پہلے سے ٹیکس ادا کرنے والے لوگوں کا تھرڈ پارٹی آڈٹ ہو گا، ریٹیل کا کاروبار جی ڈی پی کا 18 فیصد ہے

بجلی اور گیس کے ٹیرف بھی بڑھا دیئے گئے، اس سے مہنگائی بڑھی اور انڈسٹری پر بھی منفی اثر پڑا،قائمہ کمیٹی میں اظہار خیال

اسلام آباد (ویب ڈیسک)

وفاقی وزیرِ خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ ڈالر ختم ہونے کے باعث ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا،غیر ملکی قرضے کی لاگت بڑھ گئی، بجلی اور گیس کے ٹیرف بھی بڑھا دیئے گئے، اس سے مہنگائی بڑھی اور انڈسٹری پر بھی منفی اثر پڑا ۔سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے وزیرِ خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ حکومت جب آئی تو گروتھ کے باوجود مسائل بہت زیادہ تھے، کرنٹ اکائونٹ خسارہ 19 سے 20 ارب ڈالر تھا، مجموعی مالی خلا 28 ارب ڈالر تک پہنچ چکا تھا، ڈالر ختم ہونے کے باعث ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا، آئی ایم ایف اس بار پاکستان کے ساتھ فرینڈلی نہیں تھا۔انہوں نے کہاکہ پیپلز پارٹی دور میں آئی ایم ایف نے اچھا پیکیج دیا تھا، اس بار ہمیں آئی ایم ایف کی کڑوی گولی کھانا پڑی، آئی ایم ایف نے شرح سود 13 اعشاریہ 25 فیصد تک لے جانے کا مطالبہ کیا، اس سے ایک سال میں قرضوں کی لاگت 1400 ارب روپے بڑھ گئی۔ انہوںنے کہا کہ شرحِ تبادلہ بھی 168 تک چلا گیا، غیر ملکی قرضے کی لاگت بڑھ گئی، بجلی اور گیس کے ٹیرف بھی بڑھا دیئے گئے، اس سے مہنگائی بڑھی اور انڈسٹری پر بھی منفی اثر پڑا، اس سے معیشت سست روی کا شکار ہو گئی، یہی آئی ایم ایف کا طریقہ کار ہے۔ اس سے معاشی شرح نمو 2 اعشاریہ 1 پر گئی، پھر کورونا کی وبا آگئی، کورونا آنے سے سب کچھ بند ہو گیا، پاکستانی معیشت منفی 0.47 فیصد پر چلی گئی،ہر سال ایک فیصد ٹیکس ٹو جی ڈی پی بڑھائیں گے، ٹیکس ٹو جی ڈی پی کو 20 فیصد تک لے جانا ہو گا۔انہوں نے کہا کہ اس سال 4700 ارب، اگلے سال 5800 ارب سے زیادہ ٹیکس ریونیو ہو گا، نان ٹیکس ریونیو ملا کر مجموعی آمدن 8 ہزار ارب روپے ہو گی، زرعی شعبہ ہماری اولین ترجیح ہے، ہم خوراک کی قلت کا شکار ہیں، دالوں اور گھی سمیت ہر چیز درآمد ہو رہی ہے، یہ ساری چیزیں عام آدمی کو متاثر کرتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ صنعتی پیداوار اور برآمدات کو بڑھانا ہو گا، ڈسکوز، لائن لاسز بہتر کر کے ان کو بیچ دیں گے، 2300 ارب کے گردشی قرضے میں اگلے سال اضافہ نہیں ہو گا، وفاقی ترقیاتی پروگرام پر 900 ارب خرچ کریں گے، پی ایس ڈی پی کا ہر ماہ جائزہ لیا جائے گا۔وفاقی وزیرِ خزانہ نے کہا کہ قومی اقتصادی کونسل کا بھی سال میں 4 بار اجلاس ہوگا، نان ٹیکس دہندہ کی گرفتاری میرے لیول پر ہو گی، جان بوجھ کر ٹیکس ڈیفالٹ کرنے والے کو ٹیکس ادا کرنا ہو گا، ہم عملی طور پر یہ کام کر کے دکھائیں گے، 7 اعشاریہ 2 ملین لوگوں کے مکمل پروفائل تیار کر لئے گئے ہیں، ان کو نوٹس ایف بی آر نہیں تھرڈ پارٹی دے گی، ٹیکس نہیں دیں گے تو ان کے خلاف ایکشن لیں گے۔انہوں نے کہا کہ پہلے سے ٹیکس ادا کرنے والے لوگوں کا تھرڈ پارٹی آڈٹ ہو گا، ریٹیل کا کاروبار جی ڈی پی کا 18 فیصد ہے، یہ 10 ہزار ارب روپے کا کاروبار ہے، اس سے 650 ارب روپے ٹیکس حاصل ہو سکتا ہے، ایف بی آر کی طرف سے دھمکائے جانے کے اختیارات کی شق ختم کر دیں گے۔شوکت ترین نے یہ بھی کہا کہ وزیرِ قانون سے کہا ہے کہ گرفتاری کی شق تبدیل کریں، کمیٹی تجویز دے گی تو ہم اس پر عمل درآمد کریں گے۔