شمالی غزہ میں جبالیہ پناہ گزین کیمپ پر اسرائیلی حملے میں 46 افراد شہید
اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں پورے غزہ میں انٹرنیٹ سروس معطل ہے
بحیرہ احمر میںمال بردار بحری جہازوں پر حملوں سے عالمی تجارت خطرے میں پڑ گئی
ملائیشیا نے اسرائیلی بحری جہازوں کو بندرگاہوں پر لنگر انداز ہونے پر پابندی عائد کر دی
غزہ( ویب نیوز)
الجزیرہ ٹی وی کے مطابق بدھ کے روز شمالی غزہ میں جبالیہ پناہ گزین کیمپ پر اسرائیلی حملوں میں کم از کم 46 افراد شہید ہوگئے ہیں ۔غزہ میں فلسطینی ٹیلی کام کمپنی حکام نے بدھ کے روز بتایا کہ اسرائیلی فوج کی مسلسل بمباری کے نتیجے میں پورے غزہ میں انٹرنیٹ سروس معطل کردی گئی ہے۔ غزہ میں صحت عامہ کے ڈائریکٹر نے بتایا کہ جبالیا کے ایک ہسپتال میں 46 شہدا کی لاشیں اور 40 زخمیوں کو منتقل کیا گیا ہے جب کہ بڑی تعداد میں شہری تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے تلے دب گئے ہیں۔صہیونی فوج کی بمباری سے 90 فی صد آبادی بے گھر اور کھلے آسمان تلے زندگی بسرکرنے پرمجبوراسرائیلی فوج کی طرف سے اجتماعی قتل عام اور ننگی جارحیت کے جرائم کی وجہ سے غزہ میں انسانی المیہ رونما ہوچکا ہے اور قابض فوج ایک ایک گھر میں گھس کر وہاں موجود لوگوں کا قتل عام کررہی ہے۔دوسری جانب فلسطینی مزاحمتی فورسز قابض دشمن فوج کے خلاف پوری قوت سے مزاحمت جاری رکھی ہوئے ہیں اور متعدد مقامات پر دشمن فوج کو زخم چاٹنے پرمجبور کیا گیا ہے۔ اسرائیلی طیاروں اور توپ خانے سے بدھ کے روز غزہ کی پٹی پر کئی مقامات پر گھروں اور شہریوں کے جمع ہونے کے مقامات کو نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں مزید دسیوں شہری شہید اور زخمی ہوگئے۔غزہ شہر میں الصبرہ کالونی میں اسرائیلی فوج نے فیوچر اسکول کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں متعدد شہری شہید اور زخمی ہوئے۔فلسطینی ہلال احمر کی طرف سے جاری ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قابض فوج نے شمالی غزہ میں ایک طبی مرکز کو چاروں اطراف سے گھیرے میں لے کر اس پر فائرنگ کی۔ حالانکہ اس کے اندر عملے اور زخمیوں سمیت 127 افراد موجود ہیں۔ اسرائیلی فوج نے غزہ شہر میں واقع الاہلی ہسپتال پر چھاپہ مارا جس میں سامنے کی دیوار توڑ ڈالی جبکہ عملے کو حراست میں لے لیا۔چرچ کے تحت چلنے والے اس ہسپتال پر چھاپے کے بعد اب صرف دو ڈاکٹر، چار نرسیں اور دو صفائی والے باقی رہ گئے ہیں جو ایک سو سے زائد زخمیوں کی دیکھ بھال کی ذمہ داری اٹھائے ہوئے ہیں۔ہسپتال کا انتظام چلانے والے پادری ڈان بائینڈر نے بتایا کہ ہسپتال کے داخلی راستے پر ملبے کے اوپر اسرائیلی فوج نے ٹینک کھڑا کر دیا تھا تاکہ ہسپتال میں آنے جانے سے روکا جائے۔غزہ کے گنجان آباد شمالی علاقے میں بھی کئی دنوں تک فوج اور عسکریت پسندوں کے درمیان لڑائی جاری رہی تھی جبکہ اسرائیلی فوج نے متعدد ہسپتالوں اور پناہ گاہوں پر چھاپے مارے جن میں کئی افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔یوو گیلنٹ کا کہنا ہے کہ جنوبی غزہ میں آپریشن کئی دنوں تک جاری رہے گا اور مقصد پورا ہونے تک نہیں رکیں گے۔