کراچی(صباح نیوز)
سندھ کے وزیر اطلاعات و بلدیات، ہاؤسنگ و ٹاؤن پلاننگ، مذہبی امور، جنگلات و جنگلی حیات سید ناصر حسین شاہ نے کہا ہے کہ سندھ حکومت کرونا وائرس کے مسئلے کو لے کر پہلے دن سے ہی انتہائی سنجیدہ ہے اور پیپلز پارٹی کا کوئی بھی لیڈر کرونا وائرس کی وبا کے مسئلہ کو لے کر پوائنٹ سکورنگ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا. صوبائی وزیر اطلاعات نے کہا کہ چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کی بھی سندھ کے وزیر اعلی سید مراد علی شاہ سمیت سندھ کی پوری کابینہ کے لیے یہ واضح ہدایت شروع دن سے ہی تھیں کہ کرونا وائرس کے مسئلے کو سیاسی نہ بنایا جاے۔ انہوں نے کہا کہ ہم یہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ ایک وبا اور انسانی جانوں کے مسئلہ پر سیاست کریں.
سید ناصر حسین شاہ نے کہا کہ چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے وزیراعظم عمران خان کو بھی پہلے دن کہہ دیا تھا کہ ہم اس عالمی وبا کے مسئلے پر آپ کے ساتھ ہیں اور آپ کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتے ہیں صوبائی وزیر اطلاعات نے کہا کہ جب یہ کرونا وائرس کا مسئلہ صوبے اور ملک بھر میں اٹھا تو ہم نے اسی دن سے ہی پوائنٹ سکورنگ اور سیاست کو قر نطینہ میں ڈال دیا تھا اور آج دن تک یہ قرنطینہ میں ہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان سمیت تمام صوبائی وزرائ  اس بات کا خاص خیال رکھتے ہیں کہ وہ کوئی بھی ایسا بیان نہ دیں جس سے کوئی تنازعہ جنم لے۔ سید ناصر حسین شاہ نے کہا کہ اگر وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ کے کہنے پر 26 فروری کو ہی جیسے انھوں نے کہا تھا کہ ہمیں اس مسئلے پر سنجیدگی اختیار کرنی چاہیے اگر اس وقت سب لوگ سنجیدہ ہوگئے ہوتے تو آج صورتحال مختلف ہوتی۔ صوبائی وزیر اطلاعات نے کہا کہ ہم اپنے لوگوں کو اندھیرے میں نہیں رکھنا چاہتے. انہوں نے کہا کہ اس وقت کسی کو بھی کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے صحیح حجم کا اندازہ نہیں ہے لیکن سب آکر اس پر باتیں کر رہے ہیں۔
سید ناصر حسین شاہ نے کہا کہ اگر وزیراعظم عمران خان کی بات مان لی جائے کہ سب کچھ ٹھیک ہے تو پھر یہ لوک ڈاون کیوں کیا گیا ہے، ریلوے اور فضائی آپریشن کیوں معطل  ہے۔کیا یہ سب وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ کے حکم پر بند ہوا ہے؟ سید ناصر حسین شاہ نے مزید کہا کہ کیا دیگر صوبوں میں جو لوک ڈاون کیا گیا ہے وہ بھی سندھ حکومت کے کہنے پر کیا گیا ہے۔ صوبائی وزیر اطلاعات نے کہا کہ ہمارے خیال میں حالات اس وقت بالکل ٹھیک نہیں ہے اور وزیراعظم عمران خان کو صحیح اعداد و شمار نہیں بتائے جا رے اسی لئے اس میں ان کا قصور نہیں ہے. انہوں نے کہا کہ جب ایک جانب سے مسلسل یہ کہا جائے گا کہ لوک ڈاون کی وجہ سے لوگ بھوک سے مر جائیں گے لوگ مختلف مسائل کا شکار ہو جائیں گے تو کس طرح پھر سندھ حکومت ایک موثر لوگ ڈون کروانے میں کامیاب ہوسکے گی۔ سید ناصر حسین شاہ نے کہا کہ لاک ڈاون کو لے کے وفاقی حکومت کی جانب سے دیئے جانے والے بیانات کے بعد سندھ کے لوگ ہماری ذہنی حالت پر شک کر رہے ہیں کہ جب وفاقی حکومت کہتی ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہے تو سندھ حکومت کو کیا پڑی ہے کہ وہ مسلسل لاک ڈاون کے لیے اصرار کر رہی ہے۔ صوبائی وزیر اطلاعات نے کہا کہ سندھ میں اب کاروباری حضرات کو سندھ حکومت کی جانب سے بنائے گئے ضابطہ کار پر عمل کرکے ہی کاروبار کرنے کی اجازت دی جائے گی اس کے علاوہ انہیں اجازت نہیں ہوگی کہ وہ اپنا کاروبار کریں. انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت کو صوبے کے کاروباری طبقے کا بے حد خیال ہے اور اسی سلسلے میں انہیں ایس آربی اور ایکسائز کے ٹیکس کی مد میں بھی چھوٹ دی جا رہی ہے۔ صوبائی وزیر نے کہا کہ ضابطہ کار طے ہونے کے بعد کاروبار کو بتدریج کھولا جائے گا. سید ناصر حسین شاہ نے کہا کہ اگرچہ سو فیصد تو نہیں لیکن سندھ حکومت نے حکومت کی سطح پر بھی اور ہمارے لوگوں نے انفرادی سطح پر بھی اور فلاحی اداروں کی مدد سے بھی لاکھوں گھرانوں کو راشن پہنچایا ہے اور اب تک یہ عمل جاری ہے. صوبائی وزیر اطلاعات نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے بھی اپنے اپنے حلقوں میں راشن پہنچایا ہے. احساس پروگرام کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں وفاقی حکومت کو چاہیے کہ وہ زیادہ مراکز بناے تاکہ ایک جگہ لوگوں کی بھیڑ نہ جمع ہو کیونکہ جہاں زیادہ لوگ جمع ہوں گے وہاں پہ ان کا کرونا وائرس سے متاثر ہونے کا چانس بڑھ جاتا ہے۔ سید ناصر حسین شاہ نے کہا کہ اللہ کا شکر ہے صوبے میں بھوک کی وجہ سے ابھی تک کسی کی وجہ سے ابھی تک کسی کی جان نہیں گئی ہاں احساس پروگرام کے حوالے سے جب لوگ کیش لینے کے لیے جمع ہوئے تو اس میں ایک خاتون کی جان چلی گئی تھی اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ  پیسے اس طرح کی تقسیم کیے جائیں کہ بھیڑ نہ لگے۔ سید ناصر حسین شاہ نے کہا کہ ملکی معاملات پر سب کو مل کر فیصلے کرنے چاہییں تبھی وہ زیادہ اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ صوبائی وزیر نے کہا کہ سندھ حکومت نے جو بھی اب تک صوبے میں کیا ہے وہ اپنے بل بوتے پہ کیا ہے لیکن ہم وفاقی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتے ہیں۔