امریکی صدر کی تنقید کے بعد ڈبلیو ایچ او نے بھی ان کے الزامات کو مسترد کیا تھا اور اپنے بیان میں کہا تھا کہ اس وقت عالمی ادارے کی مالی معاونت روکنا خطرناک ہوگا۔ڈونلڈ ٹرمپ کی تنقید کے بعد عالمی ادارہ صحت کے یورپ کے ریجنل ڈائریکٹر ڈاکٹر ہینز کلوگ نے کہا تھا کہ ‘ہم اب بھی وبا کے اہم ترین مرحلے میں ہیں اس لیے ابھی یہ وقت نہیں کہ مالی معاونت روکی جائے۔’لیکن امریکی صدر کی تنقید سے قبل ہی عالمی ادارہ صحت کے سربراہ سے استعفی کے مطالبے ہونے لگے تھے اور اس ضمن میں ایک آن لائن پٹیشن کا بھی آغاز کردیا گیا تھا، جس پر اب 9 لاکھ کے قریب افراد نے دستخط کردیے۔امریکی نشریاتی ادارے فاکس نیوز کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کی تنقید سے قبل ہی عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ٹیدروس ایڈہانوم سے استعفی مطالبہ کیا گیا تھا، جس کے لیے ایک آن لائن پٹیشن کی مہم شروع کی گئی تھی۔ عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ٹیدروس ایڈہانوم کے خلاف گزشتہ ماہ آن لائن پلیٹ فارم چینج ڈاٹ او آر جی پر ایک آن لائن پٹیشن دائر کی گئی تھی، جس میں ان سے جلد سے جلد عہدہ چھوڑنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔پٹیشن میں ڈبلیو ایچ او کے سربراہ پر جانبداری کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ دنیا سمجھتی ہے کہ ایک عالمی تنظیم کے سربراہ کو غیر جانبدار اور غیر سیاسی ہونا چاہیے مگر ہم سمجھتے ہیں کہ ڈبلیو ایچ او کے سربراہ ایسا کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔پٹیشن میں کہا گیا تھا کہ ڈبلیو ایچ او کے سربراہ ٹیدروس ایڈہانوم نے سستی سے کام لیتیہوئے کورونا وائرس کے پھیلا سے متعلق بر وقت اقدامات نہیں
اٹھائے اور اسے عالمی وبا قرار دینے میں بھی تاخیر کی۔پٹیشن میں بتایا گیا کہ چین میں جنوری کے آخر میں ہی کورونا وائرس کے کیسز تین گنا بڑھ چکے تھے اور ہلاکتیں بھی زیادہ ہو گئی تھیں اور محض 5 دن میں وہاں مریضوں کی تعداد اتنی بڑھ گئی کہ وہاں ایک لاکھ کے قریب لوگ اس سے متاثر ہوچکے تھے مگر عالمی ادارہ صحت نے کورونا وائرس کو وبا قرار نہیں دیا۔آن لائن پٹیشن میں دعوی کیا گیا کہ عالمی ادارہ صحت نے کورونا وائرس کے خلاف بروقت مناسب اقدامات نہ کرکے وبا کو پھیلانے میں کردار ادا کیا اور دنیا سمجھتی ہے کہ ٹیدروس ایڈہانوم نے اپنی ذمہ داریاں غیر جانبدارانہ انداز میں نہیں نبھائیں، اس لیے انہیں فوری طور پر عہدہ چھوڑ دینا چاہیے۔عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ٹیدروس ایڈہانوم کے خلاف دائر کی گئی آن لائن پٹیشن پر اب تک 9 لاکھ کے قریب افراد نے دستخط کردیے ہیں اور جب مذکورہ پٹیشن پر 10 لاکھ سے زائد دستخط ہوجائیں گے تو ان کے خلاف مزید کارروائی کے لیے راہ ہموار ہوجائے گی۔فاکس نیوز نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ٹیدروس ایڈہانوم کے خلاف دائر آن لائن پٹیشن کو امریکی کانگریس کے ارکان بھی سپورٹ کر رہے ہیں، جنہوں نے بھی ڈبلیو ایچ او کے سربراہ پر جانبدار ہونے کا الزام لگا رکھا ہے۔امریکی کانگریس ارکان نے عالمی ادارہ صحت کے سربراہ کی ایک ٹوئٹ کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے کچھ ماہ قبل کہا تھا کہ ابھی اس بات کے ثبوت نہیں ملے کہ کورونا ایک سے دوسرے انسان میں منتقل ہو تا ہے۔اسی طرح امریکی ارکان کانگریس اور صدر سمیت امریکی عہدیدار بھی ڈبلیو ایچ او کے سربراہ سے نالاں ہیں اور ان کا خیال ہے کہ ٹیدروس ایڈہانوم چین کی طرفداری کرنے سمیت چینی حکومت کے لیے نرم رویہ رکھتے ہیں۔واضح رہے کہ ٹیدروس ایڈہانوم 2017 میں عالمی ادارے کے سربراہ منتخب ہوئے تھے، ان کا تعلق افریقی ملک ایتھوپیا سے ہے، وہ ڈبلیو ایچ او کے پہلے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) ہیں جو پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر نہیں وہیں وہ سیاستدان اور سماجی رہنما بھی ہیں۔ٹیدروز ایڈہانوم ماضی میں ایتھوپیا کے وزیر صحت اور وزیر خارجہ رہے ہیں جب کہ انہیں افریقہ میں ایڈز اور ملیریا پر کنٹرول کرنے کی منصوبہ بندی کرنے کے حوالے سے انتہائی اہمیت حاصل ہے،ڈبلیو ایچ او کے سربراہ یعنی ڈی جی کے لیے ہر 5 سال بعد انتخابات ہوتے ہیں۔عالمی ادارہ صحت اگرچہ خود مختار ہے مگر وہ اقوام متحدہ (یو این) کا ادارہ ہے جو عالمی برادری کے تعاون سے چلتا ہے۔عالمی ادارہ صحت سمیت اقوام متحدہ کو سب سے زیادہ مالی معاونت امریکا سے ہوتی ہے اور اسی وجہ سے ہی امریکا مذکوہ عالمی اداروں کی پالیسیوں پر بھی کھل عام تنقید کرتا ہے۔دنیا کا واحد ملک جس نے نئے کورونا وائرس کی وبا پر مکمل طور پر قابو پالیا اور اب وہاں کوئی بھی کووڈ 19 کا شکار نہیں رہا۔مریض دوبارہ وائرس سے متاثر نہیں ہوئے بلکہ شاید وائرس دوبارہ متحرک ہوگیا ہے، ڈائریکٹر کے سی ڈی سینے کہا ہے کہ ہمیں خدشہ ہے کہ مزید معلومات سامنے آنے کی صورت میں اموات کی تعداد میں اضافہ ہوگا،امریکا میں ٹرائل کے نتائج سامنے آئے ہیں جن میں اسے تجرباتی دوا کے کووڈ 19 کے خلاف نتائج کو حوصلہ افزا قرار دیا گیا ہے۔یورپی یونین کو کورونا وائرس کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے اپنے تمام تر وسائل کو بروئے کار لانا ہو گا،