کورونا از خود نوٹس ،سپریم کورٹ کا آکسیجن سلینڈرز کی قیمت مقرر کرنے کا حکم

قرنطینہ سینٹرز سے متعلق رپورٹ طلب ، چیئرمین این ڈی ایم اے کو طلب کر لیا

 این ڈی ایم اے کے سارے معاملات گڑ بڑ ہیں، چیف جسٹس گلزار احمدکے ریمارکس

30 اپریل کو حکومت نے غیر رجسٹرڈ ادویات کی درآمد کا این او سی جاری کیا ہے،ایڈیشنل اٹارنی جنرل

وینٹی لیٹر سمیت کئی آلات ملک میں تیار ہو رہے ہیں، ایکٹمرا انجیکشن کے سوا دوائی کی قلت نہیں،ڈریپ حکام

 ایکٹمرا کے حوالے سے کافی منفی رپورٹس ہیں،جسٹس مظہر عالم میاں خیل کے ریمارکس

اسلام آباد (ویب  نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان نے حکومت پاکستان کو آکسیجن سلینڈرز کی قیمت مقرر کرنے کا حکم دے دیا ۔ بدھ کو سپریم کورٹ میں کورونا ازخود نوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی، ڈریپ اور این ڈی ایم اے کی رپورٹس جمع کرا دی ہیں، سماعت کے دوران چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ این ڈی ایم اے کے سارے معاملات گڑ بڑ ہیں، الحفیظ نامی کمپنی کو این 95 ماسک کی فیکٹری لگوائی گئی، فیکٹری کیلئے ساری مشینری اورڈیوٹیز کی ادائیگی نقد کی گئی، چارٹرڈ جہاز کے ذریعے مشینری منگوائی اس کی ادائیگی بھی نقد ہوئی، چائنہ میں پاکستانی ایمبیسی کے ذریعے کیوں خریداری کی گئی؟ کیا چائنہ میں پاکستانی ایمبیسی خریداری کیلئے استعمال ہوتی ہے؟ ۔چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ چارٹرڈ جہاز بھی سفارتخانہ کے ذریعے ہی کروایا گیا، کیا چائنہ میں پاکستانی سفیر خریداری ہی کرتے ہیں یا ڈپلومیٹک کام بھی؟ کیش کس کو دیا گیا کس نے وصول کیا نہیں معلوم ہے، ہر چیز میں این ڈی ایم اے کا ذکر ہے، چار پانچ مرتبہ آرڈر دیا تو کچھ دستاویزات دی گئیں، اب ان دستاویزات کا بھی معلوم نہیں یہ کیا ہیں۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ قرنطینہ سینٹر پر کروڑوں روپے خرچ کردیئے گئے، سب کو معلوم ہے حاجی کیمپ قرنطینہ سینٹر کا کیا بنا، حاجی کیمپ پر کروڑوں روپے لگا دیئے گئے نہ پانی ہے وہاں نہ ہی رنگ کیا گیا۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا چیئرمین این ڈی ایم اے نے قرنطینہ سینٹر کا دورہ کیا ہے؟ ہمیں نہیں معلوم آپ نے چارج کب لیا، چیئرمین این ڈی ایم اے نے ذمہ لیا ہے تو قرنطینہ سینٹرز کا دورہ بھی کرنا چاہئے۔ عدالت نے چیئرمین این ڈی ایم اے کو تمام قرنطینہ سینٹرز کا وزٹ کرنے کا حکم دیتے ہوئے این ڈی ایم اے سے قرنطینہ سینٹرز کی حالت پر رپورٹ طلب کرلی، جب کہ عدالت نے این ڈی ایم اے کی رپورٹ غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے آئندہ سماعت پر وضاحت کے لیے چیئرمین این ڈی ایم اے کو طلب کر لیا۔دورانِ سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بیان دیا کہ 30 اپریل کو حکومت نے غیر رجسٹرڈ ادویات کی درآمد کا این او سی جاری کیا ہے۔ ڈریپ حکام نے جواب میں بتایا کہ  وینٹی لیٹر سمیت کئی آلات ملک میں تیار ہو رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ غیر رجسٹرڈ آلات اور ادویات کو امپورٹ کی اجازت کیوں دی گئی، کیا کوئی تحقیقات کی ہے کہ ادویات آخر کیوں منگوائی جا رہی ہیں، حکومت کو کیسے معلوم ہوگا کہ کون سی چیز منگوائی جا رہی ہے، کورونا سے نمٹنے کے لیے طبی آلات کی دستیابی کی کیا صورتحال ہے۔ڈریپ حکام نے کہا کہ ملک میں کورونا سے متعلق کسی بھی دوائی کی قلت نہیں، ایکٹمرا انجیکشن کے علاوہ کئی ادویات کا کئی ماہ کا سٹاک موجود ہے۔ جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے ریمارکس دیئے کہ ایکٹمرا کے حوالے سے کافی منفی رپورٹس ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پاکستان سٹیل مل سے آکسیجن کی بڑی مقدار مل سکتی ہے۔ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سٹیل مل کا آکسیجن پلانٹ کم و بیش 40 سال پرانا ہے، آکسیجن پلانٹ فعال کرنے میں ایک ارب روپے کی لاگت آئے گی، عدالت کو آکسیجن کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ فراہم کریں گے۔سپریم کورٹ نے آکسیجن سلینڈرز کی قیمت مقرر کرنے کا حکم دے دیا۔ جس پر ڈریپ حکام نے جواب  دیتے ہوئے کہا کہ آکسیجن وزارت صنعت کے ماتحت ہے ہمارا اس سے تعلق نہیں جس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ وزارت صنعت و پیداوار دو دن میں آکسیجن سلنڈر کی قیمت کا تعین کرے، قیمت کے تعین کا طریقہ کار بھی وضع کیا جائے۔mk/z

#/S