Federal Minister for Information and Broadcasting, Chaudhary Fawad Hussain, briefing media persons, about the decisions taken in Federal Cabinet Meeting in Islamabad on December, 28. 2021.

مہنگائی کی وجہ سے عمران خان کی مقبولیت میں کمی کا تاثر غلط ہے، فواد چوہدری

آمدن کم اور اخراجات زیادہ ہوں تو مہنگائی زیادہ لگتی ہے، نوازشریف کا مسئلہ مہنگائی سے جڑا ہوا ہے

آئندہ 5 سال بھی تحریک انصاف کے ہی ہوں گے، ہم دکھائیں گے کہ الیکشن کس طرح لڑا جاتا ہے

ہماری اخلاقیات اس حدتک گرچکی ہیں کہ پاکستان کو لوٹ کر باہر بھاگنے والے میڈیا پر آکر معیشت پر ہمیں لیکچر دیتے ہیں

صحت کارڈ سے بڑا فائدہ سفید پوش طبقے کو ہو گا، سب سے زیادہ مسائل مڈل کلاس کے ہیں لیکن کسی کے آگے ہاتھ بھی نہیں پھیلا سکتے

صحت کارڈ سے صحت کے مسائل حل ہوں گے جس سے ہر خاندان 10 لاکھ روپے تک کا علاج کروا سکے گا

لاہور کے بعد اسلام آباد اور پھر پاکستان بھر میں موجود پریس کلبز کے صحافیوں کو بھی یہ سہولت دینے جا رہے ہیں

 وفاقی وزیر اطلاعات کا لاہور پریس کلب میں صحافیوں کو ہیلتھ کارڈ تقسیم کرنے کی تقریب سے خطاب

لاہور (ویب  نیوز) وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ یہ تاثر غلط ہے کہ مہنگائی کی وجہ سے عمران خان کی مقبولیت میں کمی آئی ہے، عمران خان کا ووٹ بینک ملک کے ہر حصے میں موجود ہے اور ان کے علاوہ کوئی قومی لیڈر موجود ہی نہیں ہے، سب سے زیادہ مشکل میں تنخواہ دار طبقہ ہے جن کی تنخواہیں نہیں بڑھائی جاتیں، آمدن کم اور اخراجات زیادہ ہوں تو مہنگائی زیادہ لگتی ہے، نوازشریف کا مسئلہ مہنگائی سے جڑا ہوا ہے ، ہماری اخلاقیات اس حدتک گرچکی ہیں کہ پاکستان کو لوٹ کر باہر بھاگنے والے میڈیا پر آکر معیشت پر ہمیں لیکچر دیتے ہیں ،صحت کارڈ ایک منفرد پروگرام ہے، اس سے سب سے بڑا فائدہ سفید پوش طبقے کو ہو گا، سب سے زیادہ مسائل مڈل کلاس کے ہیں، وہ اچھے علاج بھی چاہتے ہیں لیکن کسی کے آگے ہاتھ بھی نہیں پھیلا سکتے۔ لاہور پریس کلب میں صحافیوں کو ہیلتھ کارڈ تقسیم کرنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فوادچوہدری نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی)کے علاوہ اور کوئی پارٹی اس پوزیشن میں ہی نہیں ہے کہ آئندہ انتخابات میں اتنی بڑی تعداد میں لوگ کھڑے کرسکے، پیپلز پارٹی صرف اندرون سندھ کی جماعت ہے، مسلم لیگ(ن)صرف سینٹرل پنجاب کی پارٹی ہے اور جمعیت علمائے اسلام(ف) صرف خیبر پختونخوا کے چند علاقوں تک محدود ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ الیکشن میں ہم دکھائیں گے کہ الیکشن کس طرح لڑا جاتا ہے، 2023 کے بعد اگلے 5 سال بھی ہم کہیں نہیں جارہے۔ ا نہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی نے 2011 سے 2017 تک گیس اسکیموں کی توسیع روک کر درست فیصلہ کیا تھا کیونکہ ملک میں گیس کم ہوتی جارہی تھی، جب پیپلزپارٹی کی حکومت گئی تب گیس کے اوپر ایک روپیہ بھی گردشی قرض نہیں تھا لیکن شاہد خاقان عباسی گیس پر 157ارب روپے کا گردشی قرض چھوڑ کر گئے تھے، جو اسکیمیں انہوں نے شروع کیں انہیں مکمل کرنے کے لیے ہرسال 90 ارب روپے چاہئیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہاکہ نواز شریف کا مسئلہ نہیں چھوڑ سکتے کیونکہ ان کا مسئلہ مہنگائی سے جڑا ہوا ہے، 1947 سے 2008 تک 6 ہزار ٹریلین کا قرضہ لیا گیا، جبکہ 2008 سے 2018 تک 23 ٹریلین قرضہ لیا گیا، پانچ سالوں میں 55 ارب ڈالر قرضہ واپس کرنا ہے، تحریک انصاف حکومت اب تک 32 ارب ڈالر قرضہ واپس کرچکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریٹنگ کے چکر میں ہماری گفتگو کا معیار گرتا چلا جارہا ہے، میڈیا پر گیس بحران کی وجوہات کو موضوع بنانے کے بجائے حماد اظہر اور پرویز خٹک کے درمیان تلخ کلامی پر بحث کی جانے لگی جو ہوئی ہی نہیں تھی۔ انہوں نے بتایا کہ جنوبی بلوچستان کے پیکج کے لیے 700ارب روپے خرچ کررہے ہیں اور اگلے 6 مہینوں میں گوادر کے اہم ترین مسئلے حل ہوجائیں گے۔ فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ صحت کارڈ سے صحت کے مسائل حل ہوں گے جس سے ہر خاندان 10 لاکھ روپے تک کا علاج کروا سکے گا، نجی ہسپتال جائیں تو علاج کا خرچہ حکومت اٹھائے گی، حادثے میں زخمی شخص کا بھی صحت کارڈ کے تحت فوری علاج ہو سکے گا۔ انہوں نے کہا کہ لاہور کے بعد اسلام آباد اور پھر پاکستان بھر میں موجود پریس کلبز کے صحافیوں کو یہ سہولت دینے جا رہے ہیں جس سے وہ اور ان کی فیمیلیز 10لاکھ روپے تک کا علاج کروا سکیں گی۔ انہوں نے کہا کہ صحت کارڈ ایک منفرد پروگرام ہے، اس منصوبے سے سب سے بڑا فائدہ سفید پوش طبقے کو ہو گا، سب سے زیادہ مسائل مڈل کلاس کے ہیں، وہ اچھے علاج بھی چاہتے ہیں لیکن کسی کے آگے ہاتھ بھی نہیں پھیلا سکتے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت سے بھی درخواست ہے کہ اس پروگرام میں حصہ ڈالیں۔ انہوں نے بتایا کہ صرف لاہور شہر میں اب تک 5 ہزار 669 لوگ صحت کارڈ سے مستفید ہوچکے ہیں۔وقت کے ساتھ صحت کارڈ کی سہولیات میں اضافہ ہوتا جائیگا۔ وفاقی وزیر نے بتایا کہ پرائم منسٹر ہائوسنگ پروگرام میں صحافیوں کو شامل کرالیا ہے، تمام صحافی اس ہا ئوسنگ اسکیم کا فائدہ اٹھا سکیں گے۔ فواد چوہدری نے کہا کہ پانچ مرلہ کے گھر کے لیے 30 لاکھ قرضہ دیا جائے گا جس میں سے تین لاکھ روپیہ حکومت کی طرف سے ہوگا اور 27 لاکھ کا قرضہ کم ترین سود پر ہوگا، ایک کنال کے گھروں کے لیے بھی سستے منصوبے متعارف کروائے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں 2018 سے یہ بات کررہا ہوں کی پرنٹ میڈیا کو ڈیجیٹلائزیشن کی طرف آنا پڑے گا، جیسے جسے انٹرنیٹ کی اسپیڈ تیز ہوتی جائے گی وہ ریگولر میڈیا کی جگہ لے لے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ تین سالوں میں 12 ارب کی ایڈورٹائزمنٹ ریگولر میڈیا سے ڈیجیٹل میڈیا کی طرف شفٹ ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 3 سے 5 سالوں میں انٹرنیٹ کی اسپیڈ 4 جی سے 5 جی پر چلی جائے گی تو ہمیں ایک اور بڑے انقلاب کا سامنا ہوگا، فائیو جی خود بھی اتنا ہی بڑا انقلاب ہوگا جتنا بڑا خود انٹرنیٹ تھا، ہمارے موجودہ میڈیا کو اس انقلاب کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ وزرات انفارمیشن ٹیکنالوجی نے کراچی پریس کلب میں ڈیجیٹل میڈیا لیب بناکر دی ہے، انشا اللہ لاہور پریس کلب میں بھی ڈیجیٹل میڈیا لیب بنائیں گے جہاں صحافیوں کو اپنے یوٹیوب چینلز کے لیے ایڈیٹنگ اور ٹریننگ کی سہولت دستیاب ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ اس سال پاکستان کی سو بڑی کمپنیوں نے اسٹاک ایکسچینج میں 929 ارب روپے کا منافع کمایا ہے اور ہر میڈیا ہائوس 35 سے 40 فیصد منافع میں گیا ہے، میڈیا مالکان کو کہتا رہتا ہوں کہ ورکنگ جرنلسٹس کا بھی کچھ خیال کریں، کل ایک کیمرہ مین نے بتایا کہ ان کی 7سال سے تنخواہ نہیں بڑھی، ورکنگ جرنلسٹ کا خوشحال ہونا بڑا ضروری ہے۔ وزیر اطلاعات نے مزید بتایا کہ زراعت میں 11 سو ارب کی اضافی آمدن ہوئی جس سے گروتھ سائیکل بڑھا ہے اور کسان منافع میں گیا ہے، ہماری گروتھ 5 فیصد پر ہورہی ہے لیکن سب سے زیادہ مشکل میں ہمارا تنخواہ دار طبقہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اب اخباروں کے لیے موجود امپلی منٹیشن ٹرائیبونل میں الیکٹرانک میڈیا کے ملازمین کو بھی یہ اختیار دے رہی ہے کہ اگر ان کا معاہدہ پورا نہیں کیا جاتا تو وہ بھی عدالت میں اپنا کیس فائل کر سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ صحافی تنظیمیں مالکان کے حقوق کے لیے پارلیمنٹ کے باہر تک پہنچ جاتی ہیں لیکن ورکرز کے حقوق کے لیے آواز نہیں اٹھاتیں، ورکرز کو چاہیے کہ اپنی تنظیموں کا احتساب کریں۔ انہوں نے کہا کہ برطانیہ میں لاک ڈائون کی خلاف ورزی پر بورس جانسن کو وہاں کے میڈیا نے آڑھے ہاتھوں لے لیا اور ان کی کرسی خطرے میں پڑ گئی لیکن پاکستان میں اسحاق ڈار چینلز پر بھی نظر آرہے ہیں اور ان کے کالمز بھی چھپ رہے ہیں۔ ا نہوں نے کہا کہ ہماری اخلاقیات اس حدتک گرچکی ہیں کہ پاکستان کو لوٹ کر باہر بھاگنے والے میڈیا پر آکر معیشت پر ہمیں لیکچر دیتے ہیں اور پوری قوم کو انہیں سننا پڑتا ہے۔

#/S