بھارت کشمیری مسلمانوں کے خلاف مسلسل مظالم جاری رکھے ہوئے ہے ،ہیومن رائٹس واچ

بھارتی حکام کو سیاسی قیدیوں کو رہا کرکے حقوق کے تحفظ کے لئے فوری اقدامات کرنے چاہیے

آزادی اظہار رائے کے حق کو برقرار رکھنا، انٹرنیٹ کو مکمل بحال کرنا اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ذمہ داروں سے جواب طلب کرنا چاہیے

انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم کا مطالبہ

نیویارک (ویب ڈیسک  )نیویارک میں قائم انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ بھارتی قابض انتظامیہ نے گزشتہ سال 5اگست کو بھارت کے زیر تسلط مقبوضہ جموںوکشمیرکی آئینی حیثیت کی منسوخی کے ایک سال بعد بھی مقبوضہ علاقے کے مسلم اکثریتی علاقوں میں مسلسل سخت اور امتیازی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ نے ، نیویارک میں جاری ایک بیان میں کہاکہ کورونا وائرس کی وبا کے پیش نظر مقبوضہ علاقے میں اظہار رائے کی آزادی ، معلومات تک رسائی ، صحت اورتعلیم کی سہولتوںتک رسائی کے بنیادی حقوق  پر غیرضروری پابندیاں سخت کردی گئی ہیں۔  گزشتہ سال 3 اگست کوانسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم نے کہاتھا کہ بھارتی حکام نے نقل و حرکت کی آزادی ، عوامی جلسوں کے انعقاداور ٹیلی مواصلات کی خدمات پر بڑے پیمانے پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیںاور تعلیمی اداروں کو بند کردیا گیا ہے جبکہ ہزاروں افراد کو گرفتار کرلیاگیا ہے اور انٹرنیٹ سروس معطل ہے ۔ ہیومن رائٹس واچ کی جنوبی ایشیا کی ڈائریکٹر میناکشی گنگولی نے کہا کہ بھارتی حکومت نے دعوی کیا ہے کہ وہ کشمیریوںکی زندگیوںکو بہتر بنانے کیلئے پر عزم ہے جو کہ  جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت کی منسوخی کے ایک سال بعد کھوکھلا ثابت ہوا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس کے بجائے قابض حکام نے جموںوکشمیر میںکشمیریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سخت پابندیاں عائد کر رکھی ہیں ۔احتجاجی مظاہروں کو روکنے کیلئے ہزاروں افرادکو گرفتارکرلیاگیا جن میں تین سابق وزرائے اعلی کے علاوہ ممتاز سیاسی رہنما بھی شامل تھے۔ پولیس نے عدالتوں کو بتایا کہ 144 بچوں کو بھی حراست میں لیاگیا ہے ۔  ہیومن رائٹس واچ نے حالیہ گرفتاریوں اور تشدد کے واقعات اور بھارتی فورسز کی طرف سے کشمیریوں کے ساتھ روا رکھے جانیوالے غیر انسانی سلوک کا بھی ذکر کیا ۔ رپورٹ کے مطابق بھارتی حکومت تنقید کرنے والوں کے خلاف انسداد دہشت گردی اور بغاوت کے سخت قوانین کا استعمال بھی کر رہی ہے۔ رواں سال29 جون کو قابض انتظامیہ نے کشمیری تاجر مبین شاہ کی طرف سے جموںوکشمیر کی مسلم اکثریتی شناخت کو تبدیل کرنے پر تنقید کے بعد ان پر غداری کا مقدمہ قائم کر دیا  اپریل میں ، پولیس نے دو کشمیری صحافیوں گوہر گیلانی اور پیرزادہ عاشق اورایک فوٹو جرنلسٹ مسرت زہرہ کے خلاف ضابطہ فوجداری کے تحت تحقیقات کا آغاز کیا ، جس میں یہ دعوی کیا گیاتھا کہ ان کی سوشل میڈیا پرپوسٹس یا رپورٹنگ ملک کے خلاف ہیں۔31جولائی کو ایڈیٹر قاضی شبلی کو پوچھ گچھ کیلئے طلب کرنے  بعد پولیس نے حراست میں لیا گیا۔انہیں گزشتہ سال کالے قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت نوماہ تک نظربند رکھا گیا تھا۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی  تنظیم نے جموں و کشمیر کے لئے بھارت کی نئی میڈیا پالیسی کا بھی ذکر کیا ہے جس کے تحت قابض انتظامیہ کو یہ فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل ہے کہ کون سی خبر جعلی ، سرقہ اور غیر اخلاقی یا ملک دشمن ہے ۔ انتظامیہ کو ذرائع ابلاغ ، صحافیوں اور ایڈیٹرز کے خلاف کارروائی کا اختیار بھی حاصل ہے ۔انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم کا کہنا ہے کہ کریک ڈاون نے خاص طور پر سیاحت پر انحصار کرنے والی وادی کشمیر میں معیشت کو بری طرح متاثر کیا۔ کشمیر ایوان صنعت وتجارت نے اندازہ لگایا ہے کہ اگست 2019 کے بعد احتجاج کو روکنے کے لئے نافذ کئے گئے تین ماہ طویل لاک ڈائون  سے معیشت کو دو ارب چالیس کروڑ امریکی ڈالر کا نقصان ہواجس کے لئے ابھی تک کوئی معاوضہ نہیں دیاگیا۔ جبکہ مارچ میں حکومت کی طرف سے کوروناوائرس کے نام پر عائد کی گئی مزید پابندیوں سے نقصانات دوگنا ہوگئے ہیں۔عالمی وبا نے معلومات ، مواصلات ، تعلیم اور کاروبار کے لئے  انٹرنیٹ تک رسائی کو انتہائی اہم بنا دیا ہے۔   ہیومن رائٹس واچ نے کہا تاہم حکام نے بمشکل ہی انٹرنیٹ تک رسائی کو بنیادی حق سمجھتے ہوئے جنوری میں سپریم کورٹ کے احکامات کی تعمیل کی اور صرف سست رفتار 2 جی موبائل انٹرنیٹ سروس کی اجازت دی۔ڈاکٹروں نے شکایت کی ہے کہ انٹرنیٹ کی کمی کی وجہ سے کورونا وائرس سے نمٹنے کے عمل کو نقصان پہنچا ہے۔ ایک ڈاکٹر نے کہاکہ یہ ایک نیا وائرس ہے۔ تحقیق ، مطالعہ ، رہنما ئی اور اپ ڈیٹ ہر دوسرے دن بدل رہے ہیں۔انٹرنیٹ دنیا بھرمیں ہونے والی پیشرفتوں پرنظر رکھنے میں ڈاکٹروں کی مدد کرتا ہے لیکن ہم تیز رفتار انٹرنیٹ کی عدم موجودگی میں ویڈیو لیکچرز یا دیگر معلومات تک رسائی حاصل نہیں کرسکتے ہیں۔مناسب انٹرنیٹ کے بغیر طلبا اکثر آن لائن کلاسز میں شرکت سے قاصر رہتے ہیں۔ تعلیم پر اس کا اثر خاص طور پر شدید رہا ہے۔   نیٹ ورکس کو ٹوجی تک محدود رکھنے سے آن لائن کلاسزکا مناسب طریقے سے کام کرنا ناممکن ہوگیا ہے۔ گریجوٹ طلبا اور اساتذہ کانفرنسوں میں حصہ لینے یا اپنے مضامین شائع کرنے سے قاصر ہیں جس سے ان کے کیریئر کو نقصان پہنچا ہے اور تعلیم کے حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق مشیل بیچلیٹ نے بار بار جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔  ہیومن رائٹس واچ نے کہا بھارتی حکام کو سیاسی قیدیوں کو رہا کرکے حقوق کے تحفظ کے لئے فوری اقدامات کرنے چاہیے۔ صحافیوں اور کارکنوں کے خلاف مقدمات واپس لینے سمیت آزادی اظہار رائے کے حق کو برقرار رکھنا، انٹرنیٹ کو مکمل بحال کرنا اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ذمہ داروں سے جواب طلب کرنا چاہیے۔گنگولی نے کہا کہ جب عالمی وبا دنیا کو امتیازی سلوک اور عدم مساوات پر قابو پانے پر مجبور کررہا ہے، بھارتی حکومت کشمیری مسلمانوں پر مسلسل مظالم ڈھا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو اپنی مکروہ پالیسیوں کو تبدیل کرنا چاہئے اور ان لوگوں کا مداواکرنا چاہئے جن کے حقوق پامال ہوئے ہیں۔

#/S