لاہور: (ویب ڈیسک  ) چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے حکم پر پٹرول بحران اور قیمتوں میں اضافہ سے متعلق تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ پبلک کر دی گئی ہے۔

رپورٹ میں وزارت توانائی کے پاس مکمل ریکارڈ نہ ہونے کا انکشاف سامنے آیا ہے۔ چیف جسٹس قاسم خان نے کہا ہے کہ ذمہ داروں کے خلاف نیب، ایف آئی اے اور فوجداری قوانین کے تحت کارروائی ہوگی۔

تفصیل کے مطابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس محمد قاسم خان کی عدالت میں پٹرول بحران اور قیمتوں میں اضافہ سے متعلق کیس پر سماعت ہوئی۔ وفاقی حکومت کی جانب سے ڈپٹی اٹارنی جنرل اسد باجوہ اور کمیشن کے سربراہ ابوبکر خدا بخش پیش ہوئے۔

چیف جسٹس ہائی کورٹ جسٹس قاسم خان نے وفاقی حکومت کے وکیل کو رپورٹ پبلک کرنے کا حکم دیا، جس کے بعد کمیشن کے سربراہ ابوبکر خدا بخش نے 156 صفحات پر مشتمل رپورٹ عدالت میں جمع کرا دی اور عدالتی حکم پر رپورٹ کے اہم نکات پڑھ کر سنائے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں مقرر کرنے کا طریقہ کار انتہائی پرانا ہے۔ سٹیک ہولڈرز کو پہلے سے ہی پتا چل جاتا ہے کہ آئندہ ماہ قیمتیں کم ہو جائیں گی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 32 روپے ڈیزل اور 26 روپے پٹرول کی قیمت میں اضافہ کیا گیا جہاں کمپنیز کو فائدہ ہوا وہاں عوام اس سے مستفید نہیں ہوئے۔ اوگرا اور آئل کمپنیز نے ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ سٹاک چیک کیا گیا تو کمپنیز کے پاس سٹاک موجود نہیں تھا۔

دوران سماعت چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے کہا کہ 7 کمپنیوں نے 4 دن پہلے ریٹ بڑھانے کی وجہ سے 2 ارب روپے کما لئے۔ پٹرول کی قیمتیں بڑھانے کی سمری بھجوانے کی کیا ضرورت تھی؟ ایک بندہ جس پر 23 ارب روپے کا الزام ہے، اسے
سوا ارب میں دھو کر صاف ستھرا کر دیا گیا۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ایک کمپنی جس کا ایک بھی پمپ نہیں، اس کو ایک ہزار ٹن کا کوٹہ دیا گیا۔ وٹرنری ڈاکٹر کو ڈی جی آئل تعینات کیا گیا۔ 20 فیصد سمگلنگ کا پٹرول پکڑا جاتا ہے جبکہ باقی نہیں۔ رپورٹ میں سفارش کی گئی کہ اوگرا کو فوری تحلیل کیا جائے، نئے پیٹرولیم رولز بنائے جائیں، پیٹرول کی قیمتوں کا 15 دن کی بجائے 30 روز میں جائزہ لیا جائے۔

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس قاسم خان نے کہا کہ اگر کسی کی نااہلی سے ملک کو نقصان پہنچا، اس کے خلاف کیا کارروائی کی جا سکتی ہے؟ 4 دن پہلے قیمت بڑھانے سے ریاست کو نقصان ہوا، وہ کس سے ریکور کیا جائے؟ حکومت پاکستان یقینی بنائے کہ پٹرولیم مصنوعات بغیر رکاوٹ عوام کو دستیاب ہوں۔ ڈپٹی کمشنرز اور وفاقی حکومت کے تمام ادارے اپنا کردار ادا کریں۔

عدالت نے کمیشن کے سربراہ سے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی سے متعلق تفصیلی رپورٹ 15 روز میں طلب کر لی۔