- سپریم کورٹ ، گورنر کو بلا کر بھی الیکشن کی تاریخ دینے کے حوالے سے کوئی حکم نہیں دے سکتی، صدر مملکت کا الیکشن کی تاریخ دینا آئین کیخلاف ہے،ماہرقانون
اسلام آباد (ویب نیوز)
ماہر قانون جسٹس (ر)شائق عثمانی نے کہا ہے کہ آئین میں چیف الیکشن کمشنر کی ڈیوٹی انتخابات کرانا ہے۔ انتخابات کی تاریخ دینا چیف الیکشن کمشنر کی ذمہ داری ہے، اگر عدالت نے بلانا ہی تھا تووہ وزیر اعظم کو بلاتی اورانہیں کہتی کہ آپ چیف الیکشن کمشنر کو ہدایات دیں کہ وہ الیکشن کرائے، یہ درست فیصلہ ہوتا۔ آئین کے مطابق چیف الیکشن کمشنر کی ذمہ داری ہے کہ وہ 90دن کے اندر الیکشن کرائے یا پھر وہ مستعفی ہو کر چلا جائے یا اُس کو نکال دیا جائے۔ تاریخ مقرر کرنا کہ اتنے دنوں کے بعد الیکشن ہونے چاہئیں، کو ن ہدایت دے گا ، کون تاریخ مقرر کرے گا ، یہ کام سپریم کورٹ آف پاکستان نہیں کرسکتی۔ ان خیالات کااظہار جسٹس (ر)شائق عثمانی نے ایک نجی ٹی وی سے انٹرویو میں کیا۔جسٹس (ر)شائق عثمانی نے کہا کہ یہ آئین میں کہیں نہیں لکھا ہوا کہ اگر اسمبلی تحلیل ہو جاتی ہے تواس کے ایک ماہ بعد الیکشن کی تاریخ دے دی جائے، وہاں صرف یہ لکھاہوا ہے کہ 90دن کے اندرالیکشن کرانے ہیں اور وہ سیدھی ، سیدھی ذمہ داری چیف الیکشن کمشنر کے اوپر ہے۔ آئین کے آرٹیکل 148کے تحت چیف الیکشن کمشنر نے 90دن کے اندر، اندر الیکشن کراکردینے ہیں،اگر وہ نہیں کراتا تواس صورت میں آپ اس کو الٹا لٹکادیں۔ فرض کریں اگر عدالت کہتی ہے کہ آپ فلاں دن الیکشن کرائیں ، وہ نہیں کراسکتے تو پھر عدالت کیا کرسکتی ہے۔جسٹس (ر)شائق عثمانی نے کہا کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے انتخابات کے حوالے سے لئے گئے ازخود نوٹس کی سماعت کے لئے جو9رکنی بینچ کی تشکیل ہوئی ،اس کے خلاف کافی لوگوں کو تحفظات ہیں، پہلی بات تویہ کہ یہ کیس ازخود نوٹس کا بنتا ہی نہیں تھا، ازخود نوٹس کیوں لیا گیا یہ بات سمجھ میں نہیں آئی، آئین کے آرٹیکل 184-3کے تحت جو کارروائی ہوتی ہے اس میں یہ ہوتا ہے کہ کوئی بنیادی حقوق کی بہت بڑی خلاف ورزی ہوئی ہو، یہاں تو بنیادی حقوق کی کوئی خلاف ورزی نہیں، صرف مقصد یہ تھا کہ الیکشن کب ہونے ہیں، الیکشن اپریل میں بھی ہو سکتے ہیں اور مئی میں بھی ہوسکتے ہیں۔حکومت موجود تھی اور انہوں نے اپنی مرضی سے اسمبلیاں تحلیل کی ہیں، اس کے بعد آئین کے مطابق نگران وزرائے اعلیٰ بن گئے اور آئین میں لکھا ہے کہ 90دن کے اندر، اندر الیکشن کرانے ہیں اور وہ کام چیف الیکشن کمشنر کا ہے کہ وہ الیکشن کرائے اگر وہ نہیں کراتا تواس کے ساتے جو مرضی کردیں بے شک اس کو برطرف کردیں۔ صدر مملکت ڈاکٹرعارف علوی کی جانب سے پنجاب اور خیبر پختونخوا الیکشن کی تاریخ دینا آئین کے خلاف ہے۔ الیکشن ایکٹ2017 کی دفعہ 57کے تحت صدر مملکت نے تاریخ دی ہے جو کہ جنرل الیکشن کے حوالے سے ہے اور صوبوں کا تواس میں نام ہی نہیں ہے۔ جنرل الیکشن وہ ہوتے ہیں جو پورے ملک میں ہوتے ہیں۔ اگر الیکشن کمشنر 90روز کے اندر الیکشن نہیں کراتا تواسے نکال دیں، الٹالٹکادیں اور پھانسی چڑھا دیں،اُس کے ساتھ جو مرضی کریں یہ اُس کا قصور ہے، جس آدمی کا کام ہے وہ کرے۔عدالت کوئی حکم نہیں دے سکتی، اگر عدالت اس طرح ایگزیکٹو کے معاملات میں مداخلت کرنے لگے تو پھر ملک چلنا مشکل ہو جائے گا، عدالت کا یہ کام ہی نہیں ہے، عدالت کا کام تنازعات کو حل کرنا ہے، تمام عدالتوں میں کیسز کا انبار لگا ہے، 20،20سال سے کیسز چل رہے ہیں ، ان کا کام کیسز کے فیصلے کرنا ہے، ان کا یہ کام نہیں کہ الیکشن کی تاریخ مقرر کریں۔ جو عدالت کا کام ہے وہ عدالت کرے، جو پارلیمنٹ کا کام ہے وہ پارلیمنٹ کرے اورجو ایگزیکٹو کا کام ہے وہ ایگزیکٹو کرے، یہی ٹرائیکاٹومی آف پاورز کہلاتی ہے۔ سپریم کورٹ ، گورنر کو بلا کر بھی الیکشن کی تاریخ دینے کے حوالے سے کوئی حکم نہیں دے سکتی، آئین میں کچھ لکھا ہی نہیں ہے تو پھر کیسے سپریم کورٹ حکم دے سکتی ہے۔ وزیر اعلیٰ اسمبلی تحلیل کرسکتا ہے اگر گورنر تحلیل نہیں کرتا تو خودبخود ہو جاتی ہے، جسٹس اطہر من اللہ سے مودبانہ گزارش کے ساتھ کہ یہ دیکھنا ان کا م نہیں ہے کہ اسمبلی آئینی طور پر تحلیل ہوئی یا نہیں کیونکہ کسی نے اسمبلی کی تحلیل کو چیلنج نہیں کیا۔ایک سوال پر جسٹس (ر)شائق عثمانی کا کہنا تھاکہ یہ مکمل طور پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی صوابدید ہوتی ہے کہ وہ کتنے رکنی بینچ بنائیں اور کس کیس کو کس بینچ کے سامنے پیش کریں، میری نظر میں تویہ صحیح نہیں ہے، لیکن بہرصورت یہ سپریم کورٹ کے رولز میں ہے، اس لئے ہونا یہ چاہیے کہ کمیٹی تشکیل ہونی چاہئے اوروہ کمیٹی فیصلہ کرے کہ کون ساکیس کس کے پاس جائے گا اور کتنے ججز ہوں گے، عدالت کے لئے سب سے ضروری چیز یہ ہے کہ شفافیت ہونی چاہیے ، کوئی کسی کوعدالت کے ایکشن پر شبہ اور تحفظات نہیں ہونے چاہیں، اگر ایسے شبہات پیداہوجائیں تو پھر عدالت کا ہونا تو بیکار ہو گیا۔