• قانون کی حکمرانی اور عملدرآمد پر یقین رکھتا ہوں،  18 مارچ کو عدالت میں پیش ہوں گا
  • میری گرفتاری عدالت میں پیش ہونے کے لیے نہیں مجھے مارنے کے لیے ہے
  • مذہبی جنونی کے ذریعے مجھے قتل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، میری خوش قسمتی ہے کہ آج میں زندہ ہو،چیرمین پی ٹی آئی کی صحافیوں سے گفتگو،غیرملکی ٹی وی کو انٹرویو

لاہور (ویب نیوز)

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان کی ترقی، مفادات، جمہوریت کیلئے کسی قربانی سے گریز نہیں کروں گا، اس ضمن میں میں کسی سے بھی بات کرنے کیلئے تیار ہوں، اس جانب میں ہر قدم اٹھانے کیلئے تیار ہوں۔لاہور میں صحافیوں سے ملاقات کے دوران گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ انتخابات کسی صورت 90 دن سے آگے نہیں جانے دیں گے، انتخابات 90 روز سے آگے گئے تو آئینی تحریک چلائیں گے، سپریم کورٹ کا فیصلہ نہ ماننا ٹیک اوور کو دعوت دینا ہو گا، میری حکمت عملی اس بات پر ہے کہ یہ سپریم کورٹ کا فیصلہ مانتے ہیں یا نہیں۔پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا کہ میری گرفتاری عدالت میں پیش ہونے کیلئے نہیں مجھے مارنے کیلئے ہے، کوئی شک نہیں گرفتاری کے بعد مجھ پر تشدد ہوگا، عدالت میں پیش ہونے سے کبھی انکار نہیں کیا، یہ مجھے اس جگہ بلا رہے ہیں جس پر مجھے سیکیورٹی خدشات ہیں، پولیس رینجرز اہلکار میری گرفتاری کیلئے دو بار میرے قریب پہنچے۔عمران خان نے کہا کہ قانون کی حکمرانی اور عملدرآمد پر یقین رکھتا ہوں،  18 مارچ کو عدالت میں پیش ہوں گا، جب کہہ دیا تھا عدالت میں پیش ہوں گا تو سارا ڈرامہ کیوں رچایا جا رہا ہے؟  میرے کارکن غصے میں ہیں، کارکن کہتے ہیں آپ کیوں بار بار قانون پر عملدرآمد کی رٹ لگائے ہوئے ہیں؟پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا کہ مارچ 2021 میں اہم شخصیت نے بتایا کہ جنرل باجوہ آپ کو نکالنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔سینئر صحافی نے عمران خان سے سوال کیا کہ چوہدری پرویز الہی کدھر ہیں، جس پر عمران خان نے انکشاف کیا کہ چوہدری پرویز الہی کو کورونا ہوگیا ہے،بعدازاں لاہور میں پارٹی کارکنان سے خطاب کرتے ہوئے  عمران خان نے کہا کہ میرے گھر پر ہزاروں پولیس اہلکاروں اور رینجرز نے چڑھائی کی جس سے ایسا لگا کہ میں دنیا کا بڑا دہشت گرد ہوں۔عمران خان نے کہا کہ میری گرفتاری کے لیے بکتربند گاڑی منگوا لی مجھے پچاس برس سے قومی جانتی ہے، ایک دفعہ کوئی بتائے کہ میں نے قانون توڑا ہو۔عمران خان نے کہا کہ اس ملک میں عوام سب سے زیادہ چندہ مجھے دیتی ہے جس سے تیسرا سب سے بڑا خیراتی ہسپتال تعمیر ہو رہا ہے جبکہ پہلے نمل یونیورسٹی اور اب القادر یونیوسٹی تعمیر کی ہے جو کہ سب غریبوں کے لیے ہیں۔عمران خان نے کہا کہ سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ کو فوج اور پولیس پکڑنے آجاتی ہے اور جرم یہ تھا کہ 18 تاریخ کو پیشی تھی لیکن پولیس 14 تاریخ کو ہی پہنچ گئی۔انہوں نے کہا کہ عدالت نے ان سے پوچھا کہ تین دن پہلے گرفتار کرکے کیا کرنا ہے، لیکن مجھے پتا ہے کہ انہوں نے وہی کرنا تھا جو اعظم سواتی اور دیگر کے ساتھ کیا۔عمران خان نے کہا کہ جیل میں بند کرنے کی پوری کوشش اس لیے ہوئی کہ لندن پلان تھا نہ کہ قانونی کارروائی۔انہوں نے کہا کہ میں نے کبھی قانون نہیں توڑا، 85 مقدمات ہیں میں لکھ کر دیتا ہوں کہ کسی ایک کیس میں بھی میری کوئی غیرقانونی چیز ثابت کریں میں خود ہی سیاست چھوڑ دوں گا۔عمران خان نے کہا کہ پہلے میں دوسرے لوگوں پر ٹکٹ تقسیم کرنے کا کام چھوڑتا تھا لیکن مجھے پتا ہے کہ 2018 کے ٹکٹ غلط تقسیم ہوئے تھے جس میں پیسا بھی چلا تھا اس لیے اب میں خود ہی ٹکٹ تقسیم کروں گا۔انہوں نے کہا کہ میرے اوپر تو بہت کچھ کیا گیا اور گزشتہ انتخابات میں پیسے دے کر کتاب شائع کروا لی لیکن مجھے افسوس اس بات کا ہے کہ بشری بیگم کے خلاف منصوبہ بند مہم چلائی گئی، جو خاتون ایمان میں مجھ سے بھی آگے ہے اس کی کردار کشی کی گئی۔انہوں نے کہا کہ جو خاتون نہ کبھی ڈنر پر جاتی ہیں، نہ شاپنگ یا کسی شادی میں گئی ہیں نہ بینک اکانٹ ہے ان کے خلاف منصوبہ کرکے مہم چلائی گئی۔قبل ازیں الجزیرہ کو دیے گئے انٹرویو میں پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے کہا کہ میں 18 مارچ کو عدالت میں پیش ہو رہا ہوں اور اس سے قبل مجھے حفاظتی ضمانت حاصل تھی لیکن پولیس نے غیرقانونی طریقے سے رہائش گاہ پر کارروائی کی۔پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے کہا کہ جب ہزاروں کی تعداد میں پولیس فورس میری گرفتاری کے لیے میری رہائش گاہ پر پہنچی تو میرے وکیل نے انہیں گارنٹی دی کہ میں عدالت میں پیش ہونے جارہا ہوں۔عمران خان نے کہا کہ میرے وکلا نے پولیس کو گارنٹی دی کہ میں عدالت میں پیش ہوں گا اور قانون کہتا ہے کہ اگر ایک بار میں نے پولیس کو گارنٹی دے دی تو پولیس کو گرفتار نہیں کرنا چاہیے لیکن اس کے باوجود پولیس نے تشدد، آنسوں گیس، واٹر کینن کا استعمال جاری رکھا اور کارکنان کو منتشر کرنے کے لیے فائرنگ بھی کی گئی جو کہ پاکستان میں کبھی نہیں ہوا۔میزبان کی طرف سے مقدمات کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر عمران خان نے کہا کہ میرے خلاف اس وقت 85 مقدمات درج ہیں جس میں ہر روز کسی نہ کسی کیس میں عدالتی پیشی ہوتی ہے۔توشہ خانہ کیس سے متعلق پوچھے گئے سوال پر عمران خان نے کہا کہ یہ تمام الزامات ہیں میں نے جو کیا وہ قانون کے مطابق کیا اور اس کیس میں متلعہ عدالت میں اس لیے پیش نہ ہوا کیونکہ وہاں دو بم حملوں کا خطرہ تھا جہاں کوئی سیکیورٹی نہیں ہے اور ججز سمیت وکلا بھی قتل ہوچکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم نے عدالت سے استدعا کی کہ کیس کو دوسری عدالت میں منتقل کیا جائے مگر ایسا نہیں کیا گیا اور وارنٹ گرفتار جاری کیے گئے لیکن حفاظتی ضمانت ہونے کے باوجود بھی پولیس رہائش گاہ پر آئی جس کا مقصد مجھے جیل میں رکھنا ہے۔عمران خان نے کہا کہ میرے کارکنان اور حامی پولیس سے اس لیے مزاحمت کر رہے تھے کیونکہ پاکستان میں زیرحراست ٹارچر کیا جاتا ہے اور میرے سینیٹر سمیت دیگر ساتھیوں کو اس کا نشانہ بنایا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ جیل میں رکھنے کا مقصد زیرحراست ٹارچر کرنا ہے جبکہ میں حال ہی میں ہونے والے حملے کے زخموں سے بحال ہوا ہوں اور وہی لوگ مجھے جیل میں رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔کارکنان کی طرف سے پتھرا اور لاٹھیاں اٹھانے سے متعلق سوال پر عمران خان نے کہا کہ یہ پہلی بار نہیں، اس سے قبل تین بار مجھے گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہر بار جب میرے کارکنان کو میری گرفتاری سے متعلق معلوم ہوتا ہے تو میری رہائش گاہ کے ارگرد اکٹھے ہوجاتے ہیں کیونکہ لوگوں کو پتا ہے کہ قاتلانہ حملہ ان لوگون کی طرف سے کیا گیا تھا۔عمران خان نے کہا کہ میں عوام میں جاکر لوگوں کو بتاتا رہا ہوں کہ مذہبی جنونی کے ذریعے مجھے قتل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور میری خوش قسمتی ہے کہ آج میں زندہ ہو،ان کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت واحد امید پاکستان کی عدلیہ ہے، اسکے علاوہ پاکستان میں جنگل کا قانون ہے، عدالت چاہے تو ویڈیو کانفرنس پر بھی سماعت ہوسکتی ہے۔