- اگر ابھی انتخابات نہ ہوئے تو پھر اکتوبر میں بھی انتخابات ہونے کے امکانات کم ہیں۔
- ہمیں کنٹرول کرنے کے لیے 2018 کے انتخابات میں ہماری نشستیں کم کی گئی تھیں
- جنرل باجوہ نے امریکیوں کو بھی میرے خلاف کیا تھا، اس نے حسین حقانی کو ہائر کیا ہوا تھا
- چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کا زمان پارل میںنیو ز پورٹل اردو نیوز کو انٹرویو
لاہور (ویب نیوز)
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے کہا ہے کہ حکومت سے مزاکرات صرف الیکشن پر ہی ہو سکتے ہیں اور ان مزاکرات کا بھی وہ خود حصہ نہیں بنیں گے۔ نیوز پورٹل اردو نیوز کو دیے جانے والے انٹرویو میں عمران خان نے کہا کہ وہ حکومت کے ساتھ مذاکرات میں نہیں بیٹھیں گے اور اگر بات چیت ہوئی تو وہ ان کی پارٹی کے دیگر اراکین کریں گے۔ اگر مذاکرات ہوں گے تو وہ صرف الیکشن کے نقطے پر ہوں گے تاہم وہ خود ا ن لوگوں کے ساتھ نہیں بیٹھیں گے جن کو وہ چور اور کرپٹ کہتے رہے ہیں۔ لیکن بات صرف الیکشن کی ہے۔ اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ 90 دن میں الیکشن کا ہونا ہے۔گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کی بڑی بڑی باتیں چھوڑیں، ۔ اگر آپ الیکشن ہی نہیں کروا سکتے تو کون سا ڈائیلاگ کرنا ہے کسی سے۔عمران خان نے کہا کہ اگر نوے دن میں نہیں ہوتے تو پھر اکتوبر میں کیوں ہوں؟ پھر کہیں گے اگلے سال بھی کیوں ہوں؟ پھر تو جو طاقت ور فیصلہ کرے گا وہی ہو گا۔پی ڈی ایم کی جانب سے سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ پر عدم اطمینان کے اظہار پر ردعمل دیتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ نہ ماننے کا مطلب ہو گا کہ ملک میں آئین اور قانون ختم ہو گیا۔اس کا مطلب ہے کہ آپ فیصلہ کریں گے کہ کون سی سپریم کورٹ کا فیصلہ ماننا ہے؟ انھوں نے کہا کہ اسی سپریم کورٹ نے ہمارے خلاف فیصلہ دیا جب ہم نے الیکشن کا اعلان کیا اور شہباز شریف وزیر اعظم بنا، ہم نے تو فیصلہ قبول کیا۔تب وہ سپریم کورٹ ان کے لیے ٹھیک تھا۔ آج ان کو لگ رہا ہے کہ ان کے خلاف جائے گا، تو یہ سپریم کورٹ کو متنازع بنا رہے ہیں۔عدالت عظمی کا بھرپور ساتھ دیں گے۔ سپریم کورٹ کے ججز کی حالیہ تقسیم کے پیچھے نواز شریف کا ہاتھ ہے اور یہ ان کی پرانی روش ہے۔ اس میں نواز شریف کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ اس نے پہلے بھی 1997 میں سپریم کورٹ کو تقسیم کیا تھا ۔ اپنے مفادات کے لیے اس نے سپریم کورٹ کو تقسیم کیا تھا۔ سو فیصد، اس کے پیچھے بیانات دے رہا ہے۔ اس کی بیٹی ججز کے پیچھے بیانات دے رہی ہے۔انہوں نے پی ڈی ایم کی طرف سے سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ کا فیصلہ نہ ماننے کے اعلان پر شدید تنقید کی اور کہا کہ ان کی جماعت عدالت عظمی کا بھرپور ساتھ دے گی۔وہ ہیں کون فیصلہ نہ ماننے کے لیے، آپ کی حیثیت کیا ہے؟ ملک کا آئین تو، سپریم کورٹ کے ہاتھ میں ہے فیصلہ آئین کی تشریح کرنے کا۔ آپ کون ہوتے ہیں جب سپریم کورٹ کہہ رہا ہے، سارے پاکستان کی قانونی برادری کو پتہ ہے کہ نوے دن میں الیکشن ہونے چاہییں، سب کو پتہ ہے، آپ کہہ رہے ہیں کہ نوے دن سے آگے چلے جائیں۔ تو سپریم کورٹ نے نوے دن کا تو کہنا ہی ہے، کیونکہ یہ ہے ہی، آئین ہے یہ، تو آپ ہیں کون کہنے والے کہ ہم نہیں مانتے۔ ساری قوم کھڑی ہو گی سپریم کورٹ کے ساتھ۔سپریم کورٹ کا فیصلہ نہ ماننے کا مطلب پاکستان میں آئین اور قانون ختم ہو گیا، اس کا مطلب جنگل کا قانون آ گیا۔ اس کا مطلب کہ آپ فیصلہ کریں گے کہ کون سا سپریم کورٹ کا فیصلہ میں نے ماننا ہے یا میں نے نہیں ماننا۔ اگر سوموٹو میرے حق میں ہوئی تھی جب انہوں نے ہمارے خلاف کیا تھا، اسی سپریم کورٹ نے، میں نے تو انتخابات کا اعلان کر دیا تھا، سپریم کورٹ نے ہمارے خلاف فیصلہ دے دیا اور انہوں نے الیکشن مسترد کر کے شہباز شریف کو بنا دیا، ہم نے تو قبول کر لیا، لیکن تب وہ سپریم کورٹ ٹھیک تھا۔ آج وہ سوموٹو ایکشن لے رہا ہے اور ان کو لگ رہا ہے کہ ان کے خلاف جائے گا اب یہ سپریم کورٹ کو متنازع بنا رہے ہیں۔ ان کی تاریخ ہے، سجاد علی شاہ کی عدالت پر حملہ کیا تو اس نے توہین عدالت لگا دی، عدالت پر حملہ کر دیا پھر رشوت دے کر جج خرید لیے، اس کی تو تاریخ ایسی ہے۔ایک سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ ان کا موجودہ فوجی قیادت کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہوا تاہم اگر انتخابات کے حوالے سے بات ہو تو وہ کسی سے بھی کرنے کو تیار ہیں۔کوئی بات نہیں ہوئی، کوئی کسی قسم کا رابطہ نہیں ہوا۔ الیکشن پر کرنا چاہتے ہیں بات تو ہم کسی سے بھی کر لیں گے۔عمران خان کا کہنا تھا کہ اگر ابھی انتخابات نہیں ہوں گے تو پھر اکتوبر میں بھی انتخابات منعقد ہونے کے امکانات کم ہیں۔ابھی تو فوری چیز ہے کہ نوے دن میں انتخابات ہوں گے یا نہیں ہوں گے، آئین جو کہتا ہے، تو اگر یہ نہیں ہوں گے، اگر ادھر سے نکل جاتے ہیں تو پھر اکتوبر میں کیوں ہوں؟ پھر آپ کہیں گے اگلے سال بھی کیوں ہوں؟ پھر تو جو طاقتور فیصلہ کرے گا تب ہی الیکشن ہو گا۔عمران خان نے سکیورٹی اداروں پر الزام لگایا کہ وہ ان کے کارکن اغوا کر کے ان پر تشدد کر رہے ہیں۔اظہر مشوانی کو سات دن کے لیے اغوا کر کے لے گئے۔ اور ہمیں پتہ ہے کون لے کے گیا، نہ ایف آئی اے لے کر گئی نہ پولیس لے کر گئی، ہمیں پتہ ہے کون سی ایجنسی لے کر گئی۔ اور وہ بھی جو کراچی سے اٹھایا ہمارا جو نوجوان ہے۔ اس کو بھی اٹھا کر لے گئے۔اصل میں ان کو خوف آ گیا ہے، کہ ہم پر انہوں نے میڈیا میں تو پابندی عائد کر دی ہے، میڈیا میں تو مجھے دکھانے نہیں دے رہے، اگر ہم سوشل میڈیا پر آ گئے ہیں تو اب یہ سوشل میڈیا پر آ گئے ہیں کہ کسی طرح مجھے بلیک آٹ کیا جائے۔انہوں نے کئی (کارکنوں) پر تشدد کیا ہے۔ کئی سوشل میڈیا کے لوگوں کو مارا۔ مجھے لگتا ہے کوئٹہ والے کو (تشدد) کیا اس نے کہا کہ میں کسی پارٹی کے ساتھ نہیں ہوں۔ ایک سوال کے جواب میںعمران خان نے کہا کہ ان کی جماعت پر جنرل باجوہ کے دور سے زیادہ سختی کی جا رہی ہے۔امید یہ کر رہے تھے کہ جب جنرل باجوہ جائے گا، تو تبدیلی ہو گی تو کوئی تبدیلی آئے گی، کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ وہی پالیسیز چل رہی ہیں بلکہ اس سے بھی کئی شدت پکڑ رہی ہیں۔عمران خان نے یہ بھی کہا کہ اسٹیبلشمنٹ نے 2018 کے انتخابات میں ان کی جماعت کی نشستیں جان بوجھ کر کم کروائی تھیں تا کہ ان پر کنٹرول کیا جا سکے۔میرے خیال میں انہوں نے ہماری نشستیں کم کروائی تھیں، انہوں نے ہمیں کنٹرول کرنے کے لیے ہماری نشستیں کم کروائی تھیں۔ میں 2018 کی بات کر رہا ہوں۔بالکل ہمارے خیال میں انہوں (اسٹیبلیشمنٹ) نے بالکل ہماری سیٹیں کم کروائی ہیں، ہمیں بالکل سیٹیں زیادہ نہیں ملیں، ہمیں اتنی سیٹیں نہیں ملیں جو ہمیں ملنی چاہیے تھیں۔جنرل باجوہ نے امریکیوں کو بھی میرے خلاف کیا تھا۔، اس نے حسین حقانی کو ہائر کیا ہوا تھا، ہماری حکومت کے پیسے سے۔ اور وہ بڑی میرے خلاف مہم چلا رہا تھا کہ باجوہ امریکہ کے حق میں ہے اور عمران امریکہ کے مخالف ہے۔میری حکومت گرائی کس نے، آرمی چیف نے، آرمی چیف قانون کے اوپر تھا اس کو کوئی پوچھنے والا نہیں تھا، وہ سازش کرتا رہا اور آخر میں آ کے اس نے ان لوگوں کے ساتھ مل کے اور ساتھ پھر اس نے امریکیوں کو بھی میرے خلاف کر دیا تو ہماری حکومت گرا دی۔