نئی دہلی  (ویب ڈیسک)

بھارتی ریاست کرناٹک میں ایک عدالت کی جانب سے سر پر پہننے کے روایتی اسلامی اسکارف پر پابندی کو برقرار رکھنے کے بعد سخت گیر ہندو گروہ مزید ہندو ریاستوں میں کلاس رومز میں حجاب پہننے پر پابندی کا مطالبہ کر رہے ہیں، انتہا پسندوں کے اس مطالبے پر ان مسلمان طلبہ کو تشویش ہے جنہوں نے حجاب پر پابندی کے خلاف احتجاج کیا تھا۔

غیر ملکی خبر رساں اداریکی خبر کے مطابق کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کا جنوبی ریاست کی جانب سے فروری میں حجاب پر پابندی کی حمایت کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)کے اعلی وفاقی وزرا نے بھی خیر مقدم کیا تھا اور کہا تھا کہ طلبہ کو کلاس میں مذہبی لباس پہننے سے گریز کرنا چاہیے۔بھارت میں یونیفارم کے بارے میں قومی سطح پر کوئی واضح اصول اور ہدایات نہیں ہیں اور ریاستیں اکثر یہ فیصلہ کرنے کا اختیار اسکولوں پر چھوڑ دیتی ہیں کہ ان کے طلبہ کو کیا پہننا چاہیے۔ہندو فرسٹ گروپ اکھیل بھارت ہندو مہاسبھا کے صدر رشی ترویدی کا کہنا ہے کہ ہم ایک ہندو قوم ہیں اور ہم ملک کے تعلیمی اداروں میں کسی بھی قسم کا مذہبی لباس نہیں دیکھنا چاہتے، ہم عدالتی فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ پورے ملک میں ایک ہی اصول پر عمل کیا جائے۔بی جے پی کے زیر اقتدار کرناٹک میں پابندی پر کچھ مسلم طلبہ اور والدین نے احتجاج کیا تھا جس کے جواب میں ہندو طلبہ نے جوابی مظاہرے کیے، پابندی کے ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ مسلم کمیونٹی کو دبانے کا ایک اور طریقہ ہے جو ہندو اکثریتی بھارت کی ایک ارب 35 کروڑ آبادی کا تقریبا 13 فیصد ہے۔وشوا ہندو پریشد (وی ایچ پی )جو کہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ سے منسلک ہے، جو کہ بی جے پی کی بنیادی تنظیم ہے، اس کے رہنماں کا کہنا ہے کہ انہوں نے مودی کی آبائی ریاست گجرات میں حجاب پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا ہے اور وہ جلد ہی ملک کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست، اتر پردیش کی حکومت کو بھی اس سلسلے میں خط لکھیں گے، بی جے پی دونوں ریاستوں میں برسراقتدار ہے۔وی ایچ پی گجرات کے سکریٹری اشوک راول کا کہنا ہے کہ دفاعی فورسز، پولیس اور سرکاری دفاتر میں حجاب کی اجازت نہیں ہے تو پھر اسکولوں اور کالجوں میں حجاب پر اصرار کیوں کیا جا رہا ہے؟ یہ برادریوں کے درمیان کشیدگی کو بڑھانے کی کوشش ہے۔گجرات کے وزیر تعلیم جیتو واگھانی نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا جبکہ ایک ریاستی وزیر اور ایک بیوروکریٹ نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ اسکولوں میں حجاب پر پابندی کا کوئی فوری منصوبہ نہیں ہے۔اتر پردیش جہاں حالیہ ریاستی انتخابات میں بی جے پی کا کنٹرول برقرار ہے، وہاں کے عہدیداروں نے بھی معاملے پر تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ کوئی فیصلہ آنے والے نئی انتظامیہ کرے گی۔عائشہ حاجرہ الماس جنہوں نے کرناٹک کی پابندی کو عدالت میں چیلنج کیا تھا اور اب وہ پابندی کو ختم کرنے کے لیے ملک کی اعلی ترین عدالت سے رجوع کرنے پر غور کر رہی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اصل خدشہ یہ ہے کہ حجاب پر پابندی اب قومی سطح پر ہو جائے گی۔18 سالہ لڑکی نے معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ دسمبر کے اواخر سے اس وقت سے اسکول نہیں گئی جب انتظامیہ نے مسلم لڑکیوں کو حجاب پہننے سے روک دیا تھا، یہ وہ وقت تھا جب فروری کے اوائل میں ریاست بھر میں پابندی نہیں لگی تھی۔کرناٹک کے اڈوپی ضلع جہاں سے پابندی عائد کیے جانے کے خلاف احتجاج شروع ہوا تھا وہاں سے عائشہ حاجرہ الماس کا کہنا ہے کہ ہم شدت سے محسوس کر رہے ہیں کہ ہم ایک ایسے بھارت میں رہ رہے ہیں جہاں اس کے شہریوں کے ساتھ مساوی سلوک نہیں کیا جاتا۔انہوں نے مزید کہا کہ میں اپنے لیے لڑ رہی ہوں، اپنی بہنوں کے لیے لڑ رہی ہوں، اپنے مذہب کے لیے لڑ رہی ہوں، مجھے ڈر ہے کہ پورے ملک میں اس طرح کی تبدیلیاں عائد کی جائیں گی لیکن مجھے امید ہے کہ ایسا نہیں ہوگا

حجاب پر پابندی ، بھارت کے کئی اضلاع میں دفعہ 144 نافذ

کرناٹک میں ناخوشگوار واقعہ سے بچنے کیلئے سکیورٹی کے وسیع انتظامات

بھارت میں مسلمان خواتین اپنی آزادی اور روایات کی جنگ لڑ رہی ہیں، کرناٹک کے شہر بنگلورو اور اڈوپی سمیت کئی اضلاع میں دفعہ 144 نافذ کردی گئی۔دفعہ کرناٹک ہائی کورٹ کے مسلم طالبات پر حجاب کی پابندی برقرار رکھنے کے فیصلے کے بعد لگائی گئی، جس کے بعد شہروں میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا۔انتظامیہ کے مطابق حجاب کیس میں ہائی کورٹ کے فیصلے کے پیش نظر کرناٹک میں کسی بھی ناخوشگوار واقعہ سے بچنے کے لیے سکیورٹی کے وسیع انتظامات کئے گئے ۔کئی اضلاع میں سکولوں کو بھی بند کرنے کے آرڈرز دئیے گئے تھے۔ یاد رہے گزشتہ روز بھارت میں حجاب تنازعہ میں کرناٹک ہائی کورٹ کا متعصبانہ اور مسلم مخالف فیصلہ سامنے آیا تھا، کرناٹک ہائی کورٹ نے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کو مسترد کردیا تھا۔کرناٹک ہائی کورٹ کی تین رکنی بینچ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ حجاب پہننا اسلام کا لازمی جز نہیں، یونیفارم پر نافذ پابندیاں مناسب تھیں، طلبا اس پر اعتراض نہیں کرسکتے۔کرناٹک ہائی کورٹ کا حجاب سے متعلق تعصب پر مبنی فیصلے کے بعد بھارت میں جگہ جگہ مظاہرے شروع ہو گئے، ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد بھارت کے مختلف علاقوں میں باحجاب خواتین احتجاج ریکارڈ کرا رہی ہیں۔mk/nsr