لاہور (ویب ڈیسک)
دی ایسوسی ایشن آف چارٹرڈ سرٹیفائیڈ اکاؤنٹنٹس(اے سی سی اے) کے مطابق جی 7 ممالک کی جانب سے اعلان کردہ نئی ٹیکس پالیسیاں غیر واضح ہیں اور اْن پر عمل درآمد کے دوران مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کیوں کہ اِن اصلاحات پر جی 20 ممالک کے علاوہ دیگر حکومتوں کا متفق ہونا باقی ہے جبکہ ٹیکس کا مضبوط نظام سادگی، یقین اور استحکام پر قائم ہوتا ہے۔
اے سی سی اے میں ہیڈ آ ف ٹیکس اینڈ بزنس لا، جیسن پائپر کہتے ہیں:”ملکی بنیادوں پر ٹیکس کو کم از کم 15 فیصد کی سطح پر لانے کا وعدہ ایک چیلنج ہے جس سے دیگر حکومتوں کے درمیان بھی معاہدے کی ضرورت ظاہر ہوتی ہے۔ حقیقی معنوں میں مؤثر ثابت ہونے کے لیے، اسے جی 7 ممالک، بلکہ جی 20 ممالک سے بھی آگے بڑھ کر اقتصادی تعاون و ترقی کی انجمن (OECD)تک وسعت دینا چاہیے جس میں 139 ممالک شامل ہیں اور اس کے لیے ضروری ہے کہ حکومتیں اپنی قانونی خودمختاری سے دستبردار ہونا پڑے گا تاکہ اسے مؤثر اور عملی فریم ورک کی صورت دی جا سکے۔”
جیسن مزید کہتے ہیں:”کثیرالقومی اداروں کو ایسے ممالک میں ٹیکس کی ادائیگی کے لیے آمادہ کرنا، جہاں وہ کاروبار کرتے ہیں – نہ کہ ایسے ممالک میں جہاں اُن کے مرکزی دفاتر ہیں – بینکوں، کاروباری اداروں اور ٹیکس حکام کے لیے ایک نیا قانونی اور اکاؤنٹنٹگ چیلنج پیش کرتے ہیں۔“
ایسوسی ایشن کے مطابق بنیادی چیلنج مساوات اور انصاف کا قیام ہے۔ جیسن واضح کرتے ہیں کہ:”بلاشبہ یہ ایک غیر واضح، غیر مستحکم بلکہ ایک زلزلے کی کیفیت رکھنے والا اعلان ہے بلکہ مرکزی ایونٹ سے زیادہ ایک پیشگی صدمہ ہے۔کارپوریٹ ٹیکس، کل محصولات کا معمولی حصہ ہوتے ہیں اور یہ اقدامات اِس کے انتہائی معمولی حصے کا احاطہ کرتے ہیں۔ حقیقی اور اصل بوجھ اصراف (consumption)ا ور ذاتی انکم ٹیکس اٹھاتے ہیں اور یہ وہ مقام ہے جہاں اصلاحات، ان معاشروں میں جہاں ہم رہتے ہیں،حقیقی فرق پیدا کر سکتی ہیں۔“
جیسن مزید کہتے ہیں:”مجموعی طور پر ٹیکس میں ’کمی‘ ایک علامت ہے، وجہ نہیں ہے۔ ہم نے کاروبار اور اْس معاشرے کے درمیان ربط کو توڑدیا ہے جہاں ہم خدمات فراہم کرتے ہیں اور کسی حد تک اِسے دوبارہ تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔ ٹیکس کا ایک ایسا نظام بنانا جو گردشی معیشت میں مدد گار ہو اور اُس کی حوصلہ افزائی کرتا ہو، مددگار ثابت ہو سکتا ہے اور منافع پر حاصل ہونے والے ٹیکس اس کا انتہائی معمولی حصہ ہیں۔ تاہم، اس قدم کو سراہنا چاہیے اور سسٹم میں شفافیت اور انصاف لانا چاہیے جسے طویل عرصے سے قومی حکومتوں کا معاملہ تصور کیا جاتا رہا ہے۔ ہم ایک عرصے سے کارپوریٹ ٹیکسوں کے تعین کے لیے نیچے کی جانب کی جانے والی ریس کو روکنے پر زور دے رہے ہیں۔“
سنہ 2019ء، اے سی سی اے،چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس آسٹریلیا اینڈ نیو زی لینڈ(سی اے اے اینڈ زیڈ) اور انٹرنیشنل فیڈریشن آف اکاؤنٹنٹس(آئی ایف اے)نے مشترکہ طور پر”جی 20 پبلک ٹرسٹ اِن ٹیکس: سروینگ پبلک ٹرسٹ ان جی 20 ٹیکس سسٹمز”کے عنوان سے شائع کی تھی۔ اِس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ سروے کیے گئے زیادہ تر افراد (69%)بین الاقوامی ٹیکس پالیسی کے لیے تعاون کی حمایت کرتے ہیں تاکہ زیادہ بااُصول اور ہم آہنگ بین الاقوامی ٹیکس سسٹم تیار کیا جا سکے۔
جیسن پائپر نے مزید کہا:”ہمیں اپنی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ جب ٹیکس سسٹم کی بات ہوتی ہے توجی 20ممالک میں رہنے والے افراد کے لیے شفافیت سب سے اہم مسئلہ ہے۔ہماری عالمی تحقیق میں جی 20 کے تمام ممالک سے تعلق رکھنے والے شرکاء زیادہ وضاحت کے خواہاں تھے کہ اُن کی حکومتیں کہاں سے اور کس سے ٹیکس وصول کر رہی ہیں اور اُن کے ٹیکس کی رقم کس طرح خرچ کی جا رہی ہے۔ متعدد ممالک میں،ٹیکس کے نظام میں بدعنوانی بھی انتہائی تشویش کی بات ہے جو سنہ 2021ء میں کیے گئے سروے کی رپورٹ میں یہ تشویش بہت نمایاں تھی۔یہ رپورٹ اس سال ستمبر میں شائع ہو گی۔
اپنی بات ختم کرتے ہوئے جیسن پائپر نے کہا:”ممالک کے درمیان ٹیکس پالیسی پر مسابقت، خواہ محصولات میں زیادہ حصے کے طلب ہو یا کثیرالقومی کاروباری اداروں کو متوجہ کرنا ہو، یہ گزشتہ کئی برسوں سے بین الاقوامی ٹیکس ماحول کی حقیقت رہی ہے۔جی 7 ممالک نے جو اعلان کیا ہے اُس کا مقصد اِس حقیقت کو تبدیل کرنا ہے – لازمی بات یہ ہے کہ ہمیں ٹیکس کے نظاموں پر اعتماد ہو اور اسے دیکھنا باقی ہے۔“