ارٹیکل370 کے خاتمے سے بھارت کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اے ایس دلت
معلوم نہیں کشمیر میں کیا ہو رہا ہے ہر30 کشمیریوں پر ایک بھارتی سپاہی تعینات ہے
‘بھارت اور پاکستان کے درمیان بات چیت کا سلسلہ کبھی بھی رکنا نہیں چاہیے
نئی دہلی(ویب نیوز ) بھارتی خفیہ ایجنسی ‘را’ کے سابق سربراہ امرجیت سنگھ دلت نے کہا ہے کہ بھارتی آئین کا ارٹیکل370 پہلے ہی کھوکھلا ہو چکا تھا اس کے خاتمے سے بھارت کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ بھارتی انگریزی اخبار نیشنل ہیرالڈ سے انٹرویو میں اے ایس دلت نے کہا کہ بی جے پی کا ایجنڈا تھا کہ جموں وکشمیر کے خصوصی درجے کو ختم کرنا ہے۔ ارٹیکل370 کے خاتمے سے کشمیری مایوس ہوئے ہیں اور انہیں لگتا ہے یہ ایک قسم کی غداری ہے۔ حتی کہ جموں وکشمیر کے مین اسٹریم ( بھارت نواز ) لوگ بھی ارٹیکل370 کے خاتمے سے ناخوش ہیں اور ان کی شکایات ہے کہ اس کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ اے ایس دلت نے کہا کہ کشمیر کو سمجھنے والے بہت کم ہندوستانی ہیں کسی کو نہیں معلوم کہ کشمیر میں کیا ہو رہا ہے اور نہ ہی کسی کو معلوم ہے کہ نئی دہلی کیا سوچ رہی ہے۔ کشمیر کی واضح صورت حال سامنے نہیں آرہی ہے۔ حکومت صورت حال معمول کے مطابق ہونے کا دعوی کرتی ہے ، لیکن کچھ کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ یہ بھی واضح ہے کہ ہر30 کشمیریوں پر ایک بھارتی سپاہی تعینات ہے ۔کے پی آئی کے مطابق انہوں نے کہا کہ کشمیر یوں کو نئی دہلی کے ساتھ ہمیشہ ہی مسائل درپیش رہے تاہم انہیں ہندوستان کے لوگوں کے ساتھ کبھی بھی پریشانی نہیں ہوئی۔ کشمیری سمجھتے ہیں کہ ان سے امتیازی سلوک برتا جارہا ہے اور وہ حیران ہیں کہ ان کی غلطی کیا ہے۔ شیخ عبداللہ نے پبلک سیفٹی ایکٹ (PSA) قانون متعارف کرایا تھا۔ اس قانون کو فاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ دونوں استعمال کرتے رہے ہیں۔ اس قانون کے تحت لوگوں کو قید کیا جارہا ہے پہلے عسکریت پسند اور اب سیاستدان اس قانون کی زد میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس ایکٹ کو منسوخ کرنے کے بارے میں قومی اتفاق رائے ہونا چاہئے۔ کشمیر کو صرف سیکیورٹی کے حوالے سے ہی نمٹایا جا رہا ہے ، لیکن یہ صرف سیکیورٹی کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے ، جذباتی مسئلہ ہے ، نفسیاتی مسئلہ ہے۔ جلد یا بدیر حکومت کو اس سے اتفاق کرنا پڑے گا۔ اے ایس دلت نے کہا کہ 2004 میں حریت رہنماوں نے کی اس وقت کے نائب بھارتی وزیر اعظم ایل کے اڈوانی کے ساتھ ملاقات کی تھی وقت بدلتا رہتا ہے کبھی بھی موقعے کو ہاتھ سے نہیں دیا جانا چاہیے۔ حریت کو 2000 سے 2004 تک کے چار برسوں کے دوران آگے بڑھنے کے کئی موقعے ملے تھے لیکن وہ وہیں رہ گئے۔ انہوں نے کہا کہ جب بھی کوئی وفد بات چیت کے لئے حریت کے پاس آتا تھا تو وہ کہتے تھے کہ پہلے پاکستان کے ساتھ ہم بات کریں گے اور آپ بھی ان کے ساتھ بات کریں یہ لوگ پاکستان کی ہدایات پر چل رہے ہیں’۔ انہوں نے کہا کہ میں نے خود پاکستانی دوستوں سے کہا تھا کہ حریت کو جو آپ روکتے ہو وہ کشمیر کے لئے کسی بھی صورت میں ٹھیک نہیں ہے۔میرواعظ عمر فاروق کو سیاسی میدان میں آنے کی دعوت دیتے ہوئے اے ایس دلت نے کہا کہ ‘میں خاص طور پر میرواعظ عمر فاروق جو ایک مذہبی رہنما ہیں، کو باہر نکل کر سیاست کرنے کو کہتا ہوں۔ ان کو اب میدان میں آنا چاہیے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان بات چیت کو لازم قرار دیتے ہوئے اے ایس دلت نے کہا کہ ‘بھارت اور پاکستان کے درمیان بات چیت کا سلسلہ کبھی بھی رکنا نہیں چاہیے اور جو ہمارے درمیان جو رشتہ ہے وہ بحال ہونا چاہیے، بات چیت لازمی ہے جب شروع ہوگی تب ہی کئی مسئلے حل ہوسکتے ہیں’۔غلام نبی آزاد کے پارلیمنٹ میں جموں و کشمیر کے ریاستی درجے کی واپسی کے بیان کے متعلق انہوں نے کہا کہ ‘میں آزاد صاحب کے اس بیان سے متفق ہوں اور بھارتی حکومت کا یہ وعدہ بھی ہے کہ جموں وکشمیر کو ریاستی درجہ واپس دیا جائے گا اور کب دیا جائے گا الیکشن کے بعد یا قبل یہ لیڈران بات چیت سے طے کریں گے’۔ انہوں نے کہا کہ دہلی کے لیڈروں اور کشمیر کے لیڈروں کو بھی اس سلسلے میں آپس میں بات چیت کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر پر اقوام متحدہ میں عمران خان کے تقریر سے پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے ۔وزیر اعظم نریندر مودی اور پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کو آپس میں ہی بات چیت کرنی چاہیے’۔ انہوں نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان ابدی رشتہ قائم ہونا چاہیے جس کو بنانے کے لئے شروعات کی جانی چاہیے۔