بیوروکریٹس کے پاس توکوئی ہتھیار نہیں ، ہمارے پاس توہین عدالت اور فوجداری کارروائی کا اختیار بھی ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

اگر ہم استعمال نہ کریں توپھر ہماری تھوڑی بہت کمزوری ہوگی،دوران سماعت ریمارکس

گر ہم نے پہلے کمپرومائزڈ کو باہر پھینکاہوتا توچیزیں مختلف ہوتیں، جسٹس سید منصور علی شاہ

 2018ء میں ایک پارٹی بینیفشری تھی تو آج کوئی اور ہے اور یہ حقیقت ہے،جسٹس اطہر من اللہ

جج کی کمٹمنٹ اپنے حلف کے ساتھ ہونی چاہیئے جو وہ اپنے کیرئیر کے آغاز پرآئین کے تحت لیتا ہے،جسٹس مسرت ہلالی

6ججز کے سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے خط پرازخود نوٹس سمیت 16دائر درخواستوں پر سماعت غیرمعینہ مدت تک ملتوی

 کیس کی کاروائی سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر براہ راست دکھائی گئی

اسلام آباد (ویب  نیوز)

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے سادہ سی بات ہے آپ کو اپنا لوہا منوانا پڑتا ہے، بیوروکریٹس کے پاس توکوئی ہتھیار نہیں ہے، ہمارے پاس توہین عدالت اور فوجداری کارروائی کا اختیار بھی ہے، اگر ہم استعمال نہ کریں توپھر ہماری تھوڑی بہت کمزوری ہوگی۔ تنقید اورجھوٹ میں بہت فرق ہوتا ہے، زیادہ پرانی بات نہیں ہے یہاں کے ایک کمشنر تھے، انہوں نے جھوٹ بولا اورتمام میڈیا نے جھوٹ چلایا، یہ کسی نے نہیں پوچھا کہ آپ کے پاس اس کا کوئی ثبوت ہے، باقی دنیامیں یہ اس لئے نہیں ہوتا کہ وہاں اگرکریں تو پھر دیکھیں ہتک عزت میںکیا ہوتا ہے ان کی جیبیں خالی ہوجائیں گی، سادہ سی بات یہ ہے۔   میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ جو غلطی ہے اس کی اسی وقت نشاندہی کرو اور ملزم پر انگلی رکھو کہ آپ یہ کررہے ہیں۔ جبکہ سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس سید منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ جج کو مضبوط بنانے کے لیئے مارکیٹ میں کوئی گولی تو دستیاب نہیںورنہ بازار سے لے آتے، ہم جو نظام تشکیل دینا چاہتے ہیںاس میں دوچیزوں کی کمی ہے جو آزاد عدلیہ کی طر ف ہمیں لے کر جاسکتی تھی ، نمبرایک، ہم نے آج تک کمپرومائزڈ ججز کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیاجس کی وجہ سے ہم یہاں تک پہنچے ہیں اگر ہم نے پہلے کمپرومائزڈ کو باہر پھینکاہوتا توچیزیں مختلف ہوتیں، ہم اس کے ساتھ جی رہے ہیں، نمبر دو،اگر کوئی جج کھڑا ہوتا ہے تو ساری عدلیہ کو متحد ہوکراس کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیئے ہمارا نظام اس کوپورا نہیں کرتا، جس طرح کسی غلط کام پر بھی ایک وکیل کے ساتھ سارے وکیل ہمارے خلاف کھڑے ہو جاتے ہیں، ہم اکٹھے نہیں ہوپاتے، ہمیں کوئی نظام بنانا ہے کہ اگر ایک جج صحیح  کام کے لئے کھڑا ہوتاتوساری عدلیہ اس کے ساتھ کھڑی ہوتو میرے جج کاآپ کچھ کرہی نہیں سکتے، اگر مجھے پتا چلتا ہے کہ کوئی کمپرومائزڈ جج ہے تواسے ایک منٹ میں نظام سے باہر پھینکنا چاہیئے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا ہے کہ جب تک سیاسی جماعتیں یہ فیصلہ نہیں کریں گی کہ ہمیں آپ کی مدد نہیں چاہیئے توکون ہم سے ملے گا، پھر ہم سے کون مطالبہ کرے گا، حق اورسچ کی بات یہ ہے کہ ساری سیاسی جماعتیں یہ چاہتی ہیں کہ میرے لئے استعمال ہو۔  بطور حکومت کے سربراہ وزیراعظم کو اپنے بندے سے پوچھنا چاہئے کہ یہ خلاف ورزی کیوں ہورہی ہے، کیا وفاقی حکومت نے اپنے بچوں سے پوچھا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ 2018ء میں ایک پارٹی بینیفشری تھی تو آج کوئی اور ہے اور یہ حقیقت ہے،یہ سیاسی رہنمائوں کاکام ہے وہ نہیں کررہے، ہم نے آئین کی سربلندی کا حلف اٹھا رکھا ہے،ہم لوگوں کے سامنے جوابدہ ہیں،، لوگوں کو یقین ہونا چاہئے کہ ہم آئین کو سربلند کریں گے جس کاحلف ہم نے اللہ تعالیٰ کے نام پر حلف لیا ہے، اس لئے ہم عوام کے سامنے جوابدہ ہیں۔ اب تک ہیڈزرول ہونے چاہئیں تھے، کوئی وفاقی حکومت سے سوال نہیں کر رہا، اگر آئین کے تحت کوئی مہذب معاشرہ چل رہا ہوتا توپتا نہیں کیا کچھ ہوجاتا، کوئی شخص وفاقی حکومت سے سوال نہیں پوچھ رہا کیونکہ وہ ذمہ دار ہے۔جسٹس مسرت ہلالی نے کہا ہے کہ جج کی کمٹمنٹ اپنے حلف کے ساتھ ہونی چاہیئے جو وہ اپنے کیرئیر کے آغاز پرآئین کے تحت لیتا ہے۔جبکہ جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا ہے کہ آخرکار جج ہی معنی رکھتا ہے جو جج جو اپروچ رہا ہے یا ہوا اس کو کھڑا ہونا ہے، اس کو کچھ کرنا ہے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس سید منصورعلی شاہ، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اخترافغان پر مشتمل 6رکنی لارجر بینچ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے6ججز کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے خط پر لئے گئے ازخود نوٹس سمیت 16دائر درخواستوں پر سماعت کی۔ کیس کی کاروائی سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر براہ راست دکھائی گئی۔ سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل منصور عثمان خان نے روسٹرم پر آ کر کہا کہ میں ایک درخواست کرنا چاہتا ہوں، آج صبح تک بھی مجھے گزشتہ سماعت کا تحریری حکم نامہ نہیں ملا جس کی وجہ سے وزیراعظم اور وزارت دفاع سے جواب نہیں آ سکا، میری استدعا ہے کہ گزشتہ سماعت کا تحریری حکم نامہ دیا جائے جس کی روشنی میں وفاقی حکومت اور وزارت دفاع سے جواب لے کر عدالت میں جمع کرایا جائے، جواب جمع کروانے کے لئے کل تک کا وقت دے دیں۔ اس کے بعد چیف جسٹس نے درخواست گزاروں کو ہدایت کی کہ وہ روسٹرم پر آئیں اور بتائیں کہ وہ کتنا کتنا وقت دلائل دینے میں لگائیں گے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے وکیل سید احمد حسن شاہ کہ وہ45منٹ کا وقت لیں گے۔ اس موقع پر اعتزاز احسن کے وکیل خواجہ احمد حسین پیش ہوئے اور بولنے کی کوشش کی تاہم چیف جسٹس نے کہا کہ ہم پہلے تنظیموں کو سنیں گے۔ اس موقع پر لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل حامد خان نے پیش ہو کر کہا کہ وہ ایک گھنٹہ وقت لیں گے۔ پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین ریاضت علی سحر نے پیش ہو کر کہا کہ وہ آدھا گھنٹہ لیں گے جبکہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر بیرسٹر شہزادہ شوکت نے پیش ہو کر کہا کہ وہ20منٹ لیں گے۔ اس دوران شہباز علی خان کھوسہ نے پیش ہو کر کہا کہ وہ سپریم کورٹ بار کے کچھ ممبران کی جانب سے پیش ہو رہے ہیں تاہم چیف جسٹس نے انہیں ہدایت کی کہ وہ روسٹرم چھوڑ دیں، انفرادی طورپر لوگوں کو بعد میں سنیں گے۔ اسلام آباد ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن اور کراچی بار ایسوسی ایشن کی جانب سے بیرسٹر صلاح الدین احمد نے پیش ہو کر کہا کہ وہ آدھا گھنٹے کا وقت لیں گے۔ اس کے بعد چیف جسٹس نے کہا کہ اب انفرادی طور پر بتا دیں کون کتنا وقت لے گا؟ دوران سماعت ججز نے گزشتہ سماعت کے حکم نامے پر دستخط کئے جس کے بعد چیف جسٹس نے عدالتی عملے کو ہدایت کی کہ اٹارنی جنرل کو گزشتہ سماعت کا اصل حکم نامہ دے دیں تاکہ وہ اسے پڑھ لیں، اس پر اٹارنی جنرل نے گزشتہ سماعت کا حکم نامہ پڑھ کر سنایا۔ اعتزاز احسن کے وکیل کا کہنا تھا کہ میں25منٹ لوںگا۔ چیف جسٹس نے خواجہ احمد حسین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کسی کو دلائل دینے کی اجازت دیں گے آپ دلائل دیں یا اعتزاز احسن، درمیان میں کسی دوسرے کو بات کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ اس دوران اعتزاز احسن نے کھڑے ہو کر بات کرنے کی کوشش کی تو چیف جسٹس نے خواجہ احمد حسین کو کہا کہ اپنے موکل سے کہیں بیٹھ جائیں۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر عابد زبیری نے پیش ہو کر کہا کہ وہ پاکستان بار کونسل کے چھ ارکان کی طرف سے پیش ہو رہے ہیں اور وہ20منٹ دلائل دیں گے۔ پاکستان بار کونسل کی جانب سے پیش ہوتے ہوئے چوہدری محمد احسن بھون نے بینچ سے استدعا کی کہ کیس کی لائیو کوریج بند کرا دیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیا بہتر نہ ہوتا کہ چھ ممبران کے ساتھ بیٹھ کر اور مشترکہ جواب جمع کرائے جاتے۔ احسن بھون کا کہنا تھا کہ جب انفرادی طور پر لوگوں کو دلائل دینے کی اجازت دیں گے تو اس سے انارکی پیدا ہو گی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میں جمہوریت پر یقین رکھتا ہوں اس لئے ہم تنظیموں کو ترجیح دے رہے ہیں، سب کا ہدف ایک ہی ہے، آزادعدلیہ کی بات ہے،بسم اللہ کریں،ہم آپ کو سنیں گے۔پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین ریاضت علی سحر کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز نے معاملہ رہنمائی کے لئے سپریم جوڈیشل کونسل کو بھجوایا جائے، جوڈیشل کمیشن بنایا ہوا ہے جو کہ ایک یا زیادہ حاضر سروس ججوں پر مشتمل ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ کا وائس چیئرمین پاکستان بارکونسل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی اس رپورٹ کے بعد ہائی کورٹس نے اپنی رپورٹس جمع کروائیں جس میں انہوں نے اس کط سے زیادہ حالیہ معاملات اور سیاسی مضمرات رکھنے والے معاملات کو نمایاں کیا ہے،ایک ہائی کورٹ تو یہاں تک چلی گئی کہ اس نے کہا کہ یہ منظر نامہ ہے جو کہ آئین کی خلاف ورزی کے مترادف ہے، یہ منظر نامہ نا دھرنا فیصلے سے ختم ہوا اور نا ہی کسی دوسرے فیصلے سے ختم ہوا،2018-19میں ہائی کورٹس کے آزاد ججز کے لئے سب سے زیادہ مسئلہ سپریم کورٹ کی ملی بھگت تھی، سب مان رہے ہیں کہ مداخلت ہوتی ہے، اس کا توڑ سب ہائی کورٹ کے جواب کی روشنی میں بتادیں، یہ سب سے زیادہ مناسب ہوگا، اب بات 6ججز کے خط سے بات آگے چلی گئی ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ حکومت توکچھ نہیں کررہی ہمیں وہ عمل بتایا جائے ہم کسی کے محتاج نہ ہوں اورخود کرسکیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بینچ جو وقت لے گا وہ وکیل کے وقت سے نہیں کاٹیں گے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ توہین عدالت کے قانون سے زیادہ خطربات توقتل کی سزاکا قانو ن ہے وہ کب سے بنا ہوا ہے، کیا وہ رک گیا ہے، اگر آج آپ حکم دے دیں کہ قتل ہونے کا عمل رک جائے تووہ رکے گانہیں، سزاجزا کی بات ہو گی کہ اگرکسی کو سزشا ہو گی تودوسرا کہے گاقتل نہیں کرنا چاہیئے، ایک یہ بھی ہوسکتا ہے کچھ نہیں ہو گاتوہم بھی کرلیتے ہیں۔ ریاضت علی سحر کا کہنا تھا کہ تحقیقات کے بعد کسی نہ کسی کو سزا ملنی چاہئے اور ججز کے پاس قانون موجود ہے اس پر عمل کریں۔ احسن بھون کا کہنا تھا کہ بار آزاد عدلیہ کے لئے عدلیہ کے ساتھ کھڑی ہے۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آپ کیا چاہتے ہیں کہ تحقیقات ہوں یا نا ہوں؟ اس پر احسن بھون کا کہنا تھا کہ تحقیقات ہوں۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ آپ توقع رکھتے ہیں کہ ڈسٹرکٹ جج وہ کام کرے جو سپریم کورٹ نہیں کر سکتی، حقیقت مختلف ہے، سارے ججز کو غلط نہیں کہہ سکتے، ملک کے عوام کو جوابدہ ہیں، ہم نے 76سال جھوٹ بولا، سچ کو چھپایا ہے، لوگوں کو سچ معلوم ہونا چاہئے، اس سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہئے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا ریگولیٹڈ نہیں ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ججز کو کسی کی تنقید سے نہیں ڈرنا چاہئے، لوگ جج پر اعتماد کرتے ہیں جو کہ معنی رکھتا ہے، میں تنقید کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف فیصلے کے خلاف تو پوری وفاقی حکومت پریس کانفرنس کرنے آ گئی تھی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سادہ سی بات ہے آپ کو اپنا لوہا منوانا پڑتا ہے، بیوروکریٹ کے پاس توکوئی ہتھیار نہیں ہے، ہمارے پاس توہین عدالت اور فوجداری کارروائی کا اختیار بھی ہے، اگر ہم استعمال نہ کریں توپھر ہماری تھوڑی بہت کمزوری ہوگی۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ تنقید اورجھوٹ میں بہت فرق ہوتا ہے، زیادہ پرانی بات نہیں ہے یہاں کے ایک کمشنر تھے، انہوں نے جھوٹ بولا اورتمام میڈیا نے جھوٹ چلایا، یہ کسی نے نہیں پوچھا کہ آپ کے پاس اس کا کوئی ثبوت ہے، باقی دنیامیں یہ اس لئے نہیں ہوتا کہ وہاں اگرکریں تو پھر دیکھیں ہتک عزت میںکیا ہوتا ہے ان کی جیبیں خالی ہوجائیں گی، سادہ سی بات یہ ہے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن والے آ جائیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ میں آزاد بیٹھنا چاہتا ہوں کہ نہیں، ہم اپنے ہیروز کو کیوں نہیں سراہ رہے، جابرآئے انہوں نے کہا کہ آپ میرے تابع ہوں گے آئین کے نہیں،آپ آئین پر نہیں پی سی اوپر حلف لیں گے، انہوں نے کہا شکریہ خداحافظ میں جارہاہوں ، یہ ہمارے ہیروز ہیں،یہ نہ کہیں کہ سب برابر ہیں، بالکل نہیں ہیں، جو ہرمعاشرے اورادارے میں ہوتا ہے، پھر جودوسرے لوگوں نے فیصلے لکھے ان کی وقعت دیکھ لیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ جو غلطی ہے اس کی اسی وقت نشاندہی کرو اور ملزم پر انگلی رکھو کہ آپ یہ کررہے ہیں۔جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ چھ ججزنے ایک معاملہ اٹھایا جس کی ساری ہائی کورٹ نے نہ صرف حمایت کی بلکہ کہا کہ ہمارے ساتھ بھی ہورہی ہے، اس دورانیہ میں 6ججز کے ساتھ ہوئی کیا ہے، ان کے ساتھ ملزم والا سلوک کیا گیا ہے، اس کامطلب ہے کہ جو سچھ بولے گا تواس کے ساتھ یہ ہوگا، یہ بتائیں ایسی صورتحال میں توڑ بتائیں یہ منظرنامہ ہے جس کو ساری ہائی کورٹس نمایاں کررہی ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ ذاتی طور پرہر جج خود کو اتنا مضبوط کرلے کہ کسی کو جرائت نہ ہوکہ اسے اپروچ کرنے کی کوشش کرے، وہ سنی ان سنی کردے، توڑ بھی ہونا چاہیئے کہ کوئی ایسا کرے گاتواس کو نتائج کاسامنا بھی کرنا پڑے گا، ہم 6ججز بیٹھے ہیں کیا ہم پر کوشش نہیں کی ہوگی، کوئی کہہ دے ہم پر کوئی غالب آیا، میں یہ کہتا ہوں مجھ پر بہت کوشش کی گئی، سب پر کی گئی ہوگئی، نہیں کامیاب ہوئے، میں کمزورہوں تووہ کامیاب ہوجائے گا، اس لئے ہم اپنے آپ کو تومضبوط کریں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پہلے وکلاء کے دلائل سن لیں اور پھر ججز اپنا فیصلہ لکھ دیں۔جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ حضرت امام ابو حنیفہ نے عدلیہ کی پوسٹ قبول نہیں کی، انہوں نے کہا بادشاہ مجھے کہے گا کہ یہ کام کرومیں نے نہیں کرنا پھراس کے نتائج بھی ہوں گے ا س لئے انہوں نے عہدہ قبول ہی نہیں کیا۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ امام ابوحنیفہ  کو سلطان نے جیل میں ڈال دیا تھا۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ جو آزاد جج عدلیہ میں آ جاتا ہے اس کے ساتھ وہی ہوتا ہے جو اب ہو رہا ہے، چیف جسٹس کے ساتھ جو ہوا ، وہی دیکھ لیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جج کو سپریم جوڈیشل کونسل نکال سکتی ہے، آئین نے جج کو تحفظ فراہم کرتا ہے، جج کے پاس توہین عدالت کے اختیارات ہیں، یہ بات نہیں کہ ہم اتنے کمزور ہیں سول جج کو بھی اتنا ہی طاقتور ہونا چاہئے جتنا دوسروں کو ہونا چاہیئے ، وہ کھڑا ہواورسب کے سامنے اپنا لوہا منوائے،سول جج کو بھی کوئی نہیں نکال سکتا اس کو بھی عدلیہ ہی نکال سکتی ہے،اگر ہم ہائی کورٹ کواپنے تابع کریں گے تو وہ بھی عدلیہ کو کمزور کرے گی۔جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ جج کی کمٹمنٹ اپنے حلف کے ساتھ ہونی چاہیئے جو وہ اپنے کیرئیر کے آغاز پرآئین کے تحت لیتا ہے۔ جسٹس نعیم اختر افغان کا کہنا تھا کہ آخرکار جج ہی معنی رکھتا ہے جو جج جو اپروچ رہا ہے یا ہوااس کو اس کو کھڑا ہونا ہے، اس کو کچھ کرنا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کا بیرونی مداخلت سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اس کا کام ججز کے مس کنڈکٹ کے حوالے سے ہے۔ جسٹس سید منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ جج کو مضبوط بنانے کے لیئے مارکیٹ میں کوئی گولی تو دستیاب نہیںورنہ بازار سے لے آتے، ہم جو نظام تشکیل دینا چاہتے ہیںاس میں دوچیزوں کی کمی ہے جو آزاد عدلیہ کی طر ف ہمیں لے کر جاسکتی تھی ، نمبرایک، ہم نے آج تک کمپرومائزڈ ججز کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیاجس کی وجہ سے ہم یہاں تک پہنچے ہیں اگر ہم نے پہلے کمپرومائزڈ کو باہر پھینکاہوتا توچیزیں مختلف ہوتیں، ہم اس کے ساتھ جی رہے ہیں، نمبر دو،اگر کوئی جج کھڑا ہوتا ہے تو ساری عدلیہ کو متحد ہوکراس کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیئے ہمارا نظام اس کوپورا نہیں کرتا، جس طرح کسی غلط کام پر بھی ایک وکیل کے ساتھ سارے وکیل ہمارے خلاف کھڑے ہو جاتے ہیں، ہم اکٹھے نہیں ہوپاتے، ہمیں کوئی نظام بنانا ہے کہ اگر ایک جج صیح کام کے لئے کھڑا ہوتاتوساری عدلیہ اس کے ساتھ کھڑی ہوتو میرے جج کاآپ کچھ کرہی نہیں سکتے، اگر مجھے پتا چلتا ہے کہ کوئی کمپرومائزڈ جج ہے تواسے ایک منٹ میں نظام سے باہر پھینکنا چاہیئے۔ جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ اس معاملہ پر کوئی نہیں بات کررہا کہ مداخلت ہوتی کیوں ہے، جس مقصد کے لئے مداخلت ہوتی ہے اس کو بھی روکنا پڑے گا،کس کے لئے ہوتی ہے، آج ایک کے لئے ہوتی ہے کل دوسرے کے لئے ہوتی ہے، پہلے تواتر کے ساتھ مارشل لاء لگتے تھے، وہ رک گئے، پھر 58ٹوبی آگئی وہ ختم ہوئی،اب ہمارے پاس آگئے۔ جسٹس سید منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ اگر مداخلت موثر نہ ہو تو خود ہی مر جائے گی، اگر دروازہ ہی نہیں کھلنا تو وہ کیوں آئیں گے، اپنا سسٹم بنائیں کہ مداخلت نہ ہو۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ اگرہم سب متحد ہو کر آئین کی بالادستی کے لئے کھڑے ہوںتو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا، نیچے والے جج کواعتماد نہیں ہوتا، یہ عام کیسز میں نہیں ہوتا بلکہ یہ صرف ان کیسز میں ہوتا ہے جن میں ریاست یاریاستی عناصر کسی معاملہ میں دلچسپی رکھتے ہوں، ریاست جارح ہوتی ہے وہاں پر مسئلہ ہوتا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جزا سزا چھوڑ دیں، سچ بولنا شروع کر دیں۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ہمارے سامنے بڑا سوال ہے ، ہم آئین کے آرٹیکل 184-3کے تحت بیٹھے ہیں،سوال یہ ہے کہ ملک آئین کے مطابق چل رہا ہے کہ نہیں چل رہا، میرے ساتھ بیٹھے جج نے اٹارنی جنرل سے گزشتہ سماعت پر کہا تھا کہ انٹیلیجنس ایجنسیز کا مینڈیٹ کیا ہے اور یہ کس قانون کے تحت وجود رکھتے ہیں، کیوں کوئی بھی مداخلت ہونی چاہیئے، اس کا تصور بھی نہیں ہونا چاہیئے اور یہ ناقابل قبول ہونا چاہیئے، جب ہم مداخلت تسلیم کرتے ہیں تواصل میں یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ ملک آئین کے مطابق نہیں چل رہا یا چل رہا تھا، ہم یہاں آئین بالادستی کے لئے بیٹھے ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ جب تک سیاسی جماعتیں یہ فیصلہ نہیں کریں گی کہ ہمیں آپ کی مدد نہیں چاہیئے توکون ہم سے ملے گا، پھر ہم سے کون مطالبہ کرے گا، حق اورسچ کی بات یہ ہے کہ ساری سیاسی جماعتیں یہ چاہتی ہیں کہ میرے لئے استعمال ہو۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ 2018ء میں ایک پارٹی بینیفشری تھی تو آج کوئی اور ہے اور یہ حقیقت ہے،یہ سیاسی رہنمائوں کاکام ہے وہ نہیں کررہے، ہم نے آئین کی سربلندی کا حلف اٹھا رکھا ہے،ہم لوگوں کے سامنے جوابدہ ہیں،، لوگوں کو یقین ہونا چاہئے کہ ہم آئین کو سربلند کریں گے جس کاحلف ہم نے اللہ تعالیٰ کے نام پر حلف لیا ہے، اس لئے ہم عوام کے سامنے جوابدہ ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ اب تک ہیڈزرول ہونے چاہئیں تھے کوئی وفاقی حکومت سے سوال نہیں کر رہا، اگر آئین کے تحت کوئی مہذب معاشرہ چل رہا ہوتا توپتا نہیں کیا کچھ ہوجاتا، کوئی شخص وفاقی حکومت سے سوال نہیں پوچھ رہا کیونکہ وہ ذمہ دار ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ بطور حکومت کے سربراہ وزیراعظم کو اپنے بندے سے پوچھنا چاہئے کہ یہ خلاف ورزی کیوں ہورہی ہے، کیا وفاقی حکومت نے اپنے بچوں سے پوچھا۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ہم ملک کے سارے ہائی کورٹس سے ججز کی تحقیقات کریں، کیوں کہ وہ سچے ہیں؟ عدالت نے کیس کی سماعت غیرمعینہ مدت تک ملتوی کر دی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آئندہ سماعت کی تاریخ کا کہنا ججز کی دستیابی پر کریں گے۔ZS