اسلام آباد(صباح نیوز)
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ کرونا بحران کے حوالے سے قومی اتفاق رائے کے سلسلے میں اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنے کوتیار ہیں، قومی بحران میں قومی اتفاق رائے درکار ہے۔پگڑیاں اچھالنے کا وقت نہیں ہے ، قوم تقاضا کررہی ہے ، قیادت ذمہ داری کا ثبوت دے ،مودی بھیڑیاں مقبوضہ کشمیر میں ظلم و ستم ڈھارہا ہے، معصوم کشمیریوں کا خون بہایاجارہا ہے، کرونا وائرس کی آڑ میں بھارت میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کو قومی اسمبلی میں کرونا وائرس سے پیداشدہ صورتحال پر اظہار خیال کرتے ہوئے کیا۔ اجلاس ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی صدارت میں ہوا۔ بحث کا آغاز کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہاکہ کرونا جیسے بحران کی مثال نہیں ملتی ہے جنگ عظیم کے بعد بڑا بحران ہے۔عالمی ادارے کہہ رہے ہیں اسکی ویکسین بننے میں 18 ماہ سے دو سال لگ سکتے ہیں۔ کرونا 209ممالک میں 40 لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں۔2 لاکھ 80 ہزار 700 اموات ہوئی ہیں۔ بڑی بڑی مستحکم معیشتیں اس کا مقابلہ نہ کرسکیں ۔ امریکہ میں 80ہزار، برطانیہ میں 31 ہزار،اٹلی میں 30 ہزار، فرانس میں 20 ہزار اموات ہوچکی ہیں۔ پاکستان ترقی پذیر ملک ہے ۔وہاں 10 مئی 661 اموات ہوئی ہیں۔29 ہزار سے زیادہ متاثرین ہیں۔ 8ہزار 23 لوگ صحت یاب ہوچکے ہیں۔ 26 فروری کو جب پہلا کیس آیا تو ہمارے پاس یومیہ 100 افراد کے ٹیسٹ کی صلاحیت تھی آج یومیہ20 ہزار ٹیسٹ کی صلاحیت ہے ۔ ٹیسٹنگ لیبارٹری کی تعداد 8 سے بڑھ کر 70 ہوگئی ہے۔ ہم دو لاکھ 83 ہزار 517 ٹیسٹ کرچکے ہیں ۔ جیسے جیسے ٹیسٹنگ صلاحیت بڑھتی جائے گی صورتحال واضح ہوتی جائے گی ۔ ٹیسٹنگ کے لحاظ سے پاکستان کی صلاحیت جنوبی ایشیاء میں سب سے زیادہ ہے۔ انہوں نے کہاکہ صحت کا شعبہ18 ویں ترمیم کے بعد وفاق میں تحلیل ہوچکا ہے۔ صوبائی حکومتیں ذمہ دار ہیں۔ ایک اور بات ذہن میں رکھیں کہ سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت 12سالوں سے برسراقتدار ہے اور ن لیگ نے بھی مسلسل پنجاب میں 10سال حکومت کی ۔ جبکہ پیش گوئیاں کی جارہی تھیں کہ صحت کا نظام ناکام ہوچکا ہے۔ وباء کے آتے ہی ہم نے بنیادی فیصلے کیے ۔ قومی رابطہ کمیٹی بنائی۔ دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں موثر فیصلے اور فعال اقدامات کیے گئے ہیں۔ وفاق اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآں ہونے کی مسلسل کوشش کررہا ہے۔ مختلف رہنمائوں کی پریس کانفرسوں سے تاثر ملتا رہا کہ کچھ اکائیوں سے امتیازی سلوک ہورہا ہے۔ یہ تاثر حقیقت پر مبنی نہیں ہے۔ کرونا ایک قومی چیلنج ہے۔ اس کا مقابلہ کرنے کیلئے قومی ایمرجنسی اور ریسپانس بھی قومی ہونا چاہیے۔ پاکستان نے سارک وزرائے صحت کی میزبانی کی اس کے باوجود کہ مودی ایک بھیڑیے کی شکل میں مقبوضہ کشمیر میں ظلم و ستم کررہا ہے۔ معصوم کشمیریوں کا خون بہایا جارہا ہے۔ بھارت میں مکار اور متعصب حکومت مسلمانوں کو کرونا کی آڑ میں نشانہ بنارہی ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کیخلاف نفرت پر مبنی گفتگو کی جارہی ہے۔ وزیر خارجہ نے واضح کیا کہ پاکستان میںکرونا وائرس سے نمٹنے میں بہتری کی گنجائش ہوسکتی ہے۔ بہت سے لوگوں نے قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے کی مخالفت کی کہ خطرہ ہے پارلیمنٹ کے اجلاس طلب نہ کریں مگر ہم نے خطرات کو مول لیتے ہوئے اجلاس طلب کیے ۔ یہ کہنا غلط ہے کہ سندھ سے زیادتی ہورہی ہے۔ احساس پروگرام کے تحت سندھ میں 26 ارب روپے 23لاکھ خاندانوں میں تقسیم ہوچکے ہیں۔ 12کھرب روپے کا پیکیج صوبوں کو دیا جائے گا۔ حفاظتی کٹس، ماسک سندھ کو اس کے حصے سے زیادہ دئیے ۔ ہماری سوچ وفاقی قومی ہے، علاقائی نہیں۔ پیپلزپارٹی میں رہا ہوں جس نے ہمیشہ وفاق کی بات کی۔ آج یہ سوچ صوبے تک کیوں محدود ہوگئی ہے۔ وہ پیپلزپارٹی جس سے وفاق کی خوشبو آتی تھی ، آج صوبائیت کی بو کیوں آرہی ہے۔ ہم نے صرف قومی کارڈ کھیلنا ہے۔ سندھ یا کسی اور کارڈ پاکستان کو ضرورت نہیں ہے۔ ہم نے قوم کو کرونا سے بچانا ہے اور معاشی بحران کے اثرات سے بھی عوامی زندگیوں کو محفوظ رکھنا ہے۔ کیا پاکستان کی معیشت لاک ڈائون میں توسیع کی متحمل ہوسکتی ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں انہوں نے اچھا کام کیا ہے۔ اگر ہم لاک ڈائون میں نرمی نہ کرتے تو30لاکھ سے 70لاکھ مزید افراد غربت میں کھسک جاتے۔ یہ غلط ہے کہ ہم نے بغیر مشاورت کے لاک ڈائون میں نرمی کی ہے۔ قوم تقاضا کررہی ہے کہ پاکستان کی قیادت ذمہ داری کا ثبوت دے۔ اور یہ قیادت اس کا ثبوت دے گی۔ قومی بحران کا مقابلہ کرنے کیلئے قومی اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔ اپوزیشن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ ان کے ساتھ بیٹھنے کو تیار ہیں۔