قومی اسمبلی’مالیاتی ضمنی ، اسٹیٹ بینک ترمیمی بلز پیش، اپوزیشن کا شدید احتجاج ، اسپیکر ڈائس کا گھیرا ئو،بل کی کاپیاں پھاڑ دیں

ایجنڈے میں مدت ختم ہونے کے بعد آرڈیننس لائے جارہے ہیں، ایوان میں نئی روایات ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے،نوید قمر

اسپیکر ڈائس کے سامنے شگفتہ جمانی اور حکومتی رکن غزالہ سیفی میں ہاتھا پائی بھی ہوئی جس میں غزالہ سیفی کی انگلی فریکچر ہوگئی

الیکشن تیسری ترمیم کے آرڈیننس،ٹیکس قوانین تیسری ترمیم کے آرڈیننس میں 120روز توسیع سمیت مختلف قرارداد یں منظور

اپوزیشن ارکان نے برقی توانائی پیداوار کے حوالے سے آرڈیننس کی مدت میں توسیع کی تحریک پر ووٹنگ کو بھی چیلنج کردیا

اسپیکر نے باقاعدہ ووٹنگ کا حکم دیا، اپوزیشن کے صرف 3 ارکان مخالفت میں کھڑے ہوئے، حکومت کی جانب بل کے حق میں 145 ووٹ دیئے گئے

خدا کے لیے عوام پر رحم کریں، پاکستان کو نہ بیچیں، ملک کی خود مختاری کو ختم نہ کریں، جو ملک معاشی طور پر غلام ہوجاتا ہے، وہ کالونی بن جاتا ہے،خواجہ آصف

اپوزیشن اپنے بندوں کوکرسی پرکھڑا نہیں کرسکی، حکومت کیا گرائے گی: اسد عمر،کیسی قانون سازی ہے اپوزیشن کی کوئی بات سننے کو تیارنہیں: راجہ پرویز اشرف

اہم اجلاس میں وزیراعظم عمران خان، قائد حزب اختلاف شہباز شریف، بلاول بھٹو، آصف زرداری اور اختر مینگل شریک نہیں ہوئے

اسلام آباد(ویب  نیوز)

حکومت نے قومی اسمبلی میں آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے 360ارب روپے کا مالیاتی ضمنی بل اور اسٹیٹ بینک ترمیمی بل پیش کردیا،جس دوران اپوزیشن جماعتوں کے ارکان نے شدید ہنگامہ آرائی کی۔ اپوزیشن نے احتجاجاً بل کی کاپیاں پھاڑ دیں اور اسپیکر ڈائس کا گھیرا ئوکرلیا،اسپیکر ڈائس کے سامنے شگفتہ جمانی اور حکومتی رکن غزالہ سیفی میں ہاتھا پائی بھی ہوئی جس میں غزالہ سیفی کی انگلی فریکچر ہوگئی ۔جمعرات کو اسپیکرقومی اسمبلی اسد قیصر کی زیر صدرت قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا، قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیراعظم عمران خان کے مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان نے ایوان میں رولز معطل کرنے کی قرارداد پیش کردی۔رولز معطل کرنے کی قرارداد منظور ہوئی جس کے بعد وزیر خزانہ شوکت ترین نے ضمنی مالیاتی بل 2021(منی بجٹ)قومی اسمبلی میں پیش کردیا۔ اپوزیشن کی جانب سے بل کی ووٹنگ چیلنج کی گئی اور شدید احتجاج کیا گیا اور حکومت کیخلاف نعرے لگائے گئے جبکہ بجٹ نا منظور نا منظور کے نعرے بھی لگائے۔اس موقع پر پاکستان پیپلزپارٹی کے رکن نوید قمر نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ آج ایجنڈے میں مدت ختم ہونے کے بعد آرڈیننس لائے جارہے ہیں، اس ایوان میں نئی روایات ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مشیر پارلیمانی امور بابر اعوان نے جواب دیا کہ قومی اسمبلی میں مدت سے پہلے آرڈیننس پیش ہوتے ہیں، اس حوالے سے رولز کے مطابق کارروائی چلائی جارہی ہے۔قومی اسمبلی کے اہم اجلاس میں وزیراعظم عمران خان، قائد حزب اختلاف شہباز شریف، چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو، شریک چیئرمین پی پی پی آصف زرداری اور اختر مینگل شریک نہیں ہوئے۔اجلاس کے دوران حکومت نے ایوان سے مختلف قراردادیں منظور کرلیں جن میں الیکشن تیسری ترمیم کے آرڈیننس میں 120دن کی توسیع کی قرارداد،سرکاری جائیدادوں پر قائم تجاوزات کے خاتمے کے آرڈیننس میں 120دن توسیع کی قرارداد ،پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ اتھارٹی ترمیمی آرڈیننس میں 120 دن کی توسیع کی قرارداد،کونسل برائے تحقیق آبی وسائل ترمیمی آرڈیننس میں 120روز توسیع کی قرارداد ،پاکستان فوڈ سیکورٹی فلو اینڈ انفارمیشن آرڈیننس میں 120روز توسیع کی قرارداد،ٹیکس قوانین تیسری ترمیم کے آرڈیننس میں 120روز توسیع کی قرارداد اوربرقی توانائی کی پیداوار اور تقسیم سے متعلق آرڈیننس میں توسیع کی قرارداد منظور کی گئی۔ایوان میں اسٹیٹ بینک کی خودمختاری سے متعلق اسٹیٹ بینک ایکٹ ترمیمی بل قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا اور بل متعلقہ کمیٹی کے سپرد کردیا گیا۔ اپوزیشن ارکان نے برقی توانائی پیداوار کے حوالے سے آرڈیننس کی مدت میں توسیع کی تحریک پر ووٹنگ کو بھی چیلنج کردیا۔ جس پر اسپیکر قومی اسمبلی نے زبانی ووٹنگ کے بجائے باقاعدہ ووٹنگ کا حکم دے دیا، اسپیکر نے قرارداد کے حق ووٹ دینے والوں کو نشستوں پر کھڑے ہونے کا حکم دیا۔ تاہم اس پر قرارداد کے حق میں ووٹنگ کے بعد مخالفت کرنے والوں کی ووٹنگ ہوئی تو اپوزیشن کی طرف سے صرف تین ارکان مخالفت میں کھڑے ہوئے، اپوزیشن ارکان کی اکثریت گنتی میں کھڑی نہیں ہوئی۔ حکومت کی جانب بل کے حق میں 145 ووٹ دیئے گئے۔ اس دوران اظہار خیال کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ(ن)کے رکن اسمبلی خواجہ آصف نے کہا کہ آپ نے اپوزیشن اور پاکستان کے عوام کی زبان بندی کرکے پاکستان کی معاشی خودمختاری بیچ رہے ہیں۔ سپیکر صاحب یہ دن اس پارلیمنٹ اور آپ کی کرسی کے لیے ہماری تاریخ میں اس دن کی حیثیت سے جائے گا جس پر قوم شرمسار ہوگی کہ پارلیمنٹ کس طرح کا کام کر رہی ہے۔ آپ وہ آرڈیننس بحال کر رہے ہیں جو ختم ہوچکے تھے جو آئین کے خلاف ہے، سٹیٹ بینک کا کنٹرول آئی ایم ایف کو دے رہے ہیں، آپ 1200 یا 100ارب ارب ٹیکس واپس لے کر استثنیٰ دے کر عوام کے اوپر مہنگائی کا پہاڑ توڑ رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ خدا کے لیے پاکستان کے عوام پر رحم کریں، پاکستان کو نہ بیچیں، آپ نے تین سال یہاں لوٹ مار کی اجازت دی، دوائیوں، گندم اور چینی چوری کرنے کے اجازت نہ دیتے تو یہ نئے ٹیکس لگانے کی ضرورت نہیں پڑتی اور نیا بجٹ بنانے کی ضرورت نہ پڑتی۔ پاکستان کی خود مختاری کو ختم نہ کریں، جو ملک معاشی طور پر غلام ہوجاتا ہے، وہ کالونی بن جاتا ہے وہ سرحدی قبضے سے زیادہ ظلم ہے، آپ ہمیں معاشی طور پر غلام کر رہے ہیں، کیا یہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت آگئی ہے۔خواجہ آصف کی تقریر کے بعد وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا کہ یہ تکلیف کیوں ہورہی ہے، کچھ ہفتوں سے طوفان کھڑا کیا گیا عمران خان گیا، انہوں نے عوام کو متحرک کرنا تھا اپنے بندوں کوکرسی پرکھڑا نہیں کرسکے، ان کے صرف تین لوگ کرسی پر کھڑے ہوئے، یہ حکومت کیا گرائیں گے۔انہوں نے مزید کہا کہ ان کو شرم نہیں آتی، ان کے وزیردفاع کوئی مالی، کوئی دھوبی، نائی کے اقامے پر نوکریاں کر رہے تھے اور ہمیں قومی سلامتی کا درس دے رہے ہیں، مودی کو شادی پر بلایا، یہ کس منہ سے قومی سلامتی کی بات کرتے ہیں، ہم نے بھارتی پائلٹ کو ذلیل کر کے چائے پلا کر بھیجا، شرم کی بات ہوتی ہے یہ پاکستان کے سرنڈر کی بات کرتے ہیں، کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے۔وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس آنے پر ایک صاحب لندن سے بھاگے ہوئے جاب ایپلی کیشن اپ ڈیٹ کر کے آئے، اسد عمر نے کہا کہ لیگی صدر شہباز شریف کہتے تھے کورونا لاک ڈائون لگا دیں، ملکی کورونا پالیسی کی عالمی اداروں نے تعریف کی، 86 فیصد پاکستانی عوام نے کہا حکومت نے کورونا کے دوران بہترین پالیسی اپنائی۔اسدعمرنے اپوزیشن کوایکسپائرسیاست دان قراردیتے ہوئے کہا کہ ایکسپائرآرڈیننس کی بڑی ٹیکنکل بات کی گئی، ایکسپائرسیاستدان کی تقریریں سننا ہم پرلازم ہے یا نہیں۔اجلاس کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ جس عقل مند نے آپ کو مشورہ دیا اس نے غیرقانونی کام کروایا، وہ چیزیں نہیں دہرانا چاہتا جو لیگی رہنما خواجہ آصف نے کیں، کل ڈپٹی سپیکر کو منی بجٹ کے حوالے سے چہ میگوئیوں بارے بتایا تھا، ڈپٹی سپیکرنے کہا کوئی منی بجٹ پیش نہیں کیا جارہا، آج بل آیا ہے تو آپ تشریف لے آئے۔ان کا کہنا تھا کہ قانون سازی کوئی پی ٹی آئی، پیپلزپارٹی، جے یوآئی،(ن)لیگ نہیں 22 کروڑعوام کے لیے ہو رہی ہے، یہ کیسی قانون سازی ہے اپوزیشن کی کوئی بات سننے کو تیارنہیں، خواجہ آصف کے سوال پر اسدعمرایوان کو مطمئن نہیں کرسکے۔ پاکستان کے بائیس کروڑعوام آپ کوالیکشن میں تارے دکھائیں گے۔سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ حکومت نے سپیکرصاحب کو بھی مصیبت میں ڈال دیا ہے، وزرا کے پاس تجربہ نہیں ان کے پاس پارلیمانی دانش نہیں، یہ طوطے کی طرح بل پڑھ دیتے ،سمجھ نہیں آتی، ان کولگ رہا ہے شائد اب ان کے ساتھ نہیں تو کیا عوام سے انتقام لینا چاہتے ہیں، وزرا کو مہنگائی کا کہتے ہیں تو کہتے ہیں اپوزیشن کی وجہ سے ہے، ساڑھے تین سال الزامات لگا کرضائع کردیئے گئے۔

قومی اسمبلی میں حکومت کی جانب سے ضمنی مالیاتی بل 2021 پیش کردیا گیا، اس دوران اپوزیشن ارکان نے سخت احتجاج کیا۔بل پیش کیے جانے کے دوران اپوزیشن جماعتوں کے ارکان اپنی نشستوں سے اٹھ کر اسپیکر ڈائس کے قریب جمع ہوگئے اور شدید احتجاج کیا۔اپوزیشن ارکان نے مہنگائی کیخلاف نعروں پر مبنی پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے۔ اسی ہنگامہ آرائی کے دوران قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی خاتون رکن قومی اسمبلی شگفتہ جمانی نے حکومتی جماعت تحریک انصاف کی رکن غزالہ سیفی کو تھپڑ دے مارا۔

#/S