اسلام آباد(صباح نیوز)
وزیر اعظم عمران خان نے شوگر کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں چینی اسکینڈل میں ملوث افراد کے خلاف سفارشات اور سزا کو منظور کرتے ہوئے کارروائی کی ہدایت کردی ہے ، شوگر کے شعبے میں بڑے بڑے طاقتور لوگ بیٹھے ہیں ،29 ارب کی سبسڈی کا معاملہ نیب کے حوالے کردیا گیا تمام سبسڈیز پر ریفرنس بھیجا جائے گا، شوگر صنعت میں سیاسی اثرورسوخ کے حامل اہم کھلاڑی بے ضابطگی سے مافیا کے انداز میں کام کرتے ہیں، چینی بحران کے زمہ داران کے خلاف ایکشن پلان کی منظوری دے دی گئی ہے۔ سندھ حکومت کی سبسڈی کے تمام معاملات بھی نیب کو بھیجے جا رہا ہے ، 90 کی دہائی میں ایک بڑے خاندان نے بھارت کو چینی دی تھی۔ ایف بی آر نوے روز میں ریکوری رپورٹ حکومت کو جمع کرائے۔چاہے کوئی شخص کتنا ہی طاقتور ہو یا اس کا کسی بھی سیاسی جماعت سے تعلق ہو، اسے جواب دینا ہوگا فوجداری مقدمات بھی قائم ہونگے، زمہ داران ضرور جیل جائیں گے سہولت کاربھی شکنجے میں آئیں گے سزا کے ساتھ ساتھ وصولی کا عمل بھی شامل ہے۔اتوارکو وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات سینیٹر شبلی فراز نے معاون خصوص برائے احتساب شہزاد اکبر کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کہ تحریک انصاف نے اپنے انتخابی منشور میں بھی یہ فیصلہ کیا ہوا تھا کہ جب ہم اقتدار میں آئیں گے تو ہم تمام ان لوگوں کا احتساب کریں گے جنہوں نے اس ملک کے عوام کو ، اس ملک کے اداروں کو اور اس ملک کے مستقبل کو دا پر لگایا ہے۔ شبلی فراز نے کہا کہ جب چینی کا بحران آیا تو وزیر اعظم عمران خان نے فورا ایک تحقیقاتی کمیشن بنایا، روایت تو ہمیشہ یہی رہی ہے کہ فورا انکوائری کمیشن بن جاتا ہے لیکن اس کی سفارشات پر کوئی عمل نہیں کیا جاتا اور وقت کے ساتھ لوگ اسے بھول جاتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم اس بارے میں بہت سنجیدہ تھے لہذا انہوں اس کمیشن کی رپورٹ کو بھی پبلک کیا، کئی لوگوں کا خیال تھا کہ اسے عوام کے سامنے نہیں لایا جائے گا، اس کے بعد فارنزک آڈٹ ہوا اور اس پر بھی لوگوں کے شکوک تھے کہ بات شاید اس سے آگے نہیں بڑھے گی کیونکہ شوگر کے شعبے میں بڑے بڑے طاقتور لوگ بیٹھے ہوئے ہیں لیکن ناصرف مقررہ وقت پر فارنزک آڈٹ ہوا بلکہ اس کی تفصیلات بھی عوام کو بتائی گئیں۔شبلی فراز نے کہا کہ کئی لوگوں کا خیال تھا کہ معاملہ یہیں رفع دفع ہو جائے گا لیکن ہمارا احتساب اور اس ملک کو آگے لے جانے کا عزم اور عوام کے مفادات کا تحفظ ہماری اولین ترجیح ہے۔اس موقع پر معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا کہ یہ رپورٹ گزشتہ پانچ سال کی سرگرمیوں کا احاطہ کرتی ہے اور یہ بتاتی ہے کہ شوگر کی صنعت میں اہم کھلاڑی اور افراد بے ضابطگی سے مافیا کے انداز میں کام کرتے ہیں اور سیاسی اثرورسوخ کے حامل ہے۔ان کا کہنا تھا کہ شوگر انڈسٹری کے لوگ من چاہی زیادتیاں کر رہے تھے، یہ مافیا کی طرح کام کر رہے تھے اور اس میں موجود تمام ہی اہم اور بڑے افراد کسی نہ کسی طرح کسی سیاسی جماعت سے تعلق رکھتے تھے جس کی وجہ سے فیصلہ سازی بالواسطہ یا بلاواسطہ اثرانداز ہورہے تھے اور اس کا نتیجہ غریب عوام کی جیب سے پیسہ نکالنا تھا چاہے وہ قیمت بڑھا کر ہو، ٹیکس چوری سے ہو یا سبسڈی لے کر اپنی تجوریاں بھرنا تھا۔انہوں نے بتایا کہ وزیر اعظم عمران خان صاحب کے دور میں جب چینی کی قیمتں بڑھیں تو انہوں نے پاکستانی عوام سے وعدہ کیا کہ میں اس معاملے کی تحقیق کراں گا، اس معاملے کو منظر عام پر بھی لاں گا اور اس میں ملوث افراد کے خلاف ایکشن لیا جائے گا چاہے ان کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے کیوں نہ ہو۔شہزاد اکبر نے بتایا کہ وزیر اعظم صاحب کا فیصلہ ہے کہ چاہے کوئی شخص کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو، اس کا کسی بھی سیاسی جماعت سے تعلق ہو، وہ مالی طور پر یا باقی کسی طریقے سے کتنا ہی زورآور کیوں نہ ہو، اسے جواب دہی کرنی پڑے، یہی پاکستان تحریک انصاف کا منشور ہے اور یہی وہ مینڈیٹ ہے جو پاکستان کے عوام نے انہیں دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس کمیشن اور وفاقی کابینہ کی ہدایات کی روشنی میں اپنی سفارشات میں نے وزیر اعظم کو جمع کرائی جس پر آج سینئر قیادت کے ساتھ بنی گالا میں تفصیلی اجلاس ہوا جس میں وزیراعظم نے سفارشات کی منظوری دے دی ہے۔انہوں نے کہا کہ جو عمل کیا جائے گا اس کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے جس میں پہلا حصہ پینل ایکشن ہے یعنی ان لوگوں کے خلاف ایکشن لیا جائے گا جنہوں نے پاکستان کے قوانین کی خلاف ورزی کی اور کسی بھی پینل ایکشن کی ضمن میں آتے ہیں جس میں سزا کے ساتھ ساتھ وصولی کا عمل بھی شامل ہے۔ان کا کہنا تھا کہ دوسرے حصے کے تحت انضباطی فریم ورک میں جو تبدیلیاں شامل ہیں جس میں انڈسٹری اور کمیشن کی رپورٹ کو یکجا کیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ تیسرا اور سب سے اہم حصہ یہ ہے کہ شوگر کی قیمتوں کو لے کر کیا لائحہ عمل اختیار کیا جائے کہ قیمتیں اس معیار پر واپس آ جائیں جو چینی کی پیداواری قیمت ہے، پہلی مرتبہ کمیشن نے چینی کی قیمت معلوم کی ہے کیونکہ اس سے پہلے شوگر مل ایسوسی ایشن والے ہی بتاتے تھے کہ چینی کتنے میں بتاتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ان سفارشات کو وزیر اعظم نے منظور کر لیا ہے۔