اسلام آباد (صباح نیوز)

وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات ڈاکٹرفردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ      وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اور وہ کراچی سے کہیں باہر دکھائی نہیں دے رہے تو ان کو عوام کے اندر نظر آنا چاہئے ، کراچی میں ہی بیٹھ کر صرف میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعہ بیانات داغنے اور توپوں کا رخ وزیر اعظم عمران خان کی طرف رکھنا یا پی ٹی آئی کی طرف رکھنا یہ نامناسب رویہ ہے،موجودہ حالات میں بلاول بھٹو زرداری کو خاص طور پر سندھ کے اندر ایک متحرک کردار ادا کرنا ہے  ،رمضان المبارک میں کورونا کا پھیلا ئوروکنے کیلئے صدر مملکت کا کردار قابل تحسین ہے۔نجی ٹی وی سے انٹرویو میں انہوں نے کہا  کہ وزیر اعظم عمران خان کوروناوائرس کے حوالہ سے کوئی اعدادوشمار دیتے ہیں تو وہ ان کا ذاتی اندازہ نہیں ہوتا بلکہ ایک ماہرین کی ٹیم بیٹھی ہوئی ہے جو زمینی حقائق ، اندازے اور ایک فارمولے کے مطابق ڈیٹا اکٹھا کرنے کے بعد اعدادوشمار پر متفق ہوتے ہیں اور وہ وزیر اعظم سے شیئر کرتے ہیں ور وزیر اعظم پھر وہ اعدادوشمار میڈیا سے شیئر کرتے ہیں جو اعدادوشمار پیش کئے جارہے ہیں وہ تخمینوں اور تجزیوں کی بنیاد پر پیش کئے جاتے ہیں وہ غلط بھی ہوسکتے ہیں اور غلط بھی ہو سکتے ہیں ، یہ معاملہ پوری دنیا میں چل رہا ہے اور کہیں بھی جینوئن اور حقیقی اعدادوشمار سامنے نہیں آتے۔ انہوں نے کہا  کہ نیشنل کوآرڈینیشن اور آپریشن سیل جو بنا ہوا ہے اس کے اندر گذشتہ روز بھی وزراء صحت کی آپس میں ویڈیو کانفرنس ہوئی ہے اور سب نے اپنا ، اپنا ڈیٹا شیئر کیا ہے اور سندھ بھی اسی ڈیٹا سے متفق ہے جو وفاقی حکومت ریفلیکٹ اور پروجیکٹ کر رہی ہے کیونکہ وہ صوبوں کی انفارمیشن کی بنیاد پر ہی وہ ڈیٹا بنتا ہے  تاہم اس میں زمینی حقائق، معاشی چیلنجز اور سماجی اسٹرلچر کی بنیاد پر کوئی فیصلہ علیحدہ ، علیحدہ ہو رہا ہے تو یہ  وزیر اعلیٰ کا صوابدیدی اختیار ہے، وزیر اعلیٰ سندھ کو صرف ایک بات پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ اس وقت عوام کی نظریں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو دیکھ رہی ہیں، ہماری پالیسیوں کو محور اور مرکز میڈیا کی سکرین نہیں ہونی چاہئے  کہ میڈیا کے اندر ہماری اچھی پروجیکشن کیسے ہو بلکہ یہ ہونی چاہئے  کہ عوام کی مشکلا ت   کا تدارک کیسے ہو۔  انہوں نے کہا کہ ہماری پالیسی ایسی ہونی چاہئے کہ ہم دونوں محاذوں پر اکٹھے لڑتے نظر آئیں ، ایک محاذ کوروناوائرس سے بچنے کا اور دوسرا محاذ بھوک ، غربت اور افلاس سے لوگوں کو نکال کر ان کی مشکلات کم کرنے کا ہے، ان ددنوں محاذوں پر مشتمل ہماری پالیسی سے عوام کو ریلیف مل سکتا ہے، باقی نوری نت اور مولاجٹ کی فلمیں اور بڑھکیں ہٹ ہوتی رہی ہیں اس وقت ان بڑھکوں کا وقت نہیں ہے۔ نوری نت اور مولاجٹ کی بڑھکوں کا وقت نہیں ہے ۔انہوں نے کہا کہ ایک نیشنل پالیسی اورقومی بیانیہ اور پھر قومی حکمت عملی اس کو وزیر اعظم لیڈ کررہے ہیں جس میں اتفاق رائے ہے اوراس میں کوئی دورائے نہیں ہے اور یک نکاتی ایجنڈا ہے کہ ہم نے مل کر مفاہمت سے اس وبا کا مقابلہ کرنا ہے اور عوام کو ریلیف دینا ہے۔