Orange sky with bright sun and thermometer symbolizing climate change and global warming

پاکستان میں شمسی توانائی کے تیز رفتار فروغ کو سبز صنعتی ترقی میں تبدیل کرنے کے لئے اصلاحات ناگزیر ہیں،ایس ڈی پی آئی رپورٹ

مربوط اور بروقت قابلِ تجدید توانائی پالیسیاں پاکستان اور چین کیلئے شمسی توانائی کو دوطرفہ فائدے میں بدل سکتی ہیں،ایس ڈی پی آئی نے یونیورسٹی آف باتھ کے اشتراک سے جامع پالیسی رپورٹ کا اجرا کیا

اسلام آباد(ویب  نیوز)

پاکستان میں شمسی توانائی کے تیز رفتار فروغ کو سبز صنعتی ترقی، توانائی کے تحفظ اور پائیدار معاشی استحکام میں تبدیل کرنے کے لئے بروقت اور مربوط پالیسی اصلاحات ناگزیر ہیں۔پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی کی ایک تازہ پالیسی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر موجودہ شمسی بوم کو مقامی صنعت، روزگار اور ویلیو چین کی ترقی سے نہ جوڑا گیا تو یہ موقع ضائع ہو سکتا ہے۔ ایس ڈی پی آئی نے یونیورسٹی آف باتھ کے اشتراک سے جامع پالیسی رپورٹ کا اجرا کیا۔شمسی توانائی سے سبز صنعتی ترقی تک کے موضوع پریہ رپورٹ SGAIN منصوبے کے تحت تیار کی گئی ہے اور اس میں اس امر پر زور دیا گیا ہے کہ پاکستان میں تیزی سے بڑھتی ہوئی شمسی توانائی کے استعمال کو پائیدار صنعتی اور معاشی مواقع میں ڈھالنے کیلئے فوری اصلاحات ناگزیر ہیں۔تقریب کے آغاز پر ایس ڈی پی آئی کے انرجی یونٹ کے سربراہ انجینئر عبید الرحمٰن ضیا نے کہا کہ پاکستان میں شمسی توانائی کی تنصیبات میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق پاکستان اب تک تقریباً 50 گیگاواٹ کے مساوی شمسی آلات درآمد کر چکا ہے جو سرکاری طور پر نصب گرڈ صلاحیت سے کہیں زیادہ ہے۔ایس ڈی پی آئی کے ریسرچ فیلو اور توانائی معیشت کے ماہر ڈاکٹر خالد ولید نے کہا کہ یہ رپورٹ پاکستان کے وسیع تر معاشی اصلاحاتی ایجنڈے سے ہم آہنگ ہے جس میں توانائی، برآمدات، ماحولیات اور ڈیجیٹلائزیشن شامل ہیں۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ پاکستان نے 2 سے 3 ارب امریکی ڈالر مالیت کے شمسی پینلز درآمد کئے ہیں جو 22 سے 30 گیگاواٹ صلاحیت کے برابر ہیں۔ انہوں نے اقتصادی زونز میں چینی مہارت کے ساتھ مشترکہ منصوبوں کی اہمیت پر بھی زور دیا۔ یونیورسٹی آف باتھ کے پروفیسر ڈاکٹر یکسیان سن نے کہا کہ پاکستان نے شمسی درآمدات پر 10 ارب ڈالرسے زیادہ خرچ کئے مگر اس کے صنعتی یا معاشی فوائد حاصل نہیں کر سکا۔انہوں نے بتایا کہ گزشتہ تین برسوں میں چینی کمپنیوں نے جنوب مشرقی ایشیا سمیت مختلف ممالک میں شمسی مینوفیکچرنگ کے شعبے میں 200 ارب ڈالر سے زیادہ سرمایہ کاری کی جبکہ پاکستان تقریباً اس سے محروم رہا۔ انہوں نے کہا کہ بڑی منڈی اور کم لاگت افرادی قوت کے باعث پاکستان صاف توانائی کی صنعت کیلئے مسابقتی مرکز بن سکتا ہے۔پالیسی سفارشات پیش کرتے ہوئے یونیورسٹی آف باتھ کے ڈاکٹریٹ امیدوار فیصل شریف نے ٹیرف میں توازن، سیلز ٹیکس کی ہم آہنگی، بلینڈڈ فنانس، مقامی مواد کی شرط، مضبوط معیارات اور سرٹیفکیشن نظام، اور سی پیک فیز ٹو کے خصوصی اقتصادی زونز میں شمسی مینوفیکچرنگ کلسٹرز کے قیام پر زور دیا۔وزارتِ صنعت و پیداوار کے نمائندے آفتاب خان نے پاکستان کی موجودہ تکنیکی تیاری پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ مقامی کاری کے لیے ترجیحی شعبوں کا واضح تعین ضروری ہے، جو طلب، کارکردگی اور صنعتی صلاحیت کی بنیاد پر ہونا چا ہئے۔بحریہ یونیورسٹی کے سینئر ایسوسی ایٹ پروفیسر اور چائنا انرجی انجینئرنگ گروپ کے سینئر مشیر ڈاکٹر حسن داو ¿د بٹ نے خبردار کیا کہ بے لگام شمسی درآمدات نظام کے استحکام کو کمزور کر رہی ہیں انہونے اصلاحات پر مبنی سی پیک فریم ورک کے تحت گرین خصوصی اقتصادی زونز کے لئے واضح روڈمیپ کی ضرورت پر زور دیا۔رینیوایبلز فرسٹ کے سینئر ایسوسی ایٹ ڈاکٹر اویس عبد الرحمٰن نے کہا کہ چین، بھارت اور جاپان کی طرز پر کارکردگی پر مبنی مراعات مقامی طور پر تیار کردہ شمسی پینلز کو مسابقتی بنانے کیلئے ناگزیر ہیں۔پاکستان سولر ایسوسی ایشن کے نائب چیئرمین آفاق علی خان نے خبردار کیا کہ غیر منصوبہ بند شمسی اضافے کپیسٹی پیمنٹس پر اثر ڈال رہے ہیں اور گرڈ کی ڈیجیٹلائزیشن اور افرادی قوت کی تربیت، خصوصاً چینی اداروں کے تعاون سے ناگزیر ہے۔مارکیٹ کی صورتِ حال پر گفتگو کرتے ہوئے رینیوایبلز فرسٹ کے شیراز خان نے کہا کہ واضح ضابطہ جاتی فریم ورک اور مراعات شمسی ویلیو چین کے ابھرتے ہوئے شعبوں میں مقامی مینوفیکچرنگ کے دروازے کھول سکتی ہیں۔ایس ڈی پی آئی کی وزٹنگ فیلو ڈاکٹر حنا اسلم نے رپورٹ کو بروقت قرار دیتے ہوئے کہا کہ عالمی سطح پر صاف توانائی کی سپلائی چینز میں تنوع آ رہا ہے اور پاکستان اس تبدیلی سے فائدہ اٹھا کر اپنے نوجوانوں کو ہنر مند بنا سکتا ہے

#/S