بجٹ خسارہ جی ڈی پی کے 3 فیصد تک پہنچ گیا..اکنامک آؤٹ لک رپورٹ میں تصدیق
وفاقی حکومت کی آمدن میں 51 فیصد اضافہ ،، اخراجات میں 44 اعشاریہ 6 فیصد اضافہ ہوا
اسلام آباد ( ویب نیوز)
رواں مالی سال کی معاشی کارکردگی پر وزارت خزانہ کی اکنامک آؤٹ لک رپورٹ جاری کردی گئی جس کے مطابق ابتدائی 8 ماہ میں بجٹ خسارہ جی ڈی پی کے 3 فیصد تک پہنچ گیا بجٹ خسارے میں اضافے کی وجہ سود کی مد میں ادائیگیوں میں اضافہ ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جیو پولیٹیکل صورت حال، عالمی منڈی میں قیمتوں میں اضافے کے باعث معاشی ترقی متاثر ہوئی۔ 8 ماہ میں وفاقی حکومت کی آمدن میں 51 فیصد اضافہ ہوا۔ اور اخراجات میں 44 اعشاریہ 6 فیصد اضافہ ہوا۔واضح رہے کہ رواں ماہ کے شروع میں اقوام متحدہ نے رواں اور آئندہ سال کے دوران پاکستان کی اقتصادی ترقی کی رفتار میں تیزی کی پیش گوئی کرتے ہوئے 2024، 2025 میں جی ڈی پی کی شرح نمو بالترتیب 2 فیصد اور 2.3 فیصد رہنے کا امکان ظاہر کیا تھا۔اقوام متحدہ نے رواں اور آئندہ سال کے دوران ملک کی اقتصادی ترقی کی رفتار میں تیزی کی پیش گوئی کرتے ہوئے 2024، 2025 میں جی ڈی پی کی شرح نمو بالترتیب 2 فیصد اور 2.3 فیصد رہنے کا امکان ظاہر کیا ہے۔اقوام متحدہ کے اہم اقتصادی سروے میں 2024 میں 26 فیصد رہنے والی مہنگائی 2025 میں 12.2 فیصد تک کم رہنے کی نوید بھی سنائی گئی ہے۔اقوام متحدہ کے اکنامک اینڈ سوشل کمیشن فار ایشیا اینڈ پیسفک (یو این ای ایس سی اے پی) کی جانب سے جاری 2024 اکنامک اینڈ سوشل سروے آف ایشیا اینڈ پیسفک ریجن میں نوٹ کیا گیا کہ پاکستانی معیشت کو سیاسی بے چینی کا سامنا تھا جس کے کاروبار اور صارفین کے رجحان پر منفی اثرات مرتب ہوئے جب کہ 2022 میں آنے والے تباہ کن سیلاب نے زرعی پیداوار کو متاثر کیا۔اس میں نوٹ کیا گیا کہ 2023 کے وسط میں عالمی مالیاتی فنڈ کے ساتھ معاہدہ کے علاوہ چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی معاونت نے 2023 کے دوران معاشی استحکام بحال کرنے میں مدد فراہم کی۔سروے میں نشاندہی کی گئی کہ توانائی شعبے کی سبسڈی کا خاتمہ جیسے مختلف اقدامات کے ساتھ مالیاتی ایڈجسٹمنٹ کرتے ہوئے پاکستان کی معیشت استحکام بحالی کے عمل سے گزر رہی ہے۔سروے میں پورے خطے کے لیے تجویز کیا گیا کہ ترقیاتی منصوبوں کے لیے رقم کے لیے بہتر ٹیکس اور انتظامی پالیسیوں کے علاوہ سماجی و اقتصادی ترقی اور عوامی نظم و نسق میں مجموعی طور پر بہتری کے ساتھ ساتھ ٹیکس ریونیو میں بڑے پیمانے پر اضافے کی ضرورت ہوگی۔اس میں زور دیا گیا کہ ایشیا پیسیفک خطے میں ترقی پذیر ممالک کی حکومتوں کوکم لاگت اور طویل المدتی مالی امداد کی فوری ضرورت ہے جب کہ ان میں سے بہت سے ممالک کو قرضوں کی فراہمی پر بھاری شرح سود کے ماحول میں اس کی ادائیگی یا اپنے لوگوں کی تعلیم، صحت اور سماجی تحفظ میں سرمایہ کاری کے درمیان انتخاب کا مشکل فیصلہ درپیش ہے۔سروے میں عوامی ٹیکس کی بہتر وصولی کی بھی سفارش کی گئی ہے جس سے نہ صرف ٹیکس ادائیگی فرق کو ختم کرنے میں مدد ملے گی بلکہ مالیاتی خطرات اور قرض لینے کے اخراجات کو بھی کم ہوں گے۔