دوہفتے میں کابینہ اجلاس میں بہت ساری چیزیں ٹھیک ہوجائیں گی

وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ اور امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن کی ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو

کراچی  (ویب ڈیسک)

وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ بلدیاتی قانون پر جماعت اسلامی سے سیاسی ڈائیلاگ کیا، ہم نے معاملے کا سیاسی اور جمہوری حل نکالا۔وزیراعلی سندھ کی سربراہی میں حکومت سندھ کا وفد جماعت اسلامی کے مرکز ادارہ نورحق  پہنچا، اس موقع پر وزیراعلی سندھ نے امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن سے ملاقات کی اور انہیں اس بات سے آگاہ کیا کہ سندھ کابینہ نے جماعت سے معاہدے کے مطابق بلدیاتی قانون میں ترامیم کی منظوری دی ہے۔ صوبائی وزرا ناصر شاہ، سعید غنی، ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضی وہاب اور دیگر بھی اس موقع پر موجود تھے،حکومت سندھ اور جماعت اسلامی کے وفد میں بلدیاتی قانون سے متعلق طے پانے والے معاہدے پر اب تک کی پیشرفت کا جائزہ لیا گیا۔ وزیراعلی سندھ مرادعلی شاہ نے کہا کہ صوبائی کابینہ نے معاہدے کی توثیق کی ہے،دوہفتے میں تمام ضروری ترامیم صوبائی کابینہ سے منظوری لے کر اسمبلی میں پیش کردینگے،ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو میں مراد علی شاہ نے کہا کہ بلدیاتی قانون پر جماعت اسلامی سے سیاسی ڈائیلاگ کیا، گورنر سندھ کی جانب سے جو اعتراضات تھے ان پر ترامیم بھی کیں،وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ نے بلدیاتی قانون منظور کروانے میں جلد بازی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے دیے گئے وقت کی وجہ سے ہم نے کچھ جلدی ضرور کی۔۔وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ نے کہا کہ بلدیاتی حکومتوں ایکٹ سندھ اسمبلی نے منظور کیا تھا، اس سے پہلے جب پچھلی بلدیاتی حکومت کی مدت ختم ہوئی تھی تو ہمیں 2013 سے اس وقت تک کے تجربے سے کچھ ترامیم کرنی تھیں۔ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں وزیربلدیات کو ذمہ داری دی گئی تھی اور انہوں نے سیاسی جماعتیں اور سول سوسائٹی سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز سے بات چیت کی تھی تاکہ ان اداروں کو زیادہ اختیارات دے سکیں۔انہوں نے کہا کہ ہمیں صوبے کی مردم شماری پر بہت بڑا اعتراض تھا اور اپریل 2021 میں سی سی آئی نے اس مردم شماری کی منظوری دی تھی لیکن بحیثیت سندھ نمائندے کے میں اختلاف کرتے ہوئے اختلافی نوٹ لکھا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ صوبائی کابینہ نے فیصلہ کیا تھا کہ سی سی آئی کے فیصلے کے خلاف پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں درخواست دیں گے جو ہمارا آئینی حق تھا کہ ہمارے صوبے میں آبادی کم ظاہر کی گئی ہے۔وزیراعلی سندھ کا کہنا تھا کہ ہم نے اپریل میں درخواست دی اور 7 مہینے بعد 17 نومبر کو جب مشترکہ اجلاس میں درخواست رکھی گئی تو 15 سے 20 منٹ کی بحث کرکے ہمارا اعتراض مسترد کردیا۔ان کا کہنا تھا کہ 21 نومبر کو الیکشن کمیشن نے ہمیں خط لکھا کہ 30 نومبر تک اپنا قانون بنائیں کیونکہ یکم دسمبر سے حلقہ بندیاں شروع کریں گے تو ہمارے پاس 9 دن تھے، اس وجہ سے ہم نے کچھ جلدی ضرور کی۔مراد علی شاہ نے کہا کہ ٹان سمیت دیگر جو تبدیلیاں کی تھیں، اس پر صلاح مشورہ کیا تھا اور اس کے بعد ہم نے قانون لایا تھا لیکن سندھ واحد صوبہ ہے جس میں قانون اسمبلی میں لا کر منظور کیا جبکہ پنجاب میں آرڈیننس کے تحت چل رہا ہے اور اسلام آباد کی مقامی حکومت کا بھی تاحال آرڈیننس ہے۔انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں بڑی نرالی بات ہوئی ہے کیونکہ جو قانون منظور ہوا ہے وہ کچھ اور کہتا ہے، اس کے بعد عدالت نے کچھ تبدیلیاں کیں تو وہ اسمبلی میں گئے بغیر سپریم کورٹ میں اپیل پر گئے ہوئے ہیں جبکہ جو انتخابات کروائے ہیں وہ ہائی کورٹ کے احکامات پر کروائے ہیں۔وزیراعلی سندھ نے کہا کہ سندھ واحد صوبہ تھا جہاں یہ معاملہ اسمبلی میں گیا اور اس وقت بھی ہم نے کہا تھا کہ اس میں ترامیم کے لیے تیار ہیں کیونکہ ہمیں پتہ ہے کہ ہم نے جلدی میں کیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ گورنر سندھ نے اعتراضات لگا کر واپس بھیج دیا تھا اور ہمیں پتہ ہے کہ کافی سیاسی جماعتوں اور خاص طور پر اپنے اتحادیوں کو بلا کر ہمیں قانون واپس کیا اور پھر ہم نے دوبارہ قانون اسمبلی میں لایا اور اس وقت کہا تھا کہ جن کو ترامیم دینی ہیں وہ دیں لیکن اسمبلی میں اس وقت وہ ماحول نہیں تھا۔انہوں نے کہا کہ ہم نے گورنر صاحب نے جو باتیں کی تھیں، اس کو مانتے ہوئے ہم نے ترامیم کیں اور جماعت اسلامی کے کچھ اور مطالبات تھے اور جب دھرنے پر آئے تو ہم نے کہا تھا کہ بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ حافظ نعیم الرحمن اور جماعت اسلامی کا شکرگزار ہوں کہ وہ ہمارے ساتھ بیٹھے اور ایک سیاسی اور جمہوری حل نکالا، جس کے تحت ہم نے تعلیم اور صحت کے ادارے جو بلدیاتی حکومت کے پاس تھے، ان کے بارے میں ہم نے قانون میں کہا تھا کہ وہ ادارے لے لیں۔انہوں نے کہا کہ ہمارا خیال ہے کہ یہ ادارے لے کر ہم بہتری لائیں گے لیکن جماعت اسلامی نے کہا کہ ان اداروں کو یک طرفہ طور پر واپس نہ لیں اور یہ آئین میں گنجائش ہے، آرٹیکل 147 کے تحت صوبہ اگر کوئی ادارہ وفاق کے حوالے کرنا چاہتا ہے تو باہمی رضامندی سے ایسا کرسکتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ واٹربورڈ پر اعتراض تھا لیکن ہمارا خیال تھا کہ واٹر بورڈ کو صوبائی حکومت کی مدد کی ضرورت ہے، مدد کے بغیر بورڈ اپنے پاوں کے بغیر کھڑا نہیں ہوسکتا ہے۔۔انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی کو دھرنے کے پہلے دن ہی کہا تھا کہ ہم بات چیت کے لیے تیار ہیں ،وزیراعلی سندھ نے کہا کہ ایم کیوایم کے دوستوں کو بھی کہا کہ تجاویز دیں، مشاورت کریں گے۔وزیراعلی سندھ کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی کے ساتھ بات چیت پر کسی کواعتراض نہیں ہونا چاہیے،اس موقع پر حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ مطالبہ تھا کہ تمام اداروں ایس بی سی اے، کے ڈی اے، ایم ڈی اے اور ایل ڈی اے میں پوری رکنیت اور بلدیاتی حکومت کا کردار ہونا چاہیے۔امیرجماعت اسلامی کراچی نے کہا کہ یہ بات اسی وقت طے ہوگئی تھی کہ جن چیزوں پر اتفاق ہوگیا تھا، اس کا اعلان کیا گیا اور اقدامات بھی طے ہوگئے اور صوبائی کابینہ نے اس کی منظوری دے دی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ دو ہفتے بعد جب کابینہ کا اجلاس ہوگا تو وہ تمام قواعد اور نوٹیفکیشنز سمیت ساری چیزیں ہوجائیں گی اور اس کے نتیجے میں عوام میں اعتماد آئے گا۔انہوں نے کہا کہ ترمیم بھی اسمبلی میں آنی ہے وہ بھی اسی کابینہ میں پیش کرنے کے لیے طے کیا ہے تو دو ہفتوں میں یہ اجلاس ہوگا تو حتمی طور پر یہ ترمیم بھی آئے گی۔حافظ نعیم الرحمن نے کہاکہ ہم سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں اختیارات کی منتقلی یقینی ہوتی ہیں اور ہم چاہتے ہیں یہ معاہدے میں ہو یا نہ ہو وہ ساری باتیں، جن پر ہم ابھی کھڑے ہیں اور وہ مذاکراتی عمل کا حصہ ہے۔