حالات نہیں بدلے  جس کیلئے ملکی حالت بدلنے کیلئے سیاست میں آنا ضروری ہے ،  وزیر اعظم نے کہاکہ ہمارے ملک کی تنزلی  کی بنیادی وجہ بدعنوانی ہے ۔حکمران طبقے کی کرپشن  نے ملک کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا  میں نے 15 سال تک کرپشن کیخلاف  جدوجہد کی 15 سال کی مسلسل جدوجہد کے بعد لوگوں میں شعور پیدا کرنے میں کامیابی ملی۔ وزیراعظم نے کہاکہ اقتدار میں آنے کے بعد کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑا سب سے پہلا مسئلہ مشکل اقتصادی صورتحال تھی ۔ سابقہ حکمرانوں کی کرپشن سے ملک دیوالیہ  ہونے کے  قریب تھا ۔ دنیا میں غربت کی سب سے بڑی وجہ حکمران طبقے کی کرپشن ہے، کرپشن کی وجہ سے دہشت گردی کے مقابلے میں زیادہ اموات ہو رہی ہیںکیونکہ منی لانڈرنگ کی وجہ سے بھوک افلاس کا گراف بڑھ رہا ہے اور لوگ مر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ کرپٹ سیاستدان ریاستی اداروں کو تباہ کرتے ہیں، اگر مذکورہ ادارے مضبوط ہوں گے تو منی لانڈرنگ کے امکانات نہیں ہوں گے۔وزیراعظم نے کہا کہ لوٹی ہوئی دولت تو واپس لی جاسکتی ہے لیکن تباہ شدہ اداروں کو دوبارہ کھڑا کرنا انتہائی مشکل ہے ۔عمران خان کا کہنا تھا کہ میں سیاسی جماعتوں کے ساتھ نہیں لڑرہا بلکہ ایک مافیا کے ساتھ لڑ رہا ہوں۔ملک کو اس وقت بڑے کرنٹ اکائونٹ خسارے کا سامنا ہے ۔ ادارے مستحکم ہوں تو کالے دھن کو سفید نہیں کیا جاسکتا، اداروں کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے میں کچھ وقت لگے گا ، ہماری حکومت کی ترجیح تمام ہمسایوں سے اچھے تعلقات قائم  کرنا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ خطے کی ترقی کیلئے امن ناگزیر ہے، امن کے بغیر ترقی ممکن نہیں  حکومت سنبھالتے ہی بھارت کو مذاکرات کی پیش کش کی۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان  بنیادی مسئلہ مقبوضہ کشمیر کا ہے۔ پاکستان اور بھارت کا سب سے بڑا مسئلہ غربت ہے۔ دوسرا ہمسایہ ہمارا افغانستان ہے ہم نے صدر اشرف غنی کو پاکستان مدعو کیا ۔ پاکستان اور امریکہ  اس بات پر متفق ہیں کہ افغان مسئلے کا فوجی حل ممکن نہیں۔ ہماری خارجہ پالیسی  میں امریکہ  کے ساتھ اچھے تعلقات کی اہمیت ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ  سے ملاقات سے پہلے مجھے بہت تجاویز دی گئیں ۔ امریکی صدر سے ملاقات بہت خوشگوار تجربہ رہا ۔ جس طرح امریکی صدر نے ہماری  مہمان نوازی کی وہ قابل تعریف ہے۔ عمران خان  نے کہا کہ  پاکستانی عوام سمجھتے رہے کہ وہ امریکی جنگ لڑ رہے ہیں ، افغان جنگ کی ہم نے بہت بھاری قیمت ادا کی۔ ہم نے اس جنگ میں 70 ہزار جانوں کی قربانی دی ۔ اس کے باوجود دونوں ملکوں کے درمیان عدم اعتماد کی فضا تھی۔ میرا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ افغان مسئلہ طاقت کی بجائے مذاکرات سے حل ہوسکتا ہے ۔ جنگ مسئلے کا حل نہیں ہے ۔ امریکہ کو ہر ایک کو یہی سمجھاتا  رہا کہ افغان مسئلے کا فوجی حل ممکن نہیں ۔ امریکی عوام کو افغان تاریخ کے بارے میں زیادہ معلوم نہیں تھا۔ عمران خان نے  کہاکہ اس وقت پاکستان کے امریکہ کے ساتھ بہترین تعلقات ہیں۔ دونوں ملکوں کا  افغان مسئلے پر یکساں موقف ہے ۔ پہلی بار پاکستانی منتخب حکومت ، سیکورٹی ادارے اور امریکی انتظامیہ  ایک صفحے پر ہیں۔ افغان مسئلے کا کوئی آسان حل ممکن  نہیں تاہم مل کر پائیدار حل نکال سکتے ہیں۔ وزیراعظم نے کہاکہ سیاسی محاذ پر مجھے محسوس ہوا کہ سیاسی جماعتوں کی بجائے مافیا سے لڑ رہا ہوں ۔ سپریم کورٹ بھی سابق حکمرانوں کو سسلین مافیا سے تشبیہ دے چکی ہے۔ مجھے پاکستانی نوجوانوں  کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ حکومت میں آنے کے بعد ہم نے سب سے پہلے  مافیا پر ہاتھ ڈالا۔ 10 ماہ کے بعد میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ہم معیشت مستحکم کرسکتے ہیں۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ ملک لوٹنے والوں سے جو رقم وصول کریں گے وہ غریبوں پر خرچ ہوگی ۔ انہوں نے کہا کہ ہم دینی مدارس کی اصلاحات  پر کام کررہے ہیں دینی مدارس کے نصاب میں جدید عصری علوم  بھی شامل کررہے ہیں ۔ پاکستان میں ٹیکس دینے کی شرح بہت  کم ہے۔ ٹیکس نظام کو بہتر کرکے ملک کو اپنے پائوں پر کھڑا کررہے ہیں ۔  2008ء میں پاکستان کل قرضہ 6 ہزار ارب روپے تھا  صرف 10 سال میں  سابقہ حکمرانوں نے 30ہزار ارب تک پہنچایا ۔ گزشتہ سال  ملک کی مجموعی  آمدن کا نصف قرضوں پر سود کی ادائیگی میں چلا گیا۔ ہماری حکومت ملک میں صنعتوں کی حوصلہ افزائی کررہی ہے ۔ ملک سے غربت کے خاتمے کیلئے اقدامات کررہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کبھی کثیر الجہتی نہیں رہے جبکہ امریکی ادارہ برائے امن میں سوال و جواب کے سیشن میں وزیراعظم نے کہاکہ افغان جہاد کے خاتمے کے بعد امریکہ خطے سے چلا گیا پاکستان کو  امریکہ کی جانب سے پریسلر پابندیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا ۔ نائن الیون کے بعد ایک بار پھر پاکستان امریکہ قریب آئے۔ میں نے امریکی جنگ میں شمولیت کی مخالفت کی تھی ۔ نائن الیون سے پہلے ہمیں قبائلی علاقوں میں فوجی بھیجنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی ۔2004ء میں پہلی بار پاک فوج کو قبائلی علاقوں میں آپریشن  کیلئے بھیجا گیا ۔ پشاور اے پی  ایس سانحے کے بعد تمام  سیاسی جماعتوں نے نیشنل ایکشن پلان پر دستخط کیے۔  ہماری  پہلی حکومت ہے جو ملک میں مسلح  گروہوں کیخلاف عملی اقدامات کررہی ہے۔ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو یہ خدشہ رہا ہے کہ مغربی سرحد پر بھی چیلنجز درپیش ہوسکتے ہیں اس وقت پاکستان میں سیاسی  اور عسکری قیادت ایک صفحے پر ہیں۔ فوجی قیادت منتخب جمہوری قیادت کے ساتھ کھڑی ہے۔ افغان طالبان قیادت چند ماہ پہلے مجھ سے ملنا چاہ رہی تھی افغان حکومت نہیں چاہتی تھی کہ طالبان قیادت مجھ سے ملاقات کرے ۔افغانستان میں آنے والے انتخابات میں طالبان کی شمولیت ضروری ہے ۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم  اپنے ملک میں اقلیتوں  کا مکمل تحفظ یقینی بنارہے ہیں۔ ماضی میں ایک مخصوص مذہبی گروپ نے ملک کو  یرغمال بنا رکھا تھا ۔ ہماری حکومت میں جیسے ہی وہ سڑکوں پر آئے انہیں گرفتار کرکے جیل میں  بند کردیا گیا۔ عملی اقدامات مغربی دبائو میں نہیں کررہے بلکہ اقلیتیں بھی ہمارے شہری ہیں،ان خان کا کہنا تھا کہ سابقہ حکومت ایک مذہبی گروپ کے دباو کی وجہ سے توہین مذہب کی ملزمہ آسیہ بی بی کا مقدمہ چلانے پر آمادہ نہیں ہوئی، حکومت مذکورہ گروپ کے ہاتھوں یرغمال ہو چکی تھی۔انہوں نے کہا کہ جب سپریم کورٹ کا فیصلہ آسیہ بی بی کے حق میں آیا تو اسی مذہبی گروہ نے ریاست کو 2 دن تک یرغمال بنائے رکھا لیکن حکومت نے عدالتی فیصلے کا احترام اور اقلیتی خاتون کا استحقاق مجروع نہیں ہونے دیا اور انہیں مکمل تحفظ فراہم کیا۔وزیراعظم نے کہا کہ آپ دیکھیں گے یہ حکومت اپنی اقلیتوں کو شہریوں جیسے حقوق دے گی، ہمارے مذہب اور آئین میں اقلیتوں کو دیگر شہریوں کی طرح یکساں حقوق حاصل ہیں، انہوں نے کہا کہ پاکستانی میڈیا برطانوی  میڈیا سے زیادہ آزاد ہے ، میں برطانیہ میں رہ چکا ہوں وہاں کا میڈیا ایسی کوئی چیز نشر نہیں کرسکتا جیسا پاکستان میں ہوتا ہے۔بدقسمتی سے پاکستانی میڈیا پر میری ذات سے متعلق بھی بے بنیاد خبریں  پھیلائی جاتی ہیں۔ ایک طرف آپ تباہ حال معیشت درست کررہے ہیں   دوسری طرف بعض میڈیا بے بنیاد خبریں  پھیلا رہا ہے۔وزیراعظم کا کہنا تھا امریکا میں بھی میڈیا کو اتنی چھوٹ نہیں جیسا کہ میڈیا کا صدر ٹرمپ کے درمیان محبت اور نفرت کا رشتہ قائم ہے کہ وہ برسراقتدار حکومت کے وزیراعظم کی ذاتی زندگی کے بارے میں منفی رائے قائم کرے۔عمران خان نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے دور میں صحافی غائب ہو جایا کرتے تھے، مسلم لیگ (ن)کے دور میں صحافیوں کے ساتھ مار پیٹ کی گئی۔انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ریاست کو میڈیا کنٹرول نہیں کرنا چاہیے لیکن ایک ریگولیٹری اتھارٹی میڈیا کے معیارات کا جائزہ لے۔عمران خان نے کہا کہ یہ سینسر شپ نہیں ہے لیکن ہم نگراں اداروں کو مضبوط بنائیں گے۔ عمران خان  نے کہاکہ شکیل آفریدی نے ایک این جی او کی آڑ میں  جاسوسی کی وہ پولیو مہم کی آڑ میں جاسوسی کرتا کررہا۔ شکیل آفریدی کے واقعے کے بعد کئی پولیو ورکرز کو انتقاماً نشانہ بنایا گیا ۔ ایک سوال کے جواب میں وزیر اعظم نے کہاکہ  سابق صدر مشرف اور سابق بھارتی وزیراعظم  واجپائی مسئلہ کشمیر کے حل کے قریب پہنچ چکے تھے مسئلہ کشمیر کا حل کشمیری عوام کی امنگوں میں ہے۔ عمران خان نے کہا کہ پاکستان میں آزاد میڈیا کا سب سے بڑا فائدہ مجھے رہا ہے۔ پاکستان میں میڈیا کی آزادی کے پس پردہ کئی عوامل کارفرما ہیں ۔ پانامہ اسکینڈل آنے کے بعد ایک بڑے چینل نے ملوث افراد کو بچانے کیلئے ہر حربہ استعمال کیا ۔ میڈیا کو ذاتی  حملے اور سیاسی فریق نہیں بننا چاہیے اگر پاکستان میں میڈیا مالکان  سے  ٹیکسز  کا پوچھا جائے تو وہ اسے بھی میڈیا آزادی پر حملہ گردانتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان مشکل حالات میں مدد کرنے پر سعودی عرب اور یو اے ای کا شکر گزار ہے ایران تنازعہ کے فریق ملکوں کو معاملے کی سنگینی  کا ادراک ہونا چاہیے۔ ایران تنازعے سے ہمسایہ ملک کی حیثیت سے پاکستان  زیادہ متاثر ہوسکتا ہے ۔ ہم نے  سوشل میڈیا کے  ذریعے  سیاسی جماعتوں کی اجارہ داری ختم کی ۔ انہوں نے کہاکہ معلومات کی رسائی اور حقوق کی آگاہی کے حوالے سوشل میڈیا کا اہم کردار ہے۔ وزیراعظم نے کہاکہ فوجی آپریشن کے باعث قبائلی علاقوں میں بڑا جانی نقصان ہوا ۔ نقصان کے بعد مقامی آبادی میں غم و غصہ پایا جانا فطری عمل ہے۔ ہماری حکومت نے قبائلی علاقوں کی ترقی کیلئے بھاری فنڈز مختص کیے ہیں۔  یہ پاکستان کے مفاد میں ہے کہ ہم کسی مسلح گروہ کو اپنی سرزمین استعمال نہ کرنے دیں ۔ پی ٹی ایم کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ پشتون تحفظ موومنٹ کے مسائل حقیقی ہیں، یہ نوجوان لوگ ہیں جو بہت جذباتی ہیں اور پاک فوج پر حملہ کر رہے ہیں، الیکشن ہو گئے ہیں یہاں پر مسائل حل ہو جائینگے۔ جنگ کے دوران ان کو بہت سارے نقصان کا سامنا کرنا پڑا، ہم مسائل حل کرنے کے لیے کوشش کر رہے ہیں جس کی مثال قبائلی اضلاع میں الیکشن کرانا ہیں، اب ہمیں وہاں ترقیاتی کام کریں گے اور ان کے مسائل حل کرنیکی کوشش کریں گے۔وزیراعظم عمران خان نے کہاکہ مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی تحریک مکمل طورپر مقامی ہے ،کشمیری نوجوان بھارتی مظالم سے تنگ آکر بندوق اٹھانے پر مجبور ہوئے۔ اگر مسلح فوج ہمارے ساتھ نہ ہوتی تو عسکری گروہوں کو غیر مسلح نہ کرپاتے امریکہ کے ساتھ باہمی احترام پر مبنی دوستانہ تعلقات چاہتے ہیں۔ افغانستان میں امن ہمارا مشترکہ مفاد ہے ۔ ہر قوم کی عزت نفس حمیت ہوتی ہے جس پر سمجھوتہ نہیں ہوسکتا ،ہم عزت برابری اور باہمی مفاد پر مبنی تعلقات کے حق میں ہیں۔am-auz-mz
#/S