اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں کی مخالفت،قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی قانون و انصاف نے شراب پر مکمل پابندی کا بل مسترد کردیا
شراب کسی مذہب میں جائز نہیں ہے، ملک میں اس کے کاروبار کو کسی مذہب سے  نہ جوڑا جائے، غیر مسلم اراکین
قائمہ کمیٹی نے سابقہ فاٹا کی قومی اسمبلی کی نشستیں صوبے میں ضم کرنے سے متعلق  الیکشن کمیشن سے رپورٹ طلب کرلی
صوبہ سرحد کے نام کی تبدیلی کے حوالے سے سیاسی جماعتوں نے سمجھوتہ کیا تھا اور صرف صوبہ خیبرپختونخواہ نہیں رکھنے دیا گیا، سید نوید قمر کا اعتراف
این ڈبلیو ایف پی سے کے پی کے یا کے پی میں تبدیلی سے نام کی تبدیلی پر کوئی فرق نہیں پڑا ۔ محرکین آئینی ترمیم

اسلام آباد (ویب ڈیسک)

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون  و انصاف میںاپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں کی مخالفت پر ملک میں شراب پر مکمل پابندی کا بل مسترد ہوگیا، اجلاس میں غیر مسلم اراکین نے واضح کیا ہے کہ شراب کسی مذہب میں جائز نہیں ہے، ملک میں اس کے کاروبار کو کسی مذہب سے  نہ جوڑا جائے، قائمہ کمیٹی نے سابقہ فاٹا کی قومی اسمبلی کی نشستیں صوبے میں ضم کرنے سے متعلق الیکشن کمیشن سے رپورٹ طلب کرلی ہے جبکہ  پیپلزپارٹی کے رہنما سید نوید قمر نے  اعتراف کیا ہے کہ  صوبہ سرحد کے نام کی تبدیلی کے حوالے سے سیاسی جماعتوں نے سمجھوتہ کیا تھا اور صرف صوبہ خیبرپختونخواہ نہیں رکھنے دیا گیا، آئینی ترمیم کے محرکین کا کہنا ہے کہ این ڈبلیو ایف پی  سے  کے پی کے یا کے پی میں تبدیلی سے نام کی تبدیلی پر کوئی فرق نہیں پڑا ۔ قائمہ کمیٹی قانون و انصاف کا اجلاس جمعرات کو چیئرمین ریاض فتیانہ کی صدارت میں پارلیمنٹ ہائوس میں ہوا۔ الیکشن کمیشن کے اسپیشل سیکرٹری ظفر اقبال نے  قائمہ کمیٹی کو آگاہ کیا کہ قبائلی اضلاع کے صوبہ خیبرپختونخوا میں ضم ہونے پر صوبہ خیبرپختونخوا میں نئی حلقہ بندیاں ہوں گی اور سابقہ فاٹا کی چھ نشستیں  صوبے کے  مختلف اضلاع کو دی جائیں گی۔ محسن داوڑ نے  آئینی ترمیم بل پیش کیا کہ پختونخوا سے  خیبر کے لفظ تحلیل کیے جائیں اور صرف صوبہ پختونخوا رکھا جائے۔ نام کی تبدیلی سے کوئی مقصد حاصل نہیں ہوا۔ سیاسی جماعتوں سے مشاورت ہونی چاہیے۔ محسن شاہ نواز ملک احسان ٹوانہ اور دیگر ارکان نے کہاکہ سیاسی اتفاق رائے ضروری ہے پارلیمانی لیڈر سے  مشاورت کرلیں۔ محمود بشیر ورک نے  ترمیم کی مخالفت کردی اور کہاکہ خیبر کی تاریخی اہمیت کے پیش نظر اسے شامل کیا گیا تھا۔ عطاء اللہ خٹک نے  ترمیم کی حمایت کی اور کہاکہ پنجاب کو پنجاب ، سندھ کو سندھ، بلوچستان کو بلوچستان پکارا جاتا ہے یہاں کے پی کے اور  کے پی  پکارا جارہا ہے نام کا مقصد حاصل نہیں ہوا۔ قادر مندوخیل نے بھی ترمیم کی حمایت کی لعل چند نے بھی ترمیم کی حمایت کی۔ محسن داوڑ نے کہاکہ خیبرپختونخوا اسمبلی دو بار صرف صوبہ پختونخوا کی قرارداد کی قرارداد منظور کرچکی ہے۔ بل کو آئندہ اجلاس کیلئے موخرکردیا گیا ہے۔  اجلاس کی کارروائی کے دوران اقلیتی رکن کھیل داس کے شراب پر مکمل پابندی کے آئینی ترمیم بل کا جائزہ لیا گیا محرک نے کہاکہ ہندو مذہب سمیت کسی مذہب میں شراب پینے کی اجازت نہیں ہے، ہمیں شراب پینے پلانے سے سروکار نہیں ہے بلکہ  ہمارا مقصد یہ ہے کہ کسی مذہب سے شراب کے استعمال کو نہ جوڑا جائے۔ پیپلزپارٹی کے رہنما سید نوید قمر اور مسلم لیگ ن کے رکن محمود بشیر ورک نے بل کی مخالفت کی اور کہا کہ قدغنیں نہ لگائیں بعض مذہب میں اجازت ہے بلکہ غیر مسلموں کے بعض مذہبی تہوار کے موقع پر شراب کی اجازت ہے۔ بل کے محرک سمیت دیگر اقلیتی ارکان نے کہاکہ یہ درست نہیں ہے۔شنیلا رتھ نے کہاکہ ان کے والد پادری رہے ہیں، عیسائی مذہب میں بھی قطعاً شراب کی اجازت نہیں ہے۔ عطاء اللہ خٹک نے کہاکہ کسی مذہب کو بدنام نہ کیا جائے تمام مذاہب میں پابندی ہے بل کو منظور کیا جائے۔ بعض ارکان کا کہنا تھا کہ مسائل پیدا ہوں گے، خاتون اقلیتی رکن نے کہاکہ یہ تل ہمارے ماتھے پر لگایا جارہا ہے  میں چیلنج کرتی ہوں عیسائی مذہب میں شراب کی اجازت نہیں ہے حرام قرار دیا گیا ہے۔ حکومت پرمٹ اور لا ئسنس کے اجراء کیلئے کسی مذہب کا سہارا نہ لے اور اسے غیر مسلموں سے نہ جوڑا جائے۔ کھیل داس نے کہاکہ ہماری کمیونٹی میں  مسائل پیدا ہورہے ہیں ، گلیوں اور گھروں میں شراب فروخت ہورہی ہے مکمل طورپر پابندی لگائی جائے۔ جے یو آئی کی عالیہ کامران نے بھی ان کی حمایت کی۔ دونوں بڑی جماعتوں  کی مخالفت پر مکمل شراب کی پابندی  کا بل مسترد کردیا گیا اسی طرح آئین و قوانین سے اقلیت کے الفاظ تحلیل کرنے کی ترمیمی بل پر بھی حکومت سے  ورکنگ  پیپر مانگ لیا گیا ہے کہ یہ الفاظ کہاں کہاں درج ہیں۔ وزارت کو یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ بھی دیکھا جائے کہ اقلیت کے الفاظ کن کن ممالک میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ زاہد درانی کے بنوں کی نشستوں میں اضافے کے ترمیمی بل پر الیکشن کمیشن سے رپورٹ مانگ لی گئی ہے۔ اسپیشل سیکرٹری نے بتایا کہ نئی مردم شماری سے قبل نئی حلقہ بندیاں نہیں ہوسکتیں۔ خیبرپختونخوا میں نئی حلقہ بندیاں ہوں گی کیونکہ وہاں قبائلی اضلاع کا انضمام ہوا ہے ۔ چھ نشستیں  بڑھ جائیں گی۔ کمیٹی نے  بنوں کو ترجیح قرار دینے کی سفارش کی ہے۔