ہم سی پیک کو نہ صرف ہمارے لیے بلکہ خطے کے لیے بھی گیم چینجر سمجھتے ہیں

وزیر خارجہ کا نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی ( این ڈی یو) میں زیر تربیت افسران سے خطاب

 

اسلام آباد (ویب ڈیسک)

وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ پاکستان نے افغانستان میں مفاہمت کے فروغ میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا ، عالمی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہندوتوا کے نظریے کی پیداوار ہے،ہم نے تمام دستیاب فورمز پر بھارتی جارحیت کے باعث بین الاقوامی امن اور سلامتی کو لاحق خطرات کو واضح کیا۔ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی ( این ڈی یو) میں زیر تربیت افسران سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں زیر تربیت افسران کے ساتھ بات چیت کرنا ہمیشہ خوشی کا باعث رہا ہے۔مجھے کئی دوست ممالک کے باسی شرکا کو پاکستان کے سول اور فوجی افسران کے ساتھ اکٹھے دیکھ کر خوشی محسوس ہو رہی ہے۔ہم واقعی دلچسپ دورسے گزر رہے ہیں۔ جہاں دنیا تیزی سے بدل رہی ہے۔ہمارے لیے چیلنج یہ ہے کہ ہم، اپنے قومی مفادات کو فروغ دینے اور ان کو پہنچنے والے نقصانات کو روکنے کے لیے نئے حقائق سے ہم آہنگ ہونے کے لیے ہمہ وقت چوکس رہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان جنوبی ایشیا،وسطی ایشیا، مشرق وسطی اور چین کے سنگم پر واقع ہے۔ اس لیے ہمارے اقتصادی مفادات کو فروغ دینے اور اپنے ثقافتی اور تاریخی تعلقات کو زندہ رکھنے کے لیے بہتر رابطہ ضروری ہے۔کنیکٹیویٹی حوالے سے سی پیک، ایک اہم اقدام ہے۔ پاکستان اس فریم ورک کو نہ صرف اپنے لیے بلکہ خطے کے لیے بھی گیم چینجر کے طور پر دیکھتا ہے۔ گوادر پورٹ سی پیک فریم ورک کے اہم اجزا میں سے ایک ہے۔ اس سلسلے میں گوادر اتنا اہم کیوں ہے؟۔اول، یہ دنیا کی واحد قدرتی گہری سمندری بندرگاہ ہے، دوسرا، یہ بی آر آئی اور شاہراہ ریشم کے منصوبوں کو جوڑتی ہے، تیسرا، وسطی ایشیا اور افغانستان کے لیے مختصر ترین راستہ ہونے کی وجہ سے یہ خطے کے لیے گیٹ وے کے طور پر کام کرنے کے لیے موزوں ہے، چوتھا، یہ یورپ سے یوریشیا تک ایک ممکنہ علاقائی تجارتی مرکز ہے۔لہذا، ہم گوادر کو علاقائی تعاون اور مشترکہ اقتصادی فوائد کے بے پناہ امکانات کے مرکز کے طور پر دیکھتے ہیں۔کئی ممالک نے سی پیک میں شرکت کیلئے دلچسپی ظاہر کی ہے۔ پاکستان سی پیک کے تحت ساتھ بنائے جانے والے خصوصی اقتصادی زونز میں سرمایہ کاری کرنے والے  دیگر ممالک کو خوش آمدید کہے گا ۔اس طرح علاقائی روابط اور مشترکہ ترقی کے ہمارے وژن کو عملی شکل ملے گی۔ہمارا مقصد روزگار کے مواقع اور علاقائی تجارتی روابط کا فروغ  ہے۔ ہم سی پیک کو نہ صرف ہمارے لیے بلکہ خطے کے لیے بھی گیم چینجر سمجھتے ہیں۔افغانستان مشترکہ ذمہ داری کا حصہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے افغانستان میں مذاکرات اور مفاہمت کے فروغ میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے۔پاکستان نے ہمیشہ کہا تھا کہ افغانستان کی جنگ کا کوئی فوجی حل نہیں ہے اور ایک پرامن اور خوشحال افغانستان پاکستان کے اپنے مفاد میں ہے۔ہم افغانستان کی مدد میں متحرک رہے ہیں۔ 