غزہ کی شہری سوزین زوغروب نے بتایا کہ ان کے گھر والے سو رہے تھے جب بدھ کی علی الصبح ان کے گھر پر حملہ ہوا۔ہمیں پتا چلا کہ سارا گھر ہمارے اوپر گر گیا ہے۔اس فضائی حملے میں 27 افراد ہلاک ہوئے جبکہ رفح پر ایک اور حملے میں تین افراد نشانہ بنے۔غزہ کے جنوبی حصے میں واقع رفح وہ مقام ہے جہاں اسرائیل نے صحافیوں کو پناہ لینے کا کہا تھا لیکن اس کے باوجود مسلسل بمباری کا نشانہ بنایا گیا جس میں بڑی تعداد میں شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔
بحیرہ احمر میںمال بردار بحری جہازوں پر حملوں سے عالمی تجارت خطرے میں پڑ گئی
یورپ اور ایشیا کے درمیان ایک اہم آبی گزرگاہ بحیرہ احمر میںمال بردار بحری جہازوں پر حملوں نے عالمی تجارت خطرے میں ڈال دی ہے۔ کئی شپنگ کمپنیوں نے حملوں کے خوف سے بحیرہ احمر کی گزرگاہ استعمال کرنا ترک کر دی۔ ہر سال تقریبا 20 ہزار بحری جہاز بحیرہ احمرسے گزرتے ہیں جو یومیہ لاکھوں بیرل تیل اور ایشیا سے درآمد کیے جانے والا سامان لے کر جاتے ہیں۔بحر ہند سے آنے والے تیل کے ٹینکرز اور مال بردار بحری جہاز بحیرہ احمر اور پھر نہر سویز تک پہنچنے کے لیے اسی آبی گزرگاہ سے گزرتے ہیں جہاں سے وہ یورپ اور امریکہ جانے کے لیے بحیرہ روم میں داخل ہوتے ہیں۔ بحری جہازوں سے ہونے والی عالمی تجارت کا 12 فیصد بحیرہ احمر سے گزرتا ہے۔ بی بی سی کے مطابق حوثی باغی یمن کے زیادہ تر حصے پر قابض ہیں اور اسرائیل کی جانب سے غزہ پر بمباری کے بعد حوثی باغیوں نے اسرائیل سے آنے اور وہاں جانے والے تجارتی جہازوں پر حملوں کا نیا سلسلہ شروع کیا ہے ادھر بحیرہ احمر میں مال بردار جہازوں کو نشانہ بنانے والے یمن کے حوثی باغیوں کے حملوں میں اضافے کے بعد بڑی شپنگ کمپنیوں نے آبنائے باب المندب کے آمد و رفت کے اس اہم راستے سے سفر روک دیا ہے۔امریکہ نے اس اہم ترین بحری گزرگاہ کی حفاظت کے لیے ایک کثیر القومی بحری ٹاسک فورس تشکیل دینے کے کا اعلان کیا ہے لیکن اگر یہ تنگ سمندری پٹی تجارت کے لیے بند ہو جاتی ہے تو اس کے دنیا پر کیا اثرات مرتب ہوں گے، اس کا جائزہ لیتے ہیں۔باب المندب، جس کا عربی میں ترجمہ آنسوں کا دروازہ ہے، بحیرہ احمر کے جنوبی سرے پر ایک تنگ آبی گزرگاہ ہے جوخلیج عدن سے ہوتے ہوئے بحر ہند میں جا ملتی ہے۔یہ سمندری پٹی جزیرہ نما عرب کے یمن کو شمال مشرقی افریقی ممالک جبوتی اور اریٹیریا سے الگ کرتی ہے۔تقریبا 100 کلومیٹر طویل اور 30 کلومیٹر چوڑی یہ آبی گزرگاہ یمن کے ساحلی شہر راس مین ہیلی اور جبوتی میں راس سیان تک پھیلی ہوئی ہے جس کا شمالی سرا بحیرہ احمر اور جنوبی سرا خلیج عدن میں کھلتا ہے۔اس سمندری موڑ پر جزیرہ بریم آبنائے کو دو شپنگ لینز میں تقسیم کرتا ہے۔ بحیرہ احمر یورپ اور ایشیا کے درمیان ایک اہم آبی گزرگاہ کے طور پر کام کرنے کے ساتھ یہ آبنائے دنیا کی مصروف ترین بحری راستوں میں سے ایک ہے۔بحر ہند سے آنے والے تیل کے ٹینکرز اور مال بردار بحری جہاز بحیرہ احمر اور پھر نہر سویز تک پہنچنے کے لیے اسی آبی گزرگاہ سے گزرتے ہیں جہاں سے وہ یورپ اور امریکہ جانے کے لیے بحیرہ روم میں داخل ہوتے ہیں۔ اسرائیل سے منسلک کچھ جہازوں نے بظاہر اس بحری گزرگاہ سے اجتناب کرتے ہوئے افریقہ اور کیپ آف گڈ ہوپ کے گرد طویل راستہ اختیار کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس طویل راستے سے جہازوں کو رفتار، بڑھتے ہوئے اخراجات اور تاخیر جیسے مسائل کا سامنا ہے اور یہ سفر تقریبا 19 دن سے 31 دن تک طویل بن گیا ہے۔عالمی تیل کی منڈی حالیہ حملوں سے پریشان ہیں۔ لیکن اس گمرگاہ کی بندش سے قیمتوں کے بڑھنے کا بھی خدشہ ہے۔حوثیوں کے حملوں سے فوری اثر بیمہ کی قیمتوں میں اضافہ بھی ہے۔
