کابل یونیورسٹی میں ایرانی کتاب میلے پر حملہ، کم از کم25  افراد ہلاک، متعدد زخمی

بہت سے طلبا کو اپنی جانیں بچانے کے لیے وہاں سے بھاگنا پڑا،یونیورسٹی میں افراتفری مچ گئی

کابل یونیورسٹی حملے میں تین افراد شامل تھے، ایک نے شروع میں ہی خود کو اڑا دیا ، دیگر دو حملہ آوروں کو سیکیورٹی فورسز نے قابو کرلیا،ترجمان افغان وزارت داخلہ

کابل (ویب ڈیسک )افغان دارالحکومت کابل کی یونیورسٹی میں ایرانی کتاب میلے کے شرکا پر پیر کے روز متعدد مسلح افراد نے حملہ کر دیا۔ اس حملے میں کم ازکم 25 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔ بہت سے طلبا کو اپنی جانیں بچانے کے لیے وہاں سے بھاگنا پڑا۔ غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق حکام کا کہنا تھا کہ کابل یونیورسٹی میں ہونے والے حملے میں اب تک ہلاکتوں کی تعداد 25 ہوگئی ،وزارت داخلہ کے ترجمان طارق آریان کا کہنا تھا کہ کابل یونیورسٹی حملے میں تین افراد شامل تھے، ان میں سے ایک نے شروع میں ہی خود کو اڑا دیا جبکہ دیگر دو حملہ آوروں کو سیکیورٹی فورسز نے قابو کرلیا۔اس سے قبل وزارت صحت کے ترجمان اکمل سمسور نے ابتدائی طور پر بتایا تھا کہ حملے میں اب تک 8 افراد زخمی ہوئے ہیں اور اس تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔وزارت داخلہ کے ترجمان طارق آریان نے بتایا کہ علاقے میں اب بھی فائرنگ کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔انہوں نے صحافیوں

سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے دشمن، تعلیم کے دشمن کابل یونیورسٹی میں داخل ہو ئے۔ان کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی فورسز صورتحال پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہیں، وہ انتہائی محتاط طریقے سے آگے بڑھ رہے ہیں تاکہ طلبہ کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ اس فائرنگ اور دھماکے کے نتیجے میں کوئی ہلاکت ہوئی ہے یا نہیں اور اس کا کوئی ذمے دار ہے یا نہیں۔ادھر طالبان کا کہنا تھا کہ اس حملے سے ان کا کوئی تعلق نہیں ،وزارت اعلی تعلیم کے وزیر حامد عبیدی نے کہا تھا کہ فائرنگ اس وقت شروع ہوئی جب کتب میلے میں افغان حکومتی عہدیداران کی آمد کی اطلاع ملی۔وزارت صحت کے نائب ترجمان معصومہ جعفری نے بتایا کہ 4 افراد کو ہسپتال منتقل کیا گیا ہے لیکن زخمیوں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔حملے کے بعد طلبہ میں افراتفری پھیل گئی اور یونیورسٹی میں شدید خوف و ہراس کا ماحول دیکھا گیا۔ایک 23 سالہ طالب علم فیردون احمدی نے کہا کہ ہم اپنے کلاس روم میں پڑھ رہے تھے کہ ہمیں یونیورسٹی کے اندر گولیاں چلنے کی آواز سنائی دی، کچھ طلبہ بھاگنے میں کامیاب ہو گئے، یہاں بہت افرا تفری ہے اور طالبعلم خوفزدہ ہیں۔۔اس حملے کے فوری بعد یونیورسٹی کیمپس میں موجود کئی افراد کو وہاں سے بحفاظت نکال لیا گیا۔ کابل یونیورسٹی میں اتنے زیادہ طلبا زیر تعلیم ہیں کہ وہاں صرف سماجی علوم کی فیکلٹی میں ہی طلبا و طالبات کی تعداد تقریبا 800 بنتی ہے۔دارالحکومت کابل کے مغربی حصے میں ایک بڑے تعلیمی ادارے پر ابھی گزشتہ ہفتے ہی ایک خونریز حملہ کیا گیا تھا، جس میں کم از کم 24 افراد مارے گئے تھے۔ اس خود کش بم حملے میں ہلاک ہونے والوں میں سے زیادہ تر طالب علم تھے۔ اس بم دھماکے کی ذمے داری دہشت گرد تنظیم داعش نے قبول کر لی تھی۔2018 میں بھی داعش کے شدت پسندوں نے کابل یونیورسٹی کے دروازے کے سامنے ایک بڑا خود کش بم دھماکا کیا تھا، جس میں درجنوں افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ تب بھی ہلاک شدگان میں سے کئی یونیورسٹی کے نوجوان طلبا تھے۔اس سے پہلے 2016 میں عسکریت پسندوں نے کابل ہی میں واقع امریکی یونیورسٹی آف افغانستان پر بھی ایک بڑا حملہ کیا تھا۔ شدت پسندوں نے یونیورسٹی کیمپس میں گھس کر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی تھی اور اس حملے میں 16 افراد مارے گئے تھے۔

#/S