صدرمملکت کی ایف بی آر کی جانب سے 82 سالہ ٹیکس دہندہ کے ساتھ ناروا سلوک پر برہمی

 ایف بی آر کی جانب سے انہیں پہنچنے والی تکلیف پر ہمارے سر شرم سے جھک جانے چاہییں،عارف علوی

صرف2,333 روپے کا یہ معاملہ ایک سال سے زیادہ عرصہ تک لٹکا رہا، سینئر سٹیزن عبدالحمید خان سے تکلیف پر معذرت خواہ ہیں

ایف بی آر کے اہلکار نے اپنے محکمے، ٹیکس محتسب اور صدر پاکستان کا وقت ضائع کیا، فیصلہ سازوں کی پوری چین کے خلاف تادیبی کارروائی کی جانی چاہیے

اسلام آباد(ویب  نیوز)صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر)کی جانب سے 82 سالہ ٹیکس دہندہ کے ساتھ ناروا سلوک پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے چیئرمینایف بی آر کو ہدایت کی ہے کہ وہ غیر ذمہ داری اور بدعنوانی کا جائزہ لیں اوراس میں ملوث عناصر کے خلاف تادیبی کارروائی کریں۔اتوار کو ایوان صدر میڈیا آفس سے جاری پریس ریلیزکے مطابق صدر مملکت نے بزرگ شہری کے خلاف ایف بی آر کے فیصلے پر نوٹس لیا جس نے اسے غیر ضروری بنیادوں پر 2,333 روپے کی معمولی رقم واپس کرنے سے انکار کر دیا اور اسے ایک سال سے زائد عرصے پر محیط غیر ضروری قانونی چارہ جوئی میں گھسیٹا۔بزرگ شہری عبدالحمید خان سے معذرت کرتے ہوئے صدر مملکت نے کہا کہ ایف بی آر کی جانب سے انہیں پہنچنے والی تکلیف پر ہمارے سر شرم سے جھک جانے چاہییں۔عبدالحمید خان (شکایت کنندہ)ایک بزرگ شہری ہیں،جن کی عمر 82 سال ہے، انہوں نے پی ٹی سی ایل اور موبائل فون پر وصول کیا گیا ایڈوانسڈ ٹیکس واپسی کی مد میں سال 2020 کے اپنے انکم ٹیکس ریٹرن پر 2,333 روپے کا ریفنڈ جمع کرایا تھا۔شکایت کنندہ نے 19 اکتوبر 2020 کو ریفنڈ کی درخواست ای فائل کی جس کے بعد 24 دسمبر 2020 کو ایف بی آر چیئرمین کو بھی یاددہانی کے لئے درخواست دی گئی۔ایف بی آر کے یونٹ افسر نے 29 جنوری 2021 کو اس کے ریفنڈ کے دعوے کو اس بنیاد پر مسترد کر دیا کہ درخواست دہندہ تصدیق کے لیے درکار اصل سرٹیفکیٹ فراہم کرنے میں ناکام رہا تھا۔شکایت کنندہ نے پھر اپنی شکایت کا ازالہ کرنے کے لیے معاملہ وفاقی ٹیکس محتسب کے پاس اٹھایا۔ایف ٹی او نے معاملے کی چھان بین کی اور 02 جون 2021 کو ایف بی آر کو حکم دیا کہ وہ 19 جنوری کے غیر قانونی حکم پر نظرثانی کرے اور شکایت کنندہ کو قانون کے مطابق سماعت کا موقع فراہم کرنے کے بعد، آرڈیننس کے سیکشن 170(4) کے تحت ایک نیا حکم جاری کرے۔اس نے حکم دیا کہ اس اہلکار کی شناخت اور ان کے خلاف تادیبی کارروائی شروع کی جائے جس نے قانون اور طریقہ کار کی دھجیاں اڑاتے ہوئے غیر ضروری حکم نامہ پاس کیا اور عمر رسیدہ ٹیکس دہندگان کو غیر ضروری قانونی چارہ جوئی کے ساتھ ساتھ 45 دنوں کے اندر تعمیل کی اطلاع دی۔نتیجتا ایف بی آرنے 24جون 2021کو ایف ٹی اوکے اصل حکم کے خلاف صدر مملکت کے پاس ایک درخواست دائر کی۔صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ایف بی آر کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ شکایت کنندہ نے اعتراف کے ساتھ ایڈوانس ٹیکس کی کاپیاں پیش کی ہیں جومتعلقہ حکام کے ذریعہ جمع کردہ سرٹیفکیٹس کے مطابق ہیں۔اگر یونٹ آفیسر سرٹیفکیٹس کی کاپیوں سے مطمئن نہیں تھا تو وہ نہ صرف پی ٹی سی ایل اور سیل فون کمپنیوں سے تصدیق کروا سکتا تھا بلکہ آن لائن سسٹم کے ذریعے بھی تصدیق ممکن تھی۔انہوں نے کہا کہ ڈیوٹی آفیسر کی ذمہ داری ہے کہ اگر یہ سسٹم میں ظاہر نہیں ہورہی تھیں تو وہ کٹوتی کرنے والے حکام سے ٹیکس کی کٹوتی کی تصدیق کراتا،قطع نظر اس کے کہ سرٹیفکیٹس اصلی یا کاپیاں ہیں۔صدر مملکت نے آن لائن سسٹم کے ذریعے پی ٹی سی ایل اور سیل فون کمپنی سے بلوں کی تصدیق کرنے میں افسر کی ناکامی کو ذمہ داری سے پہلو تہی اور بدانتظامی کا عمل قرار دیا۔انہوں نے کہا کہ افسر کا یہ فعل ایف بی آر کے قانون، طریقہ کار اور ہدایات کا مذاق اڑانا ہے۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عمر رسیدہ پنشنر کی تذلیل کی غرض سیکیس میں غیر قانونی سلوک کیا گیا۔ایف بی آر کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے صدر مملکت عارف علوی نے کہا کہ یہ بیوروکریٹک اتھارٹی کا انتہائی قابل افسوس اور شرمناک ہتھکنڈہ ہے اور افسوس کا اظہار کیا کہ ایف بی آر کے اہلکار نے اپنے محکمے، ٹیکس محتسب اور صدر پاکستان کا وقت ضائع کیا۔صرف2,333 روپے کا یہ معاملہ ایک سال سے زیادہ عرصہ تک لٹکا رہا۔ انہوں نے اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ ایف بی آر میں بیوروکریٹس کے طویل چین میں سے کسی نے بھی اس معاملے پر غور و خوض نہیں کیا کہ اس معاملے کی ناانصافی، کم ظرفی اور ضرورت سے زیادہ تاخیرکا نوٹس لیا جائے۔ صدر نے کہا کہ ہمارے سر شرم سے جھک جانے چاہییں، انہوں نے مزید کہا کہ وہ سینئر سٹیزن عبدالحمید خان سے ایف بی آر کی وجہ سے ہونے والی تکلیف پر معذرت خواہ ہیں۔انہوں نے ہدایت کی کہ اس معاملے میں فیصلہ سازوں کی پوری چین کے خلاف تادیبی کارروائی کی جانی چاہیے اور چیئرمین ایف بی آر کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ذمہ داروں، خاص طور پر اور دیگر بالعموم انہیں ترجیحات اور شائستگی سکھانے کے لیے کورسز سے گزرنا چاہیے۔