15 اگست کے بعد، ہم نے 37 ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کے 30000  سفارتی اور این جی او کے عملے اور میڈیا کے افراد کو نکالنے میں سہولت فراہم کی، ہم اس بات پر زور دیتے رہے ہیں کہ بین الاقوامی افواج کا انخلا، بین الاافغان مذاکرات میں پیشرفت کے ساتھ ذمہ دارانہ ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا خیال ہے کہ اس وقت سب سے بڑا موقع افغانستان میں پائیدار امن اور استحکام کیلئے عالمی برادری کا اتحاد ہے۔بدقسمتی سے، امن مخالف عناصر، ایک بار پھر پاکستان کے خلاف بیانیے کو تبدیل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ہمارے خطے اور عالمی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہندوتوا کے نظریے کی پیداوار ہے،فروری 2019 میں بھارتی جارحیت نے جنوبی ایشیا کو جنگ کے دہانے پر دھکیل دیا۔ ہمارا ردعمل اشتعال کا مقابلہ کرنے، روکنے اور اس آگ کو  بجھانے والا تھا۔ ہم یہ تینوں مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ہم نے اپنے دفاع کا حق استعمال کیا اور کسی بھی بیرونی مہم جوئی کو ناکام بنانے کی اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا مسلسل موقف رہا ہے کہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن جموں و کشمیر کے تنازع کے منصفانہ حل پر منحصر ہے۔ پاکستان کے ساتھ بامعنی اور نتیجہ خیز تعلقات کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے کی ذمہ داری بھارت پر عائد ہوتی ہے۔5 اگست 2019 کو بھارت کے غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات کے بعد وزیر اعظم عمران خان کی ہدایات کے تحت، ہم نے دنیا بھر میں کشمیر کاز کو ایک نئے جوش اور عزم کے ساتھ اٹھایا، اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو اجاگر کیا۔ہم نے تمام دستیاب فورمز پر بھارتی جارحیت کے باعث بین الاقوامی امن اور سلامتی کو لاحق خطرات کو واضح کیا۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں 55 سال کے وقفے کے بعد ایک سال میں تین مرتبہ کشمیر کی صورتحال زیر بحث آئے۔ پاکستان کشمیریوں کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت اس وقت تک جاری رکھے گا جب تک کہ، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق ان کا جائز اور ناقابل تنسیخ حق، حق خودارادیت ان کو حاصل نہیں ہو جاتا۔بھارت کی اشتعال انگیزیوں کے باوجود، پاکستان نے نومبر 2019 میں کرتار پور راہداری کو کھول دیا جس میں بھارت سمیت پوری دنیا میں مقیم سکھوں کو ان کے مقدس ترین مقامات تک رسائی دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کا خطے اور پاک بھارت تعلقات کے لیے وژن،  پرامن بقائے باہمی، بین المذاہب ہم آہنگی اور تنازعات کے پرامن حل پر مشتمل ہے۔خطے میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے وزرائے اعظم کے درمیان رابطے، دوطرفہ تعلقات میں بہتری کی نشاندہی کرتے ہیں،پاکستان کے دیگر علاقائی شراکت داروں جیسے نیپال اور سری لنکا کے ساتھ دیرینہ دوستانہ تعلقات ہیں جو باہمی اعتماد اور احترام  پر مبنی ہیں۔ہم امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو برقرار رکھنے اور مضبوط کرنے کے لیے پرعزم ہیں جو بہت  قابل قدر اور باہمی طور پر فائدہ مند ہیں،  ہم امریکہ کی اہمیت سے بخوبی واقف ہیں اور اپنے تعلقات کو عملی اور غیر جذباتی انداز میں آگے بڑھاناچاہتے ہیں۔جہاں تک امت مسلمہ کا تعلق ہے، پاکستان نے ہمیشہ پل کا کردار کرنے اور بات چیت کو فروغ دینے کی کوشش کی ہے،ہم نے بحرین، ایران، ملائیشیا، قطر، سعودی عرب، ترکی اور متحدہ عرب امارات سمیت دیگر ممالک کے ساتھ اپنی روایتی شراکت داری کا دائرہ وسیع اور مزید گہرا کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مئی 2021 میں مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں تشدد میں اضافے کے بعد، پاکستان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا خصوصی اجلاس بلانے کے لیے ترکی، سوڈان اور فلسطین کے ساتھ کاوشیں کیں،  پاکستان نے ہمیشہ 1967 سے پہلے کی سرحدی پوزیشن اور القدس الاشریف بطور دارالحکومت، ایک قابل عمل، آزاد اور متصل فلسطینی ریاست کے لیے اپنی اصولی حمایت کا اعادہ کیا ہے۔ او آئی سی کے بانی رکن کے طور پر، پاکستان تنظیم کے ساتھ فعال طور پر منسلک رہا ہے اور اس کے مختلف اداروں کو مضبوط بنانے کیلئے کوشاں رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے سعودی عرب کے ساتھ گہرے برادرانہ تعلقات ہیں ۔ ہمارے تعلقات روحانی نوعیت سے لے کر اسٹریٹجک اور اقتصادی نوعیت تک پھیلے ہوئے ہیں۔سعودی عرب اور خلیجی ممالک بالخصوص متحدہ عرب امارات میں مقیم ہمارے پاکستانی ہم وطن ریکارڈ ترسیلات زر کے ساتھ پاکستان کی معیشت میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ ایران کے ساتھ ہمارے دوطرفہ تعلقات  تاریخی ، مذہبی ، ثقافتی اور گہری روحانی وابستگی سے جڑے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے مختلف دبائو کے باوجود ایران کے ساتھ مسلسل بہترین تعلقات قائم رکھے ہیں۔پاکستان نے کئی افریقی ممالک کی، ان کی جدوجہد آزادی میں حمایت کی۔پاکستان گذشتہ 7 دہائیوں سے اقوام متحدہ کے امن مشنز کے ذریعے امن و سلامتی کو برقرار رکھنے میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے،اب Engage Africa Initiative کے تحت، ہم اپنے افریقی دوستوں کے ساتھ اقتصادی سفارت کاری اور باہمی تعاون کے لیے نئی راہیں کھول رہے ہیں۔جنوری 2020 میں نیروبی میں پاکستان افریقہ ٹریڈ ڈویلپمنٹ کانفرنس کا انعقاد اس سلسلے میں ایک اہم اقدام تھا۔پاکستان نے افریقہ میں پانچ نئے مشن کھولے،  نائجر اور تنزانیہ میں مشنز کو سفیر کی سطح تک اپ گریڈ کیا، وزیر اعظم عمران خان نے کورونا وبا کے تناظر میں ترقی پذیر ممالک کے لیے قرضوں میں ریلیف کی ضرورت پر زور دیا، ہم موسمیاتی تبدیلی کے خلاف جنگ کے ساتھ ساتھ غیر قانونی مالیاتی بہا کو روکنے کی کوششوں میں پیش پیش ہیں۔پاکستان اسلامو فوبیا کی بڑھتی ہوئی لہر کا مقابلہ کرنے اور اس کا مقابلہ کرنے اور اس کے خلاف سب سے زیادہ آواز اٹھانے والا ملک ہے۔پاکستان نے اس مسئلے کو مختلف اعلی سطح کے پلیٹ فارمز پر بھرپور انداز میں اٹھایا ۔ہم اقوام متحدہ کے کثیرالجہتی نظام کو آگے بڑھانے اور اصلاحات کے ضمن میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں،وزیر اعظم عمران خان کے ویژن کے مطابق، ہم اوورسیز پاکستانیوں کی فلاح و بہبود کیلئے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات اٹھا رہے ہیں ۔ایف ایم پورٹل کو اس ماہ وسعت دی گئی ہے تاکہ پاکستانیوں کی سہولت اور مدد کی جا سکے اور بیرون ملک مقیم پاکستانی مشنز کی خدمات کی فراہمی کو بہتر بنایا جا سکے۔ہم قونصلر طریقہ کار کو بھی آسان بنانے کیلئے کوششیں کر رہے ہیں۔وزیر خارجہ نے اس موقع پر نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں زیر تربیت افسران کے سوالات کے جوابات بھی دیے اور ان کی علمی جستجو کو سراہا۔