ملائیشیا نے اسرائیلی بحری جہازوں کو بندرگاہوں پر لنگر انداز ہونے پر پابندی عائد کر دی
ملائیشیا نے اسرائیل کی غزہ میں جارحیت کے رد عمل میں اسرائیلی بحری جہازوں کو اپنی بندرگاہوں پر لنگر انداز ہونے پر پابندی عائد کر دی ہے جو فوری طور پر نافذ العمل ہو گی۔ وزیراعظم انور ابراہیم نے بدھ کو جاری کیے جانے والے ایک بیان میں کہا ہے کہ حکومت نے ایسے تمام تجارتی بحری جہازوں کی آمد پر بھی پابندی عائد کر دی ہے جو اسرائیل کی جانب محو سفر ہوں اور تجارتی سامان لادنے کے لیے ملائیشیا کی بندرگاہوں پر رکنا چاہتے ہوں۔بیان میں کہا گیا کہ یہ پابندیاں اسرائیل کے ان اقدامات کا ردعمل ہیں جن میں اسرائیل بنیادی انسانی اصولوں کو نظر انداز کرتے ہوئے فلسطینیوں کا مسلسل قتل عام اور ان پر مظالم کے ذریعے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ ملائیشیا کی حکومت نے زِم کارگو شپنگ کارپوریشن، جو اسرائیل میں موجود ایک شپنگ کمپنی ہے، کو ملائیشیا کی کسی بھی بندرگاہ پر لنگر انداز ہونے سے روکنے اور محدود کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یاد رہے2002 میں ملائیشیا نے زِم کمپنی کے بحری جہازوں کو ملک میں لنگر انداز ہونے کی اجازت دی تھی جو اب منسوخ کر دی گئی ہے۔ملائیشین ذرائع ابلاغ کے مطابق وزیر اعظم انور ابراہیم نے وزارت ٹرانسپورٹ سے کہا ہے کہ اس کمپنی کے خلاف مستقل پابندی لگانے کے لیے فوری کارروائی کرے۔حکومت کے حالیہ فیصلے کے مطابق ایسے تمام بحری جہازوں کی آمد پر بھی پابندی عائد کر دی گئی جن پر اسرائیل کا پرچم لہرایا جا رہا ہو۔وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ ملائیشیا کو یقین ہے کہ اس اقدام سے ملائیشیا کی تجارت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔غزہ پر اسرائیلی حملوں کے خلاف ملائیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور میں اسرائیل کے خلاف ایک مظاہرے میں وزیراعظم انور ابراہم بھی شرکت کر چکے ہیں۔اس سے قبل اکتوبر 2023 کے وسط میں ملائیشیا کی وزارت تعلیم نے فرینکفرٹ کتب میلے میں شرکت سے انکار کر دیا تھا کیوں کہ دنیا کے سب سے بڑے کتاب میلے پر فلسطینیوں کی آواز دبانے اور اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری تنازعے میں اسرائیل کے حق میں موقف اختیار کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔مسلم اکثریتی ملک ملائیشیا کی وزارت تعلیم کا کہنا تھا کہ کہ وہ فلسطین میں اسرائیل کے تشدد پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی۔یاد رہے ملائیشیا کی سابق حکومت نے اسرائیلی بحری جہازوں کو 2005 سے بندرگاہوں پر لنگر انداز ہونے کی اجازت دی گئی تھی اب اس فیصلے کو کالعدم قرار دیا گیا ہے۔
#/S