اسلام آباد (ویب ڈیسک)

پاکستان نے تعلیمی اداروں میں مسلمان طالبات کے حجاب پر پابندی لگانے کے بھارتی ریاست کرناٹک کی ہائی کورٹ کے فیصلے پر اپنی تشویش ظاہرکرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ فیصلہ مذہبی شعائر کی آزادی کے اصول سربلند اور مقدم رکھنے میں ناکامی اور انسانی حقوق سے متصادم ہونے کا عکاس ہے۔ترجمان دفتر خارجہ نے جاری بیان میں کہا کہ یہ امر بھی اتنا ہی افسوسناک ہے کہ اقلیتوں کے خلاف روا غیرانسانی سلوک، انہیں بدنام کرنے اور ان کے خلاف امتیازی رویوں کو روکنے کے عدل ومساوات کے اصولوں کی فرمانروائی کے جس کردار کی بھارتی عدلیہ سے توقع تھی، وہ اس میں مکمل طور پر ناکام ہوئی۔ یہ فیصلہ مسلمان دشمنی کی مسلسل مہم میں ایک نئی تنزلی ہے جس میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لئے سکیولرازم کی آڑ تک کو ہتھیار بنایا جارہا ہے۔خدشہ ہے کہ نقائص کا حامل ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ اقلیتوں کو دیوار سے لگانے کی رفتار مزید تیز کر دے گا اور ہندو۔آر۔ایس۔ایس کے جنونیوں کے حوصلے مزید بڑھا دے گا کہ ان پر گرفت کرنے والا کوئی نہیں۔ترجمان نے کہاکہ بی۔جے۔پی کے نمایاں راہنماوں کی طرف سے مسلمانوں کو دیگر یا 20 فیصد کے نام سے پکارنے کی مذموم مہم انتہائی تشویشناک ہے جو کھلی چھوٹ کے ساتھ جاری اور اب اس عدالتی فیصلے میں بھی پوری طرح سے آشکار ہورہی ہے۔ امتیازی شہریت ترمیمی قانون(سی۔اے۔اے) اور بابری مسجد کے مقدمے میں سپریم کورٹ کا انتہائی غیرمنصفانہ فیصلہ ابھی زیادہ دور کی بات نہیں اور ذہنوں میں تازہ ہے۔انہوں نے کہاکہ موجودہ دور حکومت میں بھارت اس حقیقت کو فراموش کئے ہوئے ہے کہ نام نہاد سیکولر شناخت خاص کر اس کی اقلیتوں کے لئے تیزی سے مٹ رہی ہے۔ پاکستان بھارتی حکومت پر بھرپور زور دیتا ہے کہ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے تحفظ و سلامتی اور ان کے مذہب پر کاربند ہونے کے حق کی حفاظت یقینی بنائے۔