آپ کا کام بزنس پروموٹ کرنا نہیں، یہ دیکھنا ہے کہ معلومات تک رسائی کے حق کی خلاف ورزی نہ ہو

عدالت کو تاثر مل رہا ہے کہ آپ اس کو بزنس وینچر کی طرح لے رہے ہیں،چیف جسٹس کے ریمارکس

کچھ ٹی وی چینلز میں ورکرز کو تنخواہیں ٹائم پر نہیں دی جا رہیں، قانون موجود ،پیمرعمل نہیں کررہا، حامد میر

 اگر کوئی ایسا نہیں کرتا تو پیمرا ایکشن لے، ان کے لائسنس منسوخ کر دے،چیف جسٹس اطہر من اللہ

 ایک طویل طریقہ کار اختیار کرنے کے بعد لائسنس دیا جاتا ہے،پیمرا حکام ، کیس کی مزید سماعت 5اپریل تک ملتوی

اسلام آباد (ویب ڈیسک)

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے صحافیوں اور میڈیا ورکرز کے قانونی تحفظ کے لیے پی ایف یو جے کی درخواست پر پیمرا سے 5اپریل تک تفصیلی رپورٹ طلب کر لی۔پٹیشنر پی ایف یو جے کی جانب سے رضوان احمد قاضی جبکہ صحافی حامد میرہیں جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے صدر ثاقب بشیر بطور عدالتی معاون پیش ہوئے۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ پیمرا یقینی بنائے کہ لائسنس یافتہ چینل سیلف سینسر شپ نہ کریں، مفادات کے ٹکرا ئوسے بچائو اور معلومات تک رسائی کو یقینی بنانے کے لیے کیا اقدامات کیے؟ جو ادارے تنخواہوں کی بروقت ادائیگی میں ناکام رہے اس پر پیمرا نے کیا ایکشن لیا؟ تنخواہوں کی بروقت ادائیگی پر کیا کارروائی ہو سکتی ہے؟ کون سے ادارے ملازمین کو بروقت تنخواہوں کی ادائیگی نہیں کر رہے، اگر ایک انڈی پینڈنٹ رپورٹر کو نکال دے تو اس کو کیسے چیک کرتے ہیں؟ آپ کا کام بزنس پروموٹ کرنا نہیں، یہ دیکھنا ہے کہ معلومات تک رسائی کے حق کی خلاف ورزی نہ ہو، کورٹ کو تاثر مل رہا ہے کہ آپ اس کو بزنس وینچر کی طرح لے رہے ہیں۔عدالتی معاون حامد میر نے بتایا کہ کچھ ٹی وی چینلز میں ورکرز کو تنخواہیں ٹائم پر نہیں دی جا رہیں، میڈیا کے حوالے سے قانون موجود ہے مگر پیمرا اس پر عمل نہیں کر رہا۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر کوئی ایسا نہیں کرتا تو پیمرا ایکشن لے، ان کے لائسنس منسوخ کر دے، یاد رکھیں کہ پیمرا لائسنس ہولڈرز کے بزنس کو پروموٹ کرنے کیلئے نہیں بیٹھے، یہ لائسنس لوگوں کے لیے دیئے گئے کہ ان کو معلومات ملیں اور ان تک انٹرٹینمنٹ بھی پہنچے، ٹی وی چینلز کو لائسنس دینے کے لیے معیار بنایا ہوا ہے۔پیمرا حکام نے بتایا کہ ایک کمپنی کو چار سے زائد لائسنس نہیں دیئے جاتے، دیکھتے ہیں کہ وہ کسی فنانس انسٹی ٹیوشن کا نادہندہ تو نہیں؟ لائسنس دینے سے قبل عوامی سماعت بھی کرائی جاتی ہے، اگر کسی کے پاس کیبل کا لائسنس ہو تو اسی بھی ٹی وی چینل کا لائسنس نہیں ملتا، ایک طویل طریقہ کار اختیار کرنے کے بعد لائسنس دیا جاتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے جتنی بھی چیزیں گنوائی ہیں ایسا لگتا ہے کہ اس کے ساتھ کاروباری منصوبے کے طور پر برتائو کرتے ہیں، کیا ایڈیٹوریل پالیسی کے حوالے سے کوئی ضمانت نہیں ہے؟ بلوچستان کے بچے احتجاج کر رہے ہیں، پیمرا نے ان کی آواز عوام تک پہنچانے کے لیے کیا اقدامات کیے؟ یہ کیسے یقینی بناتے ہیں کہ سیلف سینسر شپ نہ ہو؟۔پیمرا حکام نے کہا کہ لائسنس اور شیئر ہولڈرز کی ساکھ چیک کی جاتی ہے، چینلز ان ہائوس ایڈیٹوریل پالیسی بنانے کے پابند ہوتے ہیں، اگر کوئی شکایت آئے تو کونسل آف کمپلینٹس کے سامنے شکایت رکھتے ہیں۔عدالت نے کیس کی مزید سماعت 5 اپریل تک ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں کتابی باتیں نہ بتائیں، تفصیلی رپورٹ جمع کرائیں۔