کراچی ( ویب نیوز)
وزیراعظم عمران خان نے کراچی میں گرین لائن بس ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم (بی آر ٹی ایس)منصوبے کا افتتاح کردیا۔ جمعہ کو کراچی میں گرین لائن بس منصوبے کا افتتاح کرتے ہوئے وزیر اعظم کہا کہ کوئی بھی جدید شہر جدید ٹرانسپورٹ کے بغیر نہیں چل سکتا اور اگر آپ چین کے جدید شہر دیکھیں تو وہ شہر بے انتہا آبادی کے باوجود اس لیے کامیابی سے چلتے ہیں کیونکہ وہاں جدید ٹرانسپورٹ کا نظام ہے۔انہوں نے کہا کہ کراچی پاکستان کی ترقی کا انجن ہے، کراچی جب خوشحال ہوتا ہے تو پاکستان خوشحال ہوتا ہے، ہر ملک میں ایسا شہر ہوتا ہے جو سارے ملک کو چلاتا ہے جیسے لندن برطانیہ کو چلاتا ہے، لندن میں خوشحالی آتی ہے تو پورے برطانیہ پر اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں جبکہ نیویارک کے امریکا پر بہت بڑے اثرات مرتب ہوتے ہیں، اسی طرح پیرس کے فرانس پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ کراچی کو فنکشنل اور کامیاب کرنے کا مطلب یہی ہے کہ ہم پاکستان کی مدد کررہے ہیں، ٹرانسپورٹ نظام کسی بھی شہر کو جدید بنانے میں پہلا قدم ہوتا ہے اور اتنی حکومتیں آنے کے باوجود سب سے زیادہ ریونیو دینے والے شہر کے ٹرانسپورٹ کے نظام پر کسی نے بھی توجہ نہیں دی اور گرین لائن اس سلسلے میں پہلا قدم ہے۔عمران خان نے کہا کہ میں 50سال سے کراچی کو دیکھ رہا ہوں، ہم نے اس شہر کو تبدیل ہوتے دیکھا ہے، یہ روشنیوں کا شہر ہوتا تھا لیکن ہم نے آہستہ آہستہ اس شہر کو کھنڈر بنتے دیکھا کیونکہ کراچی کے مینجمنٹ سسٹم پر کبھی زور نہیں دیا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ ایران پر عالمی پابندیوں کے باوجود تہران ایک جدید شہر نظر آتا ہے کیونکہ اس شہر کی مینجمنٹ جدید ہے، اس کی وہی مینجمنٹ وہی ہے جو لندن، پیرس یا نیویارک کی ہے، ان شہروں کی مینجمنٹ ایک ملک کی طرح ہے جو پانی، ٹرانسپورٹ اور سیوریج کے نظام سمیت شہر کو تمام سہولتیں خود فراہم کرتا ہے، پیسہ بھی وہ خود اکٹھا کرتا ہے، خرچ بھی وہ خود کرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ تہران 50کروڑ ڈالر سے زائد پیسہ اکٹھا کرتا ہے اور اسی وجہ سے وہ عالمی پابندیوں کے باوجود جدید شہر ہے لیکن اس کی نسبت کراچی میں 30کروڑ ڈالر بھی اکٹھے نہیں ہوتے، جب تک کراچی کا مینجمنٹ سسٹم ٹھیک نہیں ہو گا، اس وقت تک یہ اس طرح کا جدید شہر نہیں بن سکے گا جیسا ہم اسے بنانا چاہتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اسی لیے بلدیاتی الیکشن کراچی کے لیے ضروری ہیں تاکہ اس شہر کو خودمختاری دی جائے، اگر لاہور کی طرز پر کراچی میں بلدیاتی الیکشن ہو تو اس شہر کا میئر شہر کو اسی طرح چلائے گا جیسے کوئی جدید شہر چلتا ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ کراچی ٹرانسفارمیشن پلان میں ہم نے جو وعدے کیے تھے وہ سب چل رہے ہیں، نالوں کی صفائی اور فریٹ کوریڈور بہت ضروری ہے لیکن سب سے زیادہ خوشی کے۔فور منصوبے کی ہے تاکہ کراچی کا پانی کا مسئلہ حل کیا جا سکے۔انہوں نے کہا کہ اگلے مہینے کے۔فور منصوبے کا سنگ بنیاد رکھ دیا جائے گا اور 14 سے 15 مہینے میں یہ منصوبہ مکمل ہو جائے گا، اس طرح 2023 کے اگست یا ستمبر تک کراچی کو اس منصوبے کے تحت پانی پہنچا دیا جائے گا۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ہم نے صوبہ خیبر پختونخوا میں تمام خاندانوں کو ہیلتھ انشورنس دی جس کے تحت ایک خاندان 10لاکھ روپے کا علاج کسی بھی ہسپتال میں جا کر کرا سکتا ہے اور پنجاب میں جنوری سے مارچ تک ہر خاندان کے پاس ہیلتھ انشورنس آ جائے گی۔عمران خان نے کہا کہ بلوچستان بھی ہیلتھ کارڈ کے تیار ہو جائے گا جبکہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی ہیلتھ انشورنس لائی جائے گی لہذا سندھ حکومت کو بھی چاہیے کہ دیگر صوبوں کی طرح وہ بھی اپنے عوام کو صحت کی سہولت فراہم کریں۔انہوں نے بنڈل آئی لینڈ کے حوالے سے بھی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس سے سب سے زیادہ سندھ کا فائدہ ہے اور وہاں کے عوام کو سب سے زیادہ نوکریاں ملیں گی، ایک جدید شہر بنے گا کیونکہ ہمارے شہر پھیلتے جا رہے ہیں اور جتنے شہر پھیلتے جائیں گے، اس کا سیوریج وغیرہ کا نظام فراہم کرنا وہاں اتنا ہی مشکل ہے، اس لیے ضروری ہے کہ ایک دبئی کی طرز پر جدید شہر بنے۔انہوں نے کہا کہ میں سندھ حکومت سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس منصوبے کی اجازت دیں کیونکہ اس سے سارا فائدہ سندھ کو ہے، وفاقی حکومت کو تو صرف زرمبادلہ کا فائدہ پہنچے گا جس سے ملک کا بھی فائدہ ہے لہذا یہ انتہائی ضروری ہے کہ صوبائی حکومت ہیلتھ کارڈ اور بنڈل آئی لینڈ جیسے منصوبوں میں شریک ہو۔گرین لائن منصوبے کے افتتاح کے موقع پر وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر، وزیر اطلاعات فواد چوہدری اور گورنر سندھ عمران اسمعیل وزیر اعظم کے ہمراہ تھے۔وفاقی وزیر اسد عمر نے عمران خان کو منصوبے کے حوالے سے بریفنگ دی اور انہیں سہولیات کا معائنہ کرایا۔دفتر وزیراعظم سے جاری بیان میں کہا گیا کہ 35.5 ارب روپے کی خطیر رقم سے مکمل ہونے والا یہ منصوبہ وفاقی حکومت کی جانب سے سندھ کے عوام خصوصا اہلیان کراچی کے لیے ایک تحفہ ہے۔گرین لائن منصوبے کی 40 بسوں کی پہلی کھیپ 19 ستمبر کو کراچی پہنچی تھی۔بیان کے مطابق گرین لائن بس منصوبہ کراچی کے مغربی اور وسطی اضلاع کیایک لاکھ 35 ہزار مسافروں کو روزانہ سفر کرنے کے لیے جدید ترین سفری سہولت فراہم کرے گا، جس سے ان کی سینٹرل بزنس ڈسٹرکٹ (سی بی ڈی)تک رسائی آسان اور محفوظ بن سکے گی۔اس منصوبے کو وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کی خصوصی دلچسپی پر وفاقی وزارت منصوبہ بندی، ترقی اور خصوصی اقدامات نے سندھ انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ کمپنی (ایس آئی ڈی سی ایل )کے ذریعے تعمیر کروایا ہے۔گرین لائن بس ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم (بی آر ٹی ایس) منصوبے میں 21 اسٹیشنز، ٹکٹنگ رومز، برقی زینے اور سیڑھیاں شامل ہیں،جہاں بجلی کی بلا تعطل فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے بیک اپ جنریٹرزکی سہولت موجود ہے۔یاد رہے کہ کراچی میں وفاقی حکومت کے 16.85 ارب روپے کے بس منصوبے کا سنگ بنیاد سابق وزیراعظم نواز شریف نے فروری 2016 میں رکھا تھا۔جس کے بعد منصوبے کو مزید وسیع کرتے ہوئے 10 کلومیٹر کا اضافہ کردیا گیا تھا اور لاگت کا تخمینہ 24 ارب روپے تک لگایا گیا تھا۔ابتدائی طور پر اس منصوبے کو 2017 کے آخر تک مکمل ہونا تھا لیکن نئی ڈیڈ لائنز دی جاتی رہیں، منصوبے کے آغاز سے روڈ کے دونوں اطراف رکاٹوں کے باعث شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔اسی طرح دکانداروں اور کاروبار افراد کو بھی منصوبے میں تاخیر کے باعث مشکلات کا سامنا تھا۔پاکستان تحریک انصاف ( کی مرکز میں حکومت آنے کے بعد یہ منصوبے طوالت اختیار کرگیا تھا تاہم 24 اکتوبر کو گرین لائن منصوبے کی 40 بسوں کی دوسری اور آخری کھیپ کراچی پہنچ گئی تھی۔