اپوزیشن جماعتوں کی رسمی مخالفت میں قومی اسمبلی نے اینٹی منی لانڈرنگ بل 2020 کی کثرت رائے سے منظوری دے دی

10 سال قید اڑھائی کروڑ روپے تک کا جرمانہ ہوسکے گا

مزید کاروبار پر بھی قانون کا اطلاق  ہوگا جس میں رئیل اسٹیٹ، بلڈرز، قیمتی دھاتوں و قیمتی پتھروں کا کاروبار کرنے والے و کمپنیاں بھی شا

تفتیش کی مدت  بڑھا دی گئی،120 دنوں  کا اختیار مل جائے گا، قومی اسمبلی میں مجموعی طورپر وقف املاک کے  موثر انتظام سمیت  چار بلز کی  منظوری دیدی

 اجلاس میں  سابق وزیراعظم  شاہد خاقان عباسی کی  اسپیکر اسد قیصر اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے  تلخ کلامی

وزیر خارجہ کو ایوان میں سچ بولنا چاہیے،  شاہد خاقان عباسی

میں  سچ بولوں گا تو یہ شرمندہ ہوں گے، پردے میں رہنے دو  پردہ نہ اٹھائو۔شاہ محمود قریشی

منی لانڈرنگ  سے متعلق نئی قانون سازی  بین الاقوامی مالیاتی ٹاسک فورس کی شرائط کے تحت  کی جارہی ہیں،وزیر خارجہ

اسلام آباد (ویب ڈیسک )اپوزیشن جماعتوں کی رسمی مخالفت میں قومی اسمبلی نے اینٹی منی لانڈرنگ بل 2020 کی کثرت رائے سے منظوری دے دی۔10 سال قید اڑھائی کروڑ روپے تک کا جرمانہ ہوسکے گا، مزید  کاروبار پر  بھی قانون کا اطلاق  ہوگا جس میں رئیل اسٹیٹ، بلڈرز، قیمتی دھاتوں و قیمتی پتھروں کا کاروبار کرنے والے و کمپنیاں بھی شامل ہیں، تفتیش کی مدت  بڑھا دی گئی ہے، 120 دنوں  کا اختیار مل جائے گا، قومی اسمبلی میں مجموعی طورپر وقف املاک کے  موثر انتظام سمیت  چار بلز کی  منظوری دیدی ہے۔ اجلاس میں  سابق وزیراعظم  شاہد خاقان عباسی کی  اسپیکر اسد قیصر اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے  تلخ کلامی بھی ہوگئی ، شاہد خاقان عباسی نے کہاکہ وزیر خارجہ کو ایوان میں سچ بولنا چاہیے، شاہ محمود قریشی نے کہاکہ میں  سچ بولوں گا تو یہ شرمندہ ہوں گے، پردے میں رہنے دو  پردہ نہ اٹھائو۔ منی لانڈرنگ  سے متعلق نئی قانون سازی  بین الاقوامی مالیاتی ٹاسک فورس کی شرائط کے تحت  کی جارہی ہیں۔ اجلاس  پیر کو اسپیکر اسد قیصر کی صدارت میں ہوا ۔ پہلے مرحلے میں شراکت داری  و محدود ذمہ داری ،  کمپنیات ایکٹ 2017ء اور وقف املاک کے بہتر انتظام و انصرام سے متعلق  بلز کی منظوری دی گئی ، اپوزیشن نے  مخالفت کی۔ بعدازاں مشیر پارلیمانی امور ظہیر الدین بابر نے  انسدادتطہیر زر ایکٹ 2010 میں مزید ترمیم  کا بل پیش کیا، وزیر قانون  و انصاف  فروغ نسیم نے انکشاف کیا کہ  منی لانڈرنگ کی تفتیش کو نیب کے دائرہ کار میں  پاکستان پیپلزپارٹی کے دور میں لایا گیا تھا جبکہ  بعض شقیں  سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف  کی تجویز پر ضابطہ فوجداری میں  شامل کرنے کی بجائے  اس قانون میں لے کر آرہے ہیں۔ اس حوالے سے راجہ پرویز اشرف کوئی وضاحت   نہ کرسکے جبکہ  سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ  کسی بھی شہری کو اس قانون کے تحت اٹھا لیا جائے گا۔ کسی عدالت  سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ قابل ضمانت بھی نہیں ہوگا۔ کوئی بھی کاروبار مشکوک قرار دیا جاسکتا ہے۔ خواجہ محمد آصف نے کہا کہ لامحدود اختیارات   نہ دئیے جائیں  بل سے حساس اداروں کے  نام بھی نکالے جائیں  اور لکھ دیا جائے کہ وفاقی حکومت کوئی بھی رکن کمیٹی کیلئے نامزد کر سکے گی۔ اپوزیشن رسمی  مخالفت تک محدود رہی ۔ شاہد خاقان عباسی کو بولنے کا موقع نہ ملنے پر ان کی اسپیکر اسد قیصر سے  تلخ کلامی ہوگئی اپوزیشن ارکان  اسپیکر ڈائس پر پہنچ گئے اور انتہائی  بلند آواز میں  اسپیکر سے مخاطب ہوتے رہے اسپیکر  بھی غصے میں آگئے اور کہاکہ  حوصلہ رکھیے   اپنی نشستوں پر جاکر بیٹھیں۔ اپوزیشن کے دبائو پر شاہد خاقان عباسی کو فلور دیا گیا انہوں نے کہاکہ پاکستان کو  نیب جیسے اداروں کی ضرورت نہیں ہے جو قانون  آج لایا جارہا ہے تحریک انصاف  کے ارکان بھی مستقبل میں  نشانہ بن سکتے ہیں۔ کرپشن کے معاملات صرف ارکان پارلیمنٹ تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں جبکہ  قوانین کا اطلاق سارے ملک پر ہوتا ہے۔ صرف پارلیمنٹیرینز کو نشانہ بنایا جارہا ہے اس قانون کے تحت  کوئی  بھی کاروبار مشکوک ہو جائے گا۔ کئی ماہ تک حراست میں رکھا جائے گا۔ پارلیمانی نگرانی ضروری ہے۔ اس موقع  پر حکومتی ارکان نے شدید احتجاج کیا اور کہاکہ شاہد خاقان عباسی کو بولنے نہ دیا جائے  پہلے یہ اسپیکر سے متعلق توہین آمیز ریمارکس واپس لیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہاکہ یہ ضرور بات کریں اپنے الفاظ پر معذرت کریں اور ان کو واپس لیں۔ شاہد خاقان عباسی نے کہاکہ وزیر موصوف ایوان میں سچ بولیں۔ شاہ محمود قریشی نے کہاکہ میں نے  سچ بولا تو یہ شرمندہ ہوں گے۔ پردے میں رہنے دو پردہ نہ اٹھائو۔ پردہ جو اٹھ گیا تو بھید کھل جائے گا۔ سابق وزیراعظم نے کہاکہ بات یہ ہے کہ  وزیر اس ایوان میں بس سچ بولیں۔ وزیر قانون نے کہاکہ  منی لانڈرنگ  کے تفتیشی اختیار کو 2010میں پیپلزپارٹی کے دور میں نیب کے حوالے کیا گیا تھا اور پارلیمانی سیکرٹری  قانون و انصاف کی طرف سے جو ترامیم پیش کی جارہی ہیں ان کے بارے میں راجہ پرویز اشرف نے  مشورہ دیا تھا کہ ضابطہ فوجداری سے نکال کر اس ایکٹ میں لے آئیں۔ ایوان میں  بل کو کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا۔ ایوان میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے  یہ بھی کہاکہ کسی غیر منتخب آدمی کو اس  ایوان میں اپوزیشن لیڈر پر الزام تراشی نہیں کرنی چاہیے وہ براہ راست اپوزیشن  لیڈر پر کرپشن کے الزامات لگارہے ہیں اگراپوزیشن لیڈر ان کے الزامات سے محفوظ نہیں ہیں تو اور پارلیمنٹیرین کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں۔مشیر پارلیمانی امور کی طرف مزید اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ غیر منتخب آدمی  اہم قانون سازی پیش کررہے ہیں،قانون سازی کیلئے کرائے کے لوگ لائے گئے ہیں۔ بعدازاںوزیراعظم عمران خان کے مشیر برائے احتساب و داخلہ امور شہزاد اکبر نے  نے کہاکہ اینٹی منی لانڈرنگ بل میں کچھ ترامیم لائی جارہی ہیں تاکہ ملک کو گرے لسٹ سے نکالا جائے۔انہوں نے قومی اسمبلی میں کہا کہ صرف ایک چیز پر تنازعہ ہے کہ تحقیقات کے لییکون سی ایجنسی ہو؟ ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن چاہتی ہے کہ نیب کو تحقیقاتی ایجنسی میں شامل نہ کیا جائے۔ وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا کہ اپوزیشن کسی کے بنیادی حقوق کا تحفظ نہیں بلکہ اپنے ذاتی مفادات کا تحفظ چاہتی ہے۔انہوں نے کہا کہ منظورٹی ٹی کا ایک ریفرنس دائرہوا پتہ چلا کہ رمضان پاپڑ والا دبئی پیسے بھیجتا رہا۔ ان کا کہنا تھا کہ بینفیشری یہی بنتا ہے۔شہزاد اکبرنے کہا کہ دوسرا بینفیشری فالودے والا بنتا ہے جس کا فیک اکاونٹ بنا کرمنی لانڈرنگ کی گئی۔ انہوں نے دعوی کیا کہ ہمیں یہاں تک کہا گیا کہ نیب منی لانڈرنگ کیسزکی صلاحیت نہیں رکھتا ہے۔  وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب و داخلہ امورشہزاد اکبرنے اس موقع پر استفسار کیا کہ اگر نیب میں صلاحیت نہیں ہے تو منظور ٹی ٹی والے کو کیسے بے نقاب کیا گیا؟

#/S