اسٹیٹ بینک کا بنیادی شرح سود میں 2 فیصد کمی کا اعلان
کراچی (ویب نیوز)
اسٹیٹ بینک نے بنیادی شرح سود میں 200 بیسس پوائنٹس کی کمی کر کے 17.5 فیصد کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس سے قبل پالیسی ریٹ 19.5 فیصد تھا،مرکزی بینک کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ ،زری پالیسی کمیٹی(ایم پی سی) نے اپنے اجلاس میں پالیسی ریٹ کو13ستمبر 2024 سے200بی پی ایس کم کرکے 17.5 فیصد کرنے کا فیصلہ کیاہے۔ گذشتہ دو مہینوں کے دوران عمومی اور قوزی مہنگائی دونوں میں تیزی سے کمی ہوئی۔ اس ارزانی کی رفتار کسی حد تک کمیٹی کی سابقہ توقعات سے تجاوز کرگئی جس کا بنیادی سبب توانائی کی مقررہ قیمتوں میں طے شدہ اضافے پر عملدرآمد میں تاخیر اور تیل اور غذا کی عالمی قیمتوں میں سازگار تبدیلی تھی۔ ساتھ ہی کمیٹی نے ان حالات کے حوالے سے داخلی غیریقینی کو تسلیم کیا جس کی بنا پر محتاط زری پالیسی موقف کی ضرورت تھی۔ اس سلسلے میں گذشتہ سال کے دوران مہنگائی میں پائیدار کمی لانے میں سخت زری پالیسی موقف کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ایم پی سی نے اپنے گذشتہ اجلاس سے اب تک ہونے والی اہم پیش رفتوں کا ذکر کیاجن کے معاشی منظرنامے کے لیے مضمرات ہیں۔اول، تیل کی عالمی قیمتیں تیزی سے کم ہوئی ہیں، گو کہ وہ بدستورتغیر پذیر ہیں۔ دوم، سرکاری زرمبادلہ رقوم کی کم آمد اور مسلسل قرضے کی واپسی کے باوجود 6ستمبر تک اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ ذخائر تقریبا 9.5 ارب ڈالر ہیں ۔ سوم، پچھلے ایم پی سی اجلاس کے بعد سے حکومتی تمسکات کی ثانوی مارکیٹ کی یافتیں نمایاں طور پر کم ہوئی ہیں۔چہارم، تازہ ترین پلس سرویز کے مطابق مہنگائی کی توقعات اور کاروباری اداروں کے اعتماد میں بہتری آئی ہے جبکہ صارفین کی توقعات میں کسی قدر بگاڑ آیا ہے۔ آخری بات یہ ہے کہ جولائی اگست 2024 کے دوران ایف بی آر کی ٹیکس وصولی ہدف سے کم تھی۔ ان حالات نیز مہنگائی کے منظرنامے کو درپیش ممکنہ خطرات اور آج کے فیصلے کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایم پی سی نے تخمینہ لگایا کہ حقیقی شرح سود ابھی تک کافی حد تک مثبت ہے اور مہنگائی کو کم کرکے 5-7 فیصد کے وسط مدتی ہدف تک لانے اور معاشی استحکام کو یقینی بنانے میں مدد دے سکتی ہے۔ حالیہ بلند تعدد اظہاریوں سے معاشی سرگرمی میں معتدل تیزی کی عکاسی ہوتی ہے۔ اگست میں سیمنٹ اور پیٹرولیم مصنوعات (فرنس آئل کو چھوڑ کر) کی فروخت ماہ بماہ بنیاد پر بالترتیب 8.5 فیصد اور 6.8 فیصد بڑھ گئی۔ کاروباری احساسات کے تازہ ترین سرویز سے بھی معتدل تیزی کے اس تجزیے کو تقویت ملتی ہے کیونکہ مینوفیکچرنگ فرموں نے سرویز کی گذشتہ چند لہروں کے دوران استعداد کے استعمال میں اضافہ رپورٹ کیا ہے۔ ساتھ ہی ایم پی سی نے نوٹ کیا کہ شعبہ زراعت کا منظرنامہ کمزور ہوا ہے ۔ اس کمزوری کو اگست 2024 کے آخر تک کپاس کی آمد میں حکومتی ہدف سے متوقع کمی سے منسوب کیا جاتا ہے۔دوسری جانب کمیٹی کا کہنا تھا مہنگائی کے دبا میں مسلسل کمی اور پالیسی ریٹ میں حالیہ کٹوتیوں کے ظاہر ہوتے ہوئے اثرات سے صنعت اور خدمات کے شعبوں میں نمو کے امکانات کو تقویت ملے گی۔ چنانچہ مجموعی طور پر حقیقی جی ڈی پی کا منظرنامہ مالی سال 25 کے لیے ایم پی سی کے 2.5-3.5 فیصد کے پچھلے تخمینے سے ہم آہنگ رہا۔جولائی 2024 میں کارکنوں کی ترسیلات زر کی بلند آمد اور برآمدی آمدنی میں نمایاں بہتری نے درآمدات میں اضافے کے اثر کو زائل کردیا اور جاری کھاتے کے خسارے کو 0.2 ارب ڈالر تک محدود رکھنے میں مدد دی۔ کارکنوں کی ترسیلات زر کا یہ مضبوط رجحان اگست میں بھی جاری رہا۔ عالمی معاشی ماحول بھی سازگار ہوگیا جیسا کہ خام تیل کی قیمتوں میں خاصی کمی اور عالمی مالی حالات میں قدرے بہتری سے ظاہر ہوتا ہے۔ آگے چل کر ملکی معاشی بحالی کے مطابق درآمدی حجم میں اضافے کی توقع ہے ۔تاہم توقع ہے کہ ملک کے تناسب تجارت میں بہتری، جس کا بڑا سبب کم ہوتی ہوئی خام تیل کی قیمتیں ہیں، کے نتیجے میں مالی سال 25 میں مجموعی تجارتی خسارہ قابو میں رہے گا۔نیز یہ بھی توقع ہے کہ برآمدی آمدنی مستحکم رہے گی کیونکہ بلند قدر اضافی کی حامل ٹیکسٹائل میں نمو چاول کی برآمدات میں متوقع کمی کی تلافی کردے گی۔ ایم پی سی کا کہنا تھا کہ کارکنوں کی مضبوط ترسیلات زر کے ہمراہ ان عوامل کی بنا پر توقع ہے کہ جاری کھاتے کا خسارہ مالی سال 25 میں جی ڈی پی کے 0-1 فیصد کی تخمین شدہ حدود کے اندر رہے گا۔ اس محدود جاری کھاتے کے خسارے اور اس کے ہمراہ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت مجوزہ رقوم کی آمد سے اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر کو مزید بڑھانے میں مدد ملے گی۔جولائی اگست مالی سال 25 کے دوران ایف بی آر کی ٹیکس وصولی 20.5 فیصد بڑھ گئی۔ ایم پی سی نے نوٹ کیا کہ مالی سال کے لیے محاصل کا ہدف پورا کرنے کے لییمالی سال 25 کے بقیہ مہینوں میں ٹیکس وصولی کی رفتار کو موجودہ شرح سے کافی زیادہ بڑھانے کی ضرورت ہوگی۔اس دوران گذشتہ کچھ برسوں کے دوران حاصل ہونے والی مالیاتی یکجائی نے مہنگائی کو کم کرنے اور مجموعی معاشی استحکام بحال کرنے میں زری پالیسی کی مدد کی ہے۔ اس کے نتیجے میں مجموعی سرکاری قرض اور جی ڈی پی کا تناسب کافی بہتری ہوگیا ہے اور جون 2023 کے آخر میں 75 فیصد سے گھٹ کر جون 2024 کے آخر میں 67.2 فیصد پر آگیا ہے۔ آگے چل کر ،ایم پی سی نے توقع ظاہر کی کہ مالیاتی یکجائی ان اصلاحات کے دوران جاری رہے گی جن کا مقصد ٹیکس اساس کو وسیع کرنا اور پی ایس ای کے نقصانات (خصوصا شعبہ توانائی کے مسائل سے نمٹ کر) کو کم کرنا ہے، جس سے سماجی اور ترقیاتی اخراجات کے لیے اضافی گنجائش پیدا ہوگی۔خاص طور پر نجی شعبے کے قرضوں اور اجناس کی سرگرمیوں کے قرضوں کی موسمی رجحان سے زیادہ واپسی کے سبب آخر اگست 2024 تک زر وسیع (ایم 2) کی نمو سست ہو کر 14.6 فیصد پر آ گئی جو آخر جون میں 16.1 فیصد تھی۔ زر بنیاد کی نمو مالی سال 24 میں کمزور رہنے کے بعد کچھ بڑھی لیکن یہ ابھی تک اپنے تاریخی رجحان سے کم ہے۔ واجبات کے لحاظ سے ایم 2 کی نمو میں ڈپازٹس نے اہم کردار ادا کیا۔ زری پالیسی کمیٹی نے زور دیا کہ حکومت کے لیے ملکی بینکاری شعبے پر انحصار میں کمی ، خالص بیرونی اثاثوں میں بہتری لانے اور نجی شعبے کو قرض دینے کی گنجائش پیدا کرنے کے لیے زرمبادلہ کی مجوزہ سرکاری رقوم کی آمد کلیدی حیثیت کی حامل ہو گی۔ زری پالیسی کمیٹی نے یہ بھی کہا کہ مالی حالات سازگار ہونے سے نجی شعبے کے قرضوں کی حالیہ کمزور طلب میں اضافہ ہو سکتا ہے۔عمومی مہنگائی اپنے کمی کے رجحان کو برقرار رکھتے ہوئے گذشتہ ایم پی سی اجلاس کے وقت جون 2024کے 12.6 فیصد سے کم ہو کر اگست 2024 میں 9.6 فیصد سال بسال کے سنگل ڈیجٹ کی سطح پر آ گئی، جبکہ قوزی مہنگائی 14.1 فیصد سے کم ہو کر 11.9 فیصد رہ گئی۔ کمیٹی نے جائزہ لیا کہ اس کمی سے محدود طلب کے اثرات کی عکاسی ہوتی ہے، جبکہ اسے اہم غذائی اجزا، عالمی اجناس کی سازگار قیمتوں اور توانائی کی سرکاری قیمتوں میں اضافے میں تاخیر سے تقویت ملی ہے۔ اس کے ساتھ زری پالیسی کمیٹی نے تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ قلیل مدتی مہنگائی کے منظرنامے کو کچھ خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ توانائی کی سرکاری قیمتوں میں ردوبدل کے اوقات اور شدت، اجناس کی عالمی قیمتوں کی مستقبل کی سمت اور محصولات کی وصولی میں کمی کو پورا کرنے کے لیے مختلف قسم کے ٹیکس اقدامات کے بارے میں بھی بے یقینی پائی جاتی ہے۔ بحیثیت مجموعی کمیٹی کی رائے میں مالی سال 25 کے دوران اوسط مہنگائی 11.5 تا 13.5 فیصد کی پچھلی پیش گوئی سے کم رہنے کا امکان ہے۔ تاہم اس تجزیے کا انحصار برہدف مالیاتی یکجائی کے حصول اور تخمین شدہ بیرونی رقوم کی بروقت آمد پر ہے۔