راولپنڈی  (  ویب  نیوز  )
امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کراچی کی بزنس کمیونٹی کے ہمراہ راولپنڈی عوامی دھرنا کے ساتویں روز پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کو دو دن دیتے ہیں، مطالبات پر حکمرانوں نے کوئی پیش رفت نہ دکھائی تو ساری بات چیت دھرنے میں میڈیا کے سامنے ہوگی، قوم کو بتائیں آپ کو اخراجات کم کرنے میں کیا پریشانی ہے، کسی کو دھوکہ دینے کی کوشش نہیں کرنے دیں گے، مطالبات نہ مانے گئے تو یہ تحریک  حکومت گراؤ تحریک میں بدل جائے گی۔ کوئی خلاف آئین کام، جلاؤ گھیراؤ یا نقصان نہیں کریں گے، کسی کو موقع نہیں دیں گے کہ انتشار پھیلائے۔ حکمران اپنے دھندے اور عیاشیاں ختم کریں، بتایا جائے حکومتی اخراجات میں 25 فیصداضافہ کیوں کر دیا گیا۔ گاڑیاں وزیروں مشیروں اور بیوروکریسی کی چلیں اور پٹرول کے پیسے عوام برداشت کریں یہ اب نہیں چلے گا۔بیوروکریسی کی بجلی، گیس اور پانی کے پیسے قوم کے ٹیکس سے ادا کرنا بند کرو، ماہانہ ایک ہزار ارب روپے کی کرپشن صرف ایف بی آر میں ہوتی ہے۔  نائب امراء  لیاقت بلوچ، میاں اسلم، ڈاکٹر عطاء الرحمن، سیکرٹری جنرل امیر العظیم، سیکرٹری اطلاعات قیصر شریف، تاجر رہنما کاشف چوہدری، امیر راولپندی عارف شیرازی و دیگر بھی اس موقع پر موجود تھے۔
حافظ نعیم الرحمن نے کہا کراچی سے بزنس انڈسٹری کے نمائندوں کو دھرنے میں شرکت پر ویلکم کرتے ہیں۔ حکومت لوگوں کو کہنے کی کوشش کر رہی ہے کہ جماعت اسلامی کے مطالبات قابل عمل نہیں ہیں، جماعت اسلامی نے سب مطالبات کے قابل عمل ہونے کا لائحہ عمل بھی دیا ہے لہذا یہ بات قبول نہیں کی جا سکتی کہ ہمارے مطالبات منظور نہیں کیے جا سکتے۔ حکومت سے مذاکرات میں یہ بات سامنے رکھی ہے کہ آئی پی پیز کے معاہدات کو سامنے لایا جائے، جن کے معاہدوں کو ریوائز کیا جا سکتا ہے ان کو ریوائز کیا جائے، جو معاہدے خلاف قانون اور غلط ہیں ان کو فی الفور ختم کیا جائے اور مجرموں کو سزا دی جائے۔ جنہوں نے ان معاہدات کے نتیجے میں قوم کے پیسے پر ڈاکہ ڈالا ہے ان کو سزا ملنی چاہیے۔ مہنگی بجلی کے پیسے اور کیپسٹی چارجز عوام کیوں برداشت کریں۔ حکومت کہتی ہے آئی ایم ایف کے معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کر سکتے۔ ان سے پوچھتے ہیں آئی ایم ایف کے معاہدوں میں تو تعلیم، صحت اور اشیائے خوردونوش پر ٹیکس نہ لگانے کی بات ہے پھر حکومت ایک طرف خود خلاف ورزی کر رہے ہیں اور دوسری طرف طرف ہمارے مطالبات منظور نہیں کیے جا سکتے۔
امیر جماعت نے کہا دھرنے کا ساتواں دن ہے اور ہم حقیقی مطالبات کو لے کر اٹھے ہیں، کراچی سے انڈسٹریلسٹ اگر دھرنے میں شریک ہوئے ہیں تو یہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ لوگ ہمارے مطالبات کی حمایت کر رہے ہیں اور ملک کا سب سے بڑا ں زنس مین اور انڈسٹریلسٹ مشکل میں ہے۔ہم اسلام آباد جا سکتے تھے اور ڈی چوک پر بیٹھ سکتے ہیں۔ لیکن تصادم کا راستہ ہم کبھی اختیار نہیں کریں اور نہ ملک کسی تصادم کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
تاجر رہنماؤں نیکہا وہ تمام انڈسٹری کے نمائندے ہیں، ہم پاکستان کی ٹوٹل انڈسٹری کے 80 فیصد شئیر ہولڈر ہیں، سب سے زیادہ ایمپلائمنٹ ہماری انڈسٹری سے پیدا ہوتی ہے،لوگوں کو روزگار ملتا ہے۔ ہم نے حکومت سے بات کی ہے کہ فکس ٹیکس سے ہمیں کیوں نکال دیا گیا، اور آئی ایم ایف کے کہنے پر انڈسٹری کو فارمل ٹیکس رجیم سے نارمل ٹیکس رجیم میں لایا گیا۔ پوری دنیا میں ایکسپورٹ پر ایک ٹیکس نہیں ہوتا یہاں لگایا جاتا ہے۔ ہماری انڈسٹری کی پیمنٹ لیٹ کر دی جاتی ہیں اسکا ریفنڈ پر بھی کوئی باقاعدہ طریقہ کار کے مطابق نہیں ہوتا۔ ساڑھے سات ارب ڈالر کیلیے ہم ایکسپورٹرز کو فکس ٹیکس رجیم سے نارمل ٹیکس رجیم میں دھکیل دیا گیا۔ حالانکہ ہم پاکستان کو ٹیکس دیتے ہیں، آئی ایم ایف کو تو سود کے ساتھ پیسے واپس کرنے پڑتے ہیں ہم وہ سود کا کوئی حساب نہیں رکھتے۔ ہم اس دھرنے کی وساطت سے حکومت سے کہتے ہیں خدارا ملک کی انڈسٹری کو بچاؤ سب انڈسٹریلسٹ ملک سے بھاگ رہے ہیں، انڈسٹری کے باہر شفٹ ہونے سے لوگوں کا روزگار چھن جائے گا اور ملک معاشی طور پر پیچھے چلا  جائے گا۔ انڈسٹریلسٹ کے خلاف غلط کیس بنائے جاتے ہیں۔ ملک کی معیشت کا پہیہ چلانے والوں کے خلاف غلط کیسیز اوپن کرنے کا بھی کوئی حساب ہونا چاہیے۔ حکومت کی دیدہ دلیری دیکھیے حکومت جو چیزیں مفت فراہم کر رہی ہے ان پر بھی ٹیکس لگا رہی ہے۔ حکومت انڈسٹری کا قتل نہ کرے، اور خدارا ملک کی خاطر انڈسٹری دوست پالیسیاں لائے تاکہ ملک کی معیشت کا پہیہ چل سکے۔