اسلام آباد(صباح نیوز)
معاون خصوصی شہزاد اکبر نے کہا کہ چینی انکوائری کی رپورٹ بہت جامع ہے ، گنے کی خریداری سے آخری مرحلے تک معاملات کو مرحلہ وار لکھا گیا ہے۔ چینی کی قیمتوں میں ردوبدل کا نقصان عام آدمی اٹھاتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ گزشتہ 5 سال میں 29 ارب روپے چینی کی سبسڈی کی مد میں دئیے گئے ۔ شاہد خاقان عباسی نے اپنے دور میں 20 ارب روپے کی سبسڈی دی ہماری وفاقی حکومت نے چینی پر کوئی سبسڈی نہیں دی ۔ کمیشن کی رپورٹ کی روشنی میں چینی پر ماضی کی حکومتوں اور موجودہ حکومت کی جانب سے دی گئی سبسڈی پر مقدمات بنیں گے۔ اسلام آباد میں میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ کمیشن نے لکھا ہے کہ ن لیگ نے 20ارب روپے کی سبسڈی ریوڑیوں کی طرح بانٹ دی مگر کوئی ایسا جواب نہ دے سکے کہ یہ کس طرح دی گئی ۔ کمیشن نے اپنی رپورٹ میں شواہد لگائے ہیں2017-18 میں 140 روپے سے اوپر کسی نے گنا نہیں خریدا تھا کمیشن نے قرار دیا ہے کہ اگر انہوں نے پیداواری لاگت صحیح اکائونٹ کرتے تو ان کو سبسڈی دینے کی ضرورت نہیں تھی۔جب چینی کی عالمی قیمت زیادہ تھی تو اگر اس وقت برآمد کی اجازت دیتے تو سبسڈی دینے کے بجائے زیادہ زرمبادلہ پاکستان میں آ سکتا تھا۔ شہزاد اکبر نے کہاکہ عوام کے ساتھ صرف20 ارب روپے والا ہی ہاتھ نہیں ہوا بلکہ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے 5لاکھ میٹرک ٹن چینی برآمد کرنے کیلئے 4.42 ارب روپے کی سبسڈی دی جو اسٹیٹ بینک کے ذریعے گزاری نہیں گئی بلکہ سندھ بنک کے ذریعے رقم دے دی گئی تاکہ جتنے فراڈ کرسکتے ہیں کرلیں ۔ یہ سبسڈی سب سے زیادہ اومنی گروپ کو دی گئی ۔ پہلے ہی شوگر کمیشن واضح کرچکا کہ یہ 14 روپے فی کلو کاسٹ زیادہ بتاتے ہیں۔ اس کاسٹ پر 10.70 روپے فی کلو کے حساب سے سبسڈی دی گئی ۔ کسان بھی اس سبسڈی کے حق میں نہیں تھے وہ کہتے ہیں کہ یہ گنے کی قیمت تو پوری دیتے نہیں رپورٹ میں بھی کہا گیا ہے کہ اومنی گروپ کو سب سے زیادہ سبسڈی دی گئی ۔ اس سبسڈی کے پیچھے سب سے بڑا سہولت کار سلمان شہباز تھا۔ یہ واضح ہوگیا ہے کہ ٹیکس کا 25 ارب روپیہ سبسڈی کی مد میں بانٹ دیا گیا کمیشن کی رپورٹ کے مطابق 140 روپے فی من گنا خریدا اگر سب کو سامنے رکھا جائے انہوں نے ایک سال میں 300 ارب روپے کا منافع کمایا یہ سارا پیسہ عوام کی جیب سے نکلا ہے۔شاہد خاقان عباسی کی اس بات پر یقین نہیں آتا کہ وہ سلمان شہباز سے زندگی میں صرف دو تین دفعہ ملے ہیں دراصل سلمان شہباز ہی بڑے سہولت کار ہیں جس سال چینی کی عالمی قیمت فی ٹن 100 ڈالر سے زیادہ تھی اس سال 25 ارب کی سبسڈی دی گئی اس سے بڑا ہمارے ساتھ اور کیا مذاق ہونا تھا جن ملکوں کا آڈٹ کیا گیا اس میں العربیہ مل کا آڈٹ شامل ہے جو آج بھی چل رہی ہے اس میں 25 فیصد سلمان شہباز25 فصد حمزہ شہباز اور باقی رمضان شوگر مل کی شیئر ہولڈنگ ہے میں سمجھتا ہوں کہ باقی شوگر ملوں کا بھی اڈٹ کرنا ضروری ہے جس نے بھی اس سے فائدہ اٹھایا ہے وہ خواہ ہماری ہی پارٹی کا ہو سب کیخلاف کارروائی ہوگی ۔سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اپوزیشن نے اس رپورٹ کو مسترد کردیا ہے جو ایک بہت بڑی سند ہے ۔ میڈیا کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے شہزاد اکبر نے کہاکہ ہماری کمیشن کی سفارشات میں سیکشن 250 کو دوبارہ سے بحال کرنے کی سفارش ہے ۔ ہماری انڈسٹریز اور فنانس کے ساتھ ملاقاتیں ہورہی اور دیکھ رہے ہیں کہ کیا کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ 15 اور 20 ٹن کے لوڈ اٹھانے والے ٹرک میں 70 سے 80 ٹن لوڈ جاتا رہا ہے کسی نے اس پر کوئی کام نہیں کیا ۔ رپورٹ میں بڑے بڑے فراڈ سامنے آئے ہیں۔ کمیشن نے ان افسران کا نام ظاہر کردیا ہے جنہوں نے اس فراڈ کو نظر انداز کیا ہے ان کیخلاف کارروائی بھی سفارشات میں شامل ہوگی۔جے ڈی ڈبلیو سب سے بڑا گروپ ہے جو پاکستان کی شوگر کا 20 فیصد پیدا کرتا ہے اس نے جو برآمدات کی ہے وہ 2سے 3 فیصد سے زیادہ نہیں ہے بعض ملیں ایسی ہیں جو اپنی تمام چینی برآمد کرتی ہیں۔