انہوں نے کہا کہ جب آپ حالت جنگ میں ہوتے ہیں اور  کرائسس کو مینج کررہے ہوتے ہیں تو آئیڈیل صورتحال نہیں ہوتی ، وہاں گیپس ہوتے ہیں وہ چاہے وفاقی حکومت ہو یا صوبائی حکومت ہو لیکن خاص طور پرسندھ کے اندر وزیر اعلیٰ سندھ سے ہم توقع کرتے ہیں کہ جو اس وقت مفاہمت اور مصالحت ہے اس کو بھی یقینی بنائیں اور اس کے ساتھ، ساتھ عوام کو ایک گڈ بوائے اور ایک بیڈ بوائے کی پالیسی ہے اس سے بھی باہر نکلیں۔ انہوں نے کہا  کہ اس وقت وزیر اعظم کا مقصد کسی سیاسی مخالف کو نشانہ بنانا نہیں ہے ۔موجودہ حالات میں بلاول بھٹو زرداری کو خاص طور پر سندھ کے اندر ایک متحرک کردار ادا کرنا ہے اور   انہوں نے اپنے آپ کو سیلف کورنٹائن کیا ہو اہے اور وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اور وہ کراچی سے کہیں باہر دکھائی نہیں دے رہے تو ان کو عوام کے اندر نظر آنا چاہئے اور یہ تاثر جانا چاہئے کہ اندرون سندھ بسنے والے شہری کا بھی حق ہے کہ اس کی قیادت اس تک جائے اور اس کے دکھوں کا مداوا کرے ، ا س کے مسائل کی نشاندہی کے بعد کوئی حل نکالے، کراچی میں ہی بیٹھ کر صرف میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعہ بیانات داغنے اور توپوں کا رخ وزیر اعظم عمران خان کی طرف رکھنا یا پی ٹی آئی کی طرف رکھنا یہ نامناسب رویہ ہے، ان حالات میں ہم سب کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے  کہا  کہ ہمارے امام، خطیب اور علماء حضرات اوپینین میکرز ہیں اور سب سے زیادہ مضبوط آواز جس کی لوکل کمیونٹی میں ہوتی ہے وہ یہی طبقہ ہے اور مذہبی رہنما کسی بھی معاشرے کی تعمیر وترقی میں  اور اس کے خدوخال کو بہتر بنانے میں ہراول دستے کا کردار ادا کرتے ہیں  اور گذشتہ روز صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے ساتھ علماء کی مشاورت کے بعد جواعلامیہ جاری کیا گیا ہے اس میں علماء کا کلیدی کردار رکھا گیا ہے اور اس کردار کی واضح تعریف کر کے حکومت نے ان کے ساتھ ایک شراکت داری قائم کی ہے۔ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ نماز تراویخ آپ نے گھروں میں پڑھنی ہے اور سحری اور افطاری بھی گھروں میں کرنی ہے ۔جو حفاظتی اقدامات فیکٹریوں کو کھولنے کے حوالہ سے صحت اور  حفاظت کے   اقدامات تجویز کئے گئے ہیں  وہی اقدامات مساجد میں نافذ کئے جائیں گے ۔ دوسری جانب  وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے   اپنے ٹویٹ میں کہا کہ اس وبا کا احتیاط ہی سب سے موثر علاج ہے،کورونا کے خلاف جنگ اور قومی کاوشوں کو تقویت دینے میں علمائے کرام کا کردار نہایت اہم اور کلیدی ہے۔  انہوں  نے کہا کہ مساجد کے منبر و محراب سے آنے والی آواز کا عوام خصوصی احترام کرتے اور نہایت توجہ سے سنتے ہیں، علمائے کرام شرعی احکامات کی پاسداری اور فرائض بجا لاتے ہوئے عوام کو احتیاطی تدابیرکے ضمن میں بھی رہنمائی فرمائیں،وائرس سے بچائو کیلئے احتیاطی تدابیر، حفاظتی ضابطہ کی پابندی اور نظم و ضبط کی تلقین اشد ضروری ہے رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں گھروں میں رہ کر عبادات فرمائیں۔صدر مملکت کا علما سے مشاورت کے بعد متفقہ اعلامیہ نہایت خوش آئند ہے۔رمضان المبارک میں کرونا وائرس کے پھیلا ئوکو روکنے کیلئے صدر مملکت کا قائدانہ کردار قابل تحسین ہے۔ اس وبا کا احتیاط ہی سب سے موثر علاج ہے۔  انہوں نے کہا کہ ماہ صیام کی رحمتوں سے ہر گھر منور ہوگا، رہنما اصولوں پر عمل کرتے ہوئے ہر مسلمان گھر میں رہتے ہوئے اللہ تعالی کی برکات و عنایات سمیٹے گا۔