انہوں نے کہا کہ اس سارے عمل کے باعث انتخابات میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے، انتخاب کے ساتھ ساتھ یہ عمل بھی چلے گا تو سب ریلیف ملے گا اور کام آگے بڑھے گا کیونکہ اس وقت شہر اور بلدیاتی اداروں کی حالت اچھی نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ بلدیاتی ادارے قائم ہوں، آئین کے آرٹیکل 32 کے تحت نمائندگی ہو اور اختیارات کی منتقلی ہوجائے تو یہ سب کے لیے اچھا ہے اور خود حکومت کے لیے اچھا ہے۔حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ ہمارے معاہدے کے اندر سب سے اہم بات یہ ہے کہ 2021 میں تعلیم اور صحت سے متعلق جو ادارے صوبائی حکومت میں لیے گئے تھے، اس معاہدے میں جو مرکزی شقوں کو ترمیم کے ذریعے واپس کرنے پر اتفاق کیا ہے جو بڑی کامیابی ہے۔انہوں نے وزیراعلی سندھ کو مخاطب کرکے کہا کہ کراچی کے پانی کا مسئلہ بہت اہم ہے، کراچی کے بہت سارے مسائل بڑے پیمانے پر صوبائی حکومت سے وابستہ ہیں، اس کے لیے ہم آپ سے لڑیں گے، بات بھی کریں گے اور احتجاج بھی کریں گے اور جو ہوسکا کرکے آپ سے منوائیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ سی سی آئی میں مردم شماری کے حوالے سے جماعت اسلامی نے وزیراعلی کے موقف کا ساتھ دیا اور ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے صوبے اور خاص طور پر کراچی کی آبادی کم کی گئی ہے اس کو واپس کروانا ہم سب کا فرض ہے۔حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ کیا وفاق کراچی کو ایک فیصد پانی بھی نہیں دے سکتا ہے، اگر وفاق شہر کو نظرانداز کر رہا ہے تو پھر صوبائی حکومت اس شہر کی ذمہ داری لے اور کوئی ایسا طریقہ بنایا جائے جس کے نتیجے میں 650 ملین گیلن یقینی ہوجائے کیونکہ پانی کا شدید بحران ہے ۔ انہوں نے کہا کہ خوشی ہے کہ ہمارے ساتھ کیے گئے معاہدے کی کابینہ نے منظوری دی۔حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ آرٹیکل 140اے کے تحت اختیارات نچلی سطح پرمنتقل کیے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ 13 سال سے پی ایف سی ایوارڈ نہیں ہوا لیکن اب طے ہوگیا ہے کہ سندھ حکومت پی ایف سی ایوارڈ کرائے گی۔  حافظ نعیم الرحمان کا ذرائع ابلاغ سے بات چیت میں کہنا تھا کہ آبادی کے تناسب سے  یونین کمیٹیوں کو وسائل دینے پراتفاق ہوا ہے، دوہفتے میں کابینہ اجلاس میں بہت ساری چیزیں ٹھیک ہوجائیں گی، سپریم کورٹ فیصلے کا ہم نے خیرمقدم کیا ، انہوں نے کہاکہ اگروفاق ہمیں پانی کے معاملے پراگنور کررہا ہے توصوبائی حکومت معاملہ حل کرے ۔ اس سے قبل سندھ کابینہ نے بلدیاتی ایکٹ پر اپوزیشن جماعتوں سے مذاکرات کیلیے کمیٹی قائم کر دی۔ کابینہ نے بنڈل اور بڈوآئی لینڈ کو محفوظ جنگلات قرار دے دیا جبکہ سب رجسٹرار کو پاکستان اسٹیل کی اراضی منتقل کرنے سے روک دیا۔وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ کی زیر صدارت کابینہ کا اجلاس ہوا، جس میں حکومت نے بلدیاتی ایکٹ پر اپوزیشن جماعتوں سے مذاکرات کیلئے کمیٹی قائم کر دی۔ وزیر بلدیات ناصر شاہ نے لوکل گورنمنٹ قانون کے حوالے سے اپوزیشن جماعتوں سے بات چیت پر کابینہ کو بریفنگ دی۔ ناصر شاہ نے جماعت اسلامی، پاک سرزمین پارٹی اور دیگر جماعتوں سے بات چیت کے حوالے سے کابینہ کو آگاہ کیا۔اجلاس میں اپوزیشن جماعتوں سے متفقہ نکات پر مکمل عملدرآمد کا فیصلہ کر لیا گیا۔ وزیراعلی سندھ نے کہا کہ ناصر شاہ کی جو بات چیت ہوئی ہے، اس کو لاگو کریں گے۔