استعفی دے دوں گا مگر دبا ؤمیں نہیں آ ؤں  گا۔محمدشہباز شریف
 چیئر مین ایف بی آر کو فلور ملز مالکان سے ملنے اور تمام جائز مسائل حل کرنے کی ہدایت
یہ آئی ایم ایف کا آخری پروگرام ہوگا۔ایف بی آرہیڈ کوارٹرمیں اجلاس سے خطاب

اسلام آباد (ویب  نیوز)

وزیراعظم محمدشہباز شریف نے کہا ہے کہ استعفی دے دوں گا مگر دبا ؤمیں نہیں آ ؤں  گا، فیڈرل بورڈ ریونیومیں اصلاحات کا عمل جاری رہے گا، اپنے وسائل کیلئے ٹیکس اکٹھا کر لیں تو ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی، آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول معاہدے پر وزارت خزانہ کی ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے،یہ آئی ایم ایف کا آخری پروگرام ہوگا چیئر مین ایف بی آر کو ہدایت کی کہ فلور ملز مالکان سے ملیں اور ان کے تمام جائز مسائل حل کریں۔اسلام آباد میں محمد شہباز شریف کی زیر صدارت ایف بی آر ہیڈکوارٹر میں  اجلاس منعقدہوا۔وزیراعظم شہبازشریف فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے ہیڈکوارٹر پہنچے تو یادگار شہدا پرپھول رکھے اورفاتحہ خوانی کی۔وزیراعظم کو ایف بی آر میں جاری اصلاحات پر بریفنگ دی گئی اور طویل مدتی ڈیجیٹائزیشن حکمت عملی سے آگاہ کیا گیا۔ بریفنگ میں بتایا گیا کہ پاکستان کسٹمز کی تمام سروسزکی جدید تقاضوں کیمطابق ڈیجیٹائزیشن جاری ہے۔وزیراعظم کو ایف بی آرتاجر دوست موبائل ایپلی کیشن کے پہلے مرحلے کی تکمیل پربھی بریفنگ دی گئی اور بتایا گیا کہ گھربیٹھے ٹیکس نظام میں رجسٹریشن، ٹیکس جمع کرانے تک تمام عمل کی سہولت دی گئی ہے، ٹیکس دینے کی صلاحیت رکھنے والے49 لاکھ افراد کی نشاندہی کی گئی ہے۔وزیر اعظم نے ٹیکس بیس بڑھانے اور نشاندہی شدہ افراد کو فوری ٹیکس نیٹ میں لانے کی ہدایت کی، اس کے علاوہ شہباز شریف نے چیئر مین ایف بی آر کو ہدایت کی کہ فلور ملز مالکان سے ملیں اور ان کے تمام جائز مسائل حل کریں۔انہوں نے کہا کہ ایف بی آر ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، ایف بی آر کی آٹومیشن اور ڈیجیٹائزیشن حکومت کی اولین ترجیح ہے۔شہباز شریف نے ویب بیسڈ ون کسٹمزسسٹم کیلیے 2 ارب روپے فوری جاری کرنے کی ہدایت بھی کی۔ایک نجی ٹی وی کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے ایف بی آر افسران کو دوٹوک بتایا کہ استعفی دے دوں گا مگر دباؤ میں نہیں آؤں گا اور ایف بی آر میں اصلاحات کا عمل جاری رہے گا۔انہوں نے کہاکہ کوئی سفارش قبول نہیں، کوئی ذاتی پسند ناپسند بھی نہیں، قومی مفاد سب سے اوپر ہے، کوئی غلطی ہے تو درست کرینگے، چیئرمین ایف بی آر نے ڈیجیٹائزیشن پرچند دن پہلے سرپرائز دیا، تین ماہ پہلے بتادیتے تو سوچتے غیر ملکی فرم میکانزی کو لانا ہے یا نہیں؟ ان کا کہنا تھاکہ چیئرمین ایف بی آر کو پھر کہتا ہوں اب بھی کوئی سرپرائز ہے تو دے دیں کوئی ایکشن نہیں لوں گا لیکن اس کے بعد چھپن چھپائی کی تو برداشت نہیں کروں گا۔وزیر اعظم نے آئی ایم ایف معاہدے کونئی ذمہ داریوں کا آغاز قرار دیتے ہوئے کہاکہ اب ٹیکس کا نفاذ ان افرادپر کریں جو ایک دھیلے کا ٹیکس نہیں دیتے، ٹیکس لینے کے نام پر تاجروں اور صنعتکاروں کو تنگ کرنے کی بھی اجازت نہیں دوں گا، نہیں چاہتا کہ آپ میری بدنامی کریں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ ہم نے معیشت کو مستحکم کرنا ہے، اس کے لیے مشکل سفر طے کرنا ضروری ہے، اس کے لیے ہمیں تحمل، برداشت اور قربانی کا مظاہرہ کرنا لازمی جز ہے، اس کے بغیر یہ سفر مکمل نہیں ہوسکتا۔انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول معاہدہ طے ہوا، اس کے بعد ان کا بورڈ بیٹھے گا اور اس کی منظوری دے گا، اب ہماری ذمہ داری کا آغاز ہوا چاہتا ہے، ہمیں شبانہ روز محنت کرنا ہوگی، تب ہی یہ آئی ایم ایف کا آخری پروگرام ہوگا، جس کے بعد ترقی اور خوشحالی کے سفر کا آغاز ہوگا۔شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ٹیکس کے نظام میں کمزوریوں سے جان چھڑانا ہو گی، ایف بی آر کو ٹیکس نیٹ بڑھانے کیلئے جس بھی سپورٹ کی ضرورت ہو گی ترجیحی بنیادوں پر کی جائے گی، آئی ایم ایف میں ڈیجیٹیلائزیشن کا عمل شروع ہو چکا ہے،اجتماعی کاوشوں سے انشا اللہ پاکستان ایک عظیم، خوشحال اور قابل احترام ملک بنے گا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کو قرضوں سے جان چھڑانی ہے، جو ٹیکس دیتے ہیں ان پر مزید ٹیکس عائد کریں گے تو یہ ان کے لیے جرمانہ ہوگا جو باقاعدگی سے ٹیکس ادا کرتے ہیں، جبکہ ٹیکس ادا نہ کرنے والوں کے لیے پریمیم ہوگا۔شہباز شریف نے کہا کہ جب تک یہ بات ہمارے دلوں اور دماغوں میں نہیں ہوگی تو بات نہیں بنے گی، آپ آسان کام لیں گے اور ٹیکس لگائیں گے کہ انہوں نے تو ریٹرن فائل کرنی ہی ہے کیونکہ یہ سرکاری ملازم ہے، یہ کہاں جائے گا، اس طرح کبھی ملک ترقی نہیں کرے گا۔ان کا کہنا تھا کہ عام آدمی ترقی و خوشحالی کے لیے اور اس کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے ایف بی آر کو پوری حکمت عملی تبدیل کرنی ہے، اور آج دنیا میں جدید ترین جو ٹیکنالوجی ہے، ایف بی آر کے ہم پلہ باقی ملکوں میں جو ادارے ہیں، انہوں نے جو حکمت عملی بنائی ہے، اس کو آپ نے اپنانا ہے۔شہباز شریف نے کہا کہ اربوں، کھربوں روپے ایف بی آر  اکٹھے کرتے ہیں اور چند ارب روپے کے لیے عالمی بینک یا دوسروں کے پاس چلے جاتے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ قومیں اس طرح نہیں بنتیں۔