کشمیری صحافی فہد شاہ سمیت صحافیوں ، کارکنوں اور نقادوں کو رہا کیا جائے ہراساں کرنے کا سلسلہ ترک کیا جائے میناکشی گنگولی کا مطالبہ

نیویارک (ویب ڈیسک)

امریکہ میں قائم انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ بھارت کے زیر انتظام جموں وکشمیرمیں تین سال کے دوران 35صحافیوں کو پیشہ وارانہ فرائض کی ادائیگی پر تفتیش ، چھاپوں، دھمکیوں ، جسمانی تشدد اور جھوٹے اور من گھڑت مجرمانہ مقدمات اور قید وبند کاسامنا کرنا پڑا ہے۔بھارتی حکومت نے جموں و کشمیر کے 22صحافیوں سمیت 40سے زائد افراد کوبیرون ملک جانے سے روکنے کیلئے امیگریشن حکام کو دی جانیوالی فہرست میں شامل کردیا  ہے۔کے پی آئی کے مطابق  ہیومن رائٹس واچ نے کشمیری صحافی فہد شاہ سمیت صحافیوں ، کارکنوں اور نقادوں کو رہاکرنے اور کالے قوانین سے انہیں ہراساں کرنے کا سلسلہ ترک کرنے کامطالبہ کیا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ نے منگل کے روز ایک بیان میں کہاہے کہ بھارت کے زیر انتظام جموں وکشمیرمیں بھارتی قابض انتظامیہ نے ممتاز کشمیری صحافی فہد شاہ کو ذرائع ابلاغ اور سول سوسائٹی کے گروپوں کے خلاف جاری کریک ڈان کے دوران سیاسی مقاصد کے الزامات کے تحت گرفتار کر لیا ہے۔سرینگر کی ایک معروف نیوز پورٹل کشمیر والا کے ایڈیٹر ان چیف فہدشاہ کو رواں ماہ کی چار تاریخ کو گرفتار کیا گیا تھا اور ان پر جنوری میں پلوامہ میں بھارتی فوجیوں کی ایک کارروائی جس میں چار کشمیری شہید ہو گئے تھے کی رپورٹ جاری کرنے پر بغاوت اور دہشت گردی کے الزامات کے تحت مقدمہ دائر کیاگیا تھا ۔ فوجیوں کے مطابق ہلاک ہونے والے عسکریت پسندتھے ۔ بھارتی فورسز کے مطابق فہد شاہ نے سوشل میڈیا پر عسکریت پسندانہ سرگرمیوں کواجاگر کرنے کیلئے جعلی خبریں پھیلانے اور لوگوں کو اکسانے کیلئے "ملک دشمن مواد پوسٹ کیاہے۔بیان کے مطابق بھارتی پولیس نے فہدشاہ سے حالیہ برسوں میں متعدد بار تفتیش کی اور گرفتار کیا۔ہیومن رائٹس واچ کی جنوبی ایشیا کی ڈائریکٹر میناکشی گنگولی نے کہاہے کہ فہد شاہ کی گرفتاری بھارتی حکومت کی جانب سے صحافیوں کو اپنے پیشہ وارانہ فرائض کی ادائیگی سے روکنے کیلئے خوفزدہ کرنے کی تازہ ترین کوشش ہے ۔ انہوں نے کہاکہ بھارتی حکومت مقبوضہ کشمیر میں اپنی فورسز کی طرف سے جاری انسانی حقو ق کی پامالیوں پر متاثرین کو انصاف کی فراہمی یقینی بنانے کی بجائے ان پامالیوںکو منظر عام پر لانے والوںکو خاموش کرارہی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ فہد شاہ کو ایک ایسے وقت میں گرفتارکیاگیا ہے جب مقبوضہ کشمیرمیں صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو ہراساں اور خوفزدہ اور دھمکیاں دینا اور ان کیخلاف مقدمات کا انداراج روز کا معمول بن چکا ہے ۔انہوں نے کہاکہ بھارتی حکومت نے اگست 2019میں جموں وکشمیر کی خصوصی خود مختار حیثیت کو منسوخ اور اسے دو وفاق کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کرنے کے بعدصحافیوں اور سول سوسائٹی کے گروپوں کے خلاف اپنی کارروائیاں تیز کر دی ہیں۔مینا کشی گنگولی نے کہاکہ رواں سال جنوری میں بھارتی پولیس نے نیوز پورٹل کشمیر والا سے تعلق رکھنے والے ایک اور صحافی سجاد گل کوبھارت مخالف احتجاج کی خبر دینے پر مجرمانہ سازش کے الزام میں گرفتار کیاتھا۔ضمانت پر رہائی کے عدالتی احکامات کے بعد سجاد گل کو مسلسل نظربند رکھنے کیلئے قابض انتظامیہ نے ان پر کالا قانون پبلک سیفٹی ایکٹ لاگو کر دیا تھا ۔کشمیری صحافی آصف سلطان اگست 2018سے دہشت گردی کے جھوٹے الزامات میں جیل میں مسلسل قیدہیں۔ گزشتہ سال اکتوبرمیں ایک فوٹو جرنلسٹ منان ڈار کو غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے کالے قانون کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔نومبر میںہی انسانی حقوق کے ممتاز کشمیری کارکن خرم پرویز کو بھی غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے کالے قانون کے تحت گرفتار کیا تھا۔مینا کشی گنگولی نے کہاکہ بھارتی قابض حکام مقبوضہ علاقے میں اختلاف رائے کی آوازوں کو خاموش کرانے کے لیے انسانی حقوق کے کارکنوں ، صحافیوں، پرامن مظاہرین اور حکومت کے ناقدین کے خلاف انسداد دہشت گردی کے قانون کاوحشیانہ طورپر استعمال کر رہے ہیں۔2019میں قابض انتظامیہ نے قانون میں ترمیم کرتے ہوئے حکام کو کسی بھی شخص کو کسی بھی ثبوت کے بغیر دہشت گرد قراردینے کا اختیار دیدیا تھا اور خود کو بے گناہ ثابت کرنے کی ذمہ داری مذکورہ شخص پر عائد کر دی تھی ۔ ستمبر میں بھارتی پولیس نے چار کشمیری صحافیوں کے گھروں پر چھاپے مارے اور ان کے موبائل فونز اور لیپ ٹاپ قبضے میں لے لئے ۔گزشتہ سال جنور ی میںبھارتی حکومت نے جموں و کشمیر کیلئے ایک نئی میڈیا پالیسی کا اعلان کیا جس سے قابض حکام کو مقبوضہ علاقے میں خبروں کو سنسر کرنے کا مزید اختیار حاصل ہو گیا ۔ 2019کے بعد سے کشمیری صحافیوں کو ان کے پیشہ وارانہ فرائض کی ادائیگی اور سوشل میڈیا پر جاری پوسٹوں پر پوچھ گچھ کیلئے باقاعدگی سے پولیس اسٹیشنوںمیں طلب کیا جاتا رہا ہے اور ان کی طرف سے قابض حکام پر تنقید کے نتیجے میں انہیں سنگین نتائج کا سامنا کرنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ مقبوضہ علاقے میں پولیس بھارتی روزنامے دی ہندو کے نامہ نگار پیرزادہ عاشق، اکنامک ٹائمز کے نامہ نگار حکیم عرفان، انڈین ایکسپریس کے بشارت مسعود اور آٹ لک کے نمائندے نصیر گنائی کو طلب کرکے پوچھ گچھ کر چکی ہے ۔ اپریل 2020میں پولیس نے پیرزادہ عاشق ،گوہر گیلانی اور مسرت زہرہ فوٹو جرنلسٹ کے خلاف مجرمانہ تحقیقات شروع کی تھیں ۔ جولائی 2020میںقابض حکام نے کشمیری صحافی قاضی شبلی سے تفتیش کی اور اسے حراست میں لے لیا۔ نیوز ویب سائٹ آرٹیکل 14 کے مطابق حالیہ مہینوں میںبھارتی حکام نے بڑے ملکی اور بین الاقوامی میڈیا گروپوں سے وابستہ صحافیوں اور فری لانسرز پر پابندیوںمیں سختی کر دی ہے ۔بھارتی حکومت نے 22صحافیوں سمیت 40سے زائد افراد کوبیرون ملک جانے سے روکنے کیلئے امیگریشن حکام کو دی جانیوالی فہرست میں شامل کردیا ہے ۔ 2019میںبھارتی حکومت نے گوہر گیلانی اورانسانی حقوق کے کارکن بلال بٹ کو بیرون ملک جانے سے روک دیا گیا ۔اکتوبر 2020میںقابض انتظامیہ نے کشمیر ٹائمز کی ایگزیکٹو ایڈیٹر انورادھا بھسین کوانتقامی کارروائی کا نشانہ بناتے ہوئے سرینگر میں اخبار کے دفتر کو سیل کر دیا۔ بھسین نے سپریم کورٹ میںمقبوضہ علاقے میںبھارتی حکومت کی طرف سے ٹیلی مواصلات کی بندش کے خلاف عرضداشت دائر کی تھی ۔فہدشاہ کی گرفتاری پر مقبوضہ کشمیر میں کئی صحافتی تنظیموں بشمول ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا اور اپوزیشن کے سیاست دانوں نے بھارتی قابض انتظامیہ کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا تھا ۔ صحافیوں کے حقوق کے تحفظ کی بین الاقوامی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس نے بھی فہد شاہ کی رہائی کا مطالبہ کیاتھا ۔ ہیومن رائٹس واچ کی ڈائریکٹر مینا کشی گنگولی نے بھارتی قابض انتظامیہ سے فوری طورپر فہد شاہ اور سیاسی مقدمات میں گرفتا ر کئے گئے تمام دیگر صحافیوں ، کارکنوں اور نقادوں کو رہاکرنے اور کالے قوانین سے انہیں ہراساں کرنے کا سلسلہ ترک کرنے کامطالبہ کیا۔ انہوںنے کہاکہ جب بھی حکومت صحافیوں اور کارکنوں کو خاموش کرانے کیلئے آمرانہ ہتھکنڈے استعمال کرتی ہے، تواس سے ظاہرہوتا ہے کہ وہ کچھ نہ کچھ ضرور چھپا رہی ہے ۔