صدارتی ریفرنس کے فیصلہ پر نظرثانی کیس کی لائیو کوریج کیلئے درخواست پر وفاق کو نوٹس جاری، جواب طلب
کیس کی مزید سماعت آئیندہ سوموار تک ملتوی

چیف جسٹس سپریم جوڈیشنل کونسل کے چیئرمین ہیں۔
اسلام آباد( ویب نیوز )

سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف صدارتی ریفرنس کے فیصلہ پر نظرثانی کیس کی براہ راست نشریات کیلئے درخواست پر وفاق کو نوٹس جاری کرکے  جواب طلب کر لیا ہے جبکہ دوران سماعت دلائل میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسی نے موقف اپنایا ہے کہ میرے عزیز ہم وطنو ا ب ختم ہو نا چاہیئے۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت آئیندہ سوموار تک ملتوی کردی ۔جسٹس قاضی فائز عیسی کیس کی سماعت جسٹس عمر عطا بندیال کی سربرا ہی میں دس رکنی بینچ نے کی سماعت کے آغاز پر جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہاگزشتہ روز عدالت نے کاروائی کی لائیو کوریج کے حوالے سے آبزرویشن دی کہ لائیو کوریج انتظامی اور پالیسی معاملہ ہے۔ اس لئے عدالت کی آبزرویشن پر دلائل دوں گا سپریم کورٹ آئین کے تحت بنا ادارہ ہے جسٹس عیسی نے کہااس ادارہ کو اختیارات آئین فراہم کرتا ہے آئین سے بالاتر سپریم کورٹ کے پاس کوئی اختیار نہیں۔ آئین سپریم کورٹ کی پالیسی کے بارے میں بات نہیں کرتا تاہم آئین سپریم کورٹ کے رولز کی بات ضرور کرتا ہے، جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالت نے یہ آبزرو کیا تھا کہ یہ انتظامی اور پالیسی میٹر ہے سپریم کورٹ کے رولز کون بناتا ہے، سپریم کورٹ کے رولز فل کورٹ ہی بناتی ہے،بینچ کے تمام ججز آپ کو سننا چاہتے ہیں جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا آئین میں سپریم کورٹ کی پالیسی کا ذکر نہیں ہے، عدالت سے بنیادی حقوق آرٹیکل 19 اے کی عمل داری چاہتا ہوں، عدالتی بینچ اپنے جوڈیشل اختیارات سے سپریم کورٹ رولز پر فیصلہ دے سکتا ہے، جسٹس منیب اختر نے کہاجسٹس قاضی فائز عیسی صاحب  پہلے سوال سن لیںآ پ یہاں ہماری معاونت کے لیے کھڑے ہیں، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا آپ نے سوال پوچھا ہے یا معاملے کا تعین کر رہے ہیں، جس پر جسٹس منیب اختر نے کہاعدالت یہاں آپکو سننے کے لیے ہی بیٹھی ہے بحث نہ کریں۔ کاروائی براہ راست دکھانے پر دلائل دیں۔ عدالت کے اختیارات کو چھوڑ دیں۔ اگر لائیو کوریج کا معاملہ فل کورٹ میں جاتا ہے تو کیا فل کورٹ میں بیٹھیں گے؟ جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہافل کورٹ کا مجھے پہلے ایجنڈا موصول ہو گا۔ پھر فیصلہ کروں گا۔چیف جسٹس سپریم جوڈیشنل کونسل کے چیئرمین ہیں۔چیف جسٹس فل کورٹ میٹنگ کی صدارت بھی کرتے ہیں۔ چیف جسٹس کی پوزیشن کو مفادات کے ٹکراو کے لیے استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ جسٹس منیب اختر نے کہاآپ کہتے ہیں انصاف ہوتا ہوا نظر آنا چاہیے۔ کیا جب پاکستان میں ٹی وی نہیں تھا تو انصاف ہوتا ہوا نظر نہیں آتا تھا؟ جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہاکیا آپ مجھ سے سوال پوچھ رہے ہیں۔جس پر جسٹس منیب اختر نے کہاجی میں آپ سے سوال پوچھ رہا ہوں۔کیونکہ اپ لائیو کوریج کی درخواست کر رہے ہیں جس پر جسٹس قاضی فائیز عیسی نے کہا میرے پاس اس سوال کا جواب نہیں ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسی کے جواب پر جسٹس منیب اختر نے کہاآپ یہاں معاونت کے لیے موجود ہیں۔ جسٹس منظور ملک نے بھی کہاجسٹس قاضی فائز عیسی صاحب اس طرح بات کرنا اچھی بات نہیں ہے جس پر جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہاسوال پوچھیں کمنٹ نہ کریں۔ معاملہ کو سمجھتے ہوے جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاآپ جج صاحب کو سنیں وہ کیا پوچھ رہے ہیں۔جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا اپنے چیمبر میں بیٹھ کر برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کا کیس سنا، ہمارے ہاں تعلیمی اداروں میں ابتدا سے قرآن نہیں پڑھایا جاتا، میری اہلیہ امریکن سکول میں پڑھاتی رہی، امریکن سکول میں پہلی کلاس سے آئین پڑھانا شروع کردیا جاتا ہے، ہمارے گھروں میں قرآن اونچی جگہوں پر رکھا ہوتا ہے حرم پاک میں گیا قرآن پاک نیچے رکھا ہوا تھا تو حیران ہوا، جسٹس عیسی کے دلائل پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاہم نے امریکن اسکول کا سن لیا، ہم نے عمرہ کا بھی سن لیا اب آپ اپنے کیس کی بات کریں، جسٹس منصور علی شاہ نے کہاپنجاب میں ماتحت عدلیہ کو ریگولیٹ کرنے کے لیے کیمرے لگائے گئے ہیں، عدلیہ نے ہمیشہ ٹیکنالوجی کو قبول کیا ہے ٹیکنالوجی کے استعمال سے عدالتی نظام میں آسانی پیدا ہوتی ہے جسٹس قاضی فائز عیسی نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا لائیو ٹیلی کاسٹ کا یہ پہلا ٹیسٹ کیس ہو سکتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں سب سے متنازعہ کیس ذوالفقار علی بھٹو کیس کا ہے۔ سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ نے بعدازاں ذوالفقار بھٹو کیس میں دباؤ تسلیم کیا۔ جس پر جسٹس منیب اختر نے کہاکیا ذوالفقار علی بھٹو کیس کی اپیل اوپن کورٹ میں ہوئی تھی؟جس پر جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہامجھے اسکا علم نہیں۔ جسٹس عیسی کے جواب پر جسٹس منیب اختر نے کہاآپ اپنی لائیو ٹیلی کاسٹ کی درخواست پر فوکس کریں۔ امریکن عدالت میں صرف آڈیو ریکارڈ کی جاتی ہے۔ جسٹس منظور ملک نے جسٹس قاضی فائز عیسی کو کہاادب سے میری ایک بات سنیں پہلے پانی پی لیں آپ اصل میں وکیل نہیں ہیں۔ آپ وہاں کھڑے ہوکر جو بات کر رہے ہیں وہ جج کی آبزویشن بن جائے گی وکیل تو روسٹرم پر کھڑے ہو کر ادھر ادھر کی باتیں کر جاتے ہیںآ پکی روسٹرم پر کی گئی باتیں بطور جج اپکے سامنے آئیں گئیں جس پر جسٹس عیسی نے کہامیں جج ہوں لیکن عدالت کے سامنے ایک درخواست گزار بھی ہوں لائیو ٹیلی کاسٹ کا حق مجھے نہیں ملنا ،نظر ثانی کیس میں لائیو ٹیلی کاسٹ کا حق عوام کو ملنا ہے جج کو عوام کی سطح پر بدنام کیا جاتا ہے کیا جج کو لائیو ٹیلی کاسٹ میں سنا نہیں جا سکتا؟ جسٹس قاضی فائزعیسی نے کہا آمر ٹی وی پر آکر کہتا ہے میرے عزیز ہم وطنو۔میرے عزیز ہم وطنوں کو بھی ختم ہونا چاہیے۔ مجھ سے کسی بچہ نے پوچھا اسٹبلشمنٹ کیا ہوتی۔ میرے استفسار پر بچہ نے کہا ہر جگہ ہی چل رہا ہے۔جسٹس عمر عطا بندیال نے جسٹس عیسی کو روکتے ہوئے کہاجسٹس قاضی فائز عیسی یہ سیاسی کمنٹ ہے اس سے پرہیز کریں۔۔۔جسٹس عیسی نے اپنے دلائل میں کہا لائیو ٹیلی کاسٹ سے برے وکلا کو بے نقاب کیا جائے۔ یہاں اچھے وکلابھی ہے اور برے وکلا بھی ہے۔ فرض کر لیں اس مقدمہ کی کاروائی لائیو ہوتی ہے کیا عوام اس سے مستفید ہوں گے یا نہیں ۔لائیو ٹیلی کاسٹ سے عدالتی کاروائی میں مزید ڈسپلین آئے گا۔ہمیں ماضی نہیں بھولنا چاہے 35سال کا آمرانہ دور بہت ہو گیا۔دورا ن سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا لائیو ٹیلی کاسٹ کی درخوست کی مخالفت کریں گے جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہافیڈریشن تو کیس کو ختم نہیں کرنا چاہتی تھی۔بظاہر کیس سے بھاگ رہے ہیں جسٹس عمر عطا بندیال مقدمہ کو ہم نے لمبا نہیں کرنا۔ درخواست گزار کی مشکلات اور عدالتی مشکلات سامنے ہیں۔ دس رکنی لارجر بینچ سے دوسرے مقدمات متاثر ہورہے ہیں کوئی شبہ نہیں ٹیکنالوجی ہر شعبہ میں انقلاب لاتی ہے۔ کھلے ذہن کیساتھ بیٹھے ہیں۔ آپ آج جج سے وکیل بن گئے آپ نے اللہ کو راضی کرنے کے لیے کرنا ہے۔ خدا قسم لوگ دیکھ رہے ہیں۔ جس کے بعد عدالت نے کیس کی مزید سماعت آئیندہ سوموار تک ملتوی کردی اور لائیو ٹیلی کاسٹ  کی درخواست پر عدالت نے وفاق کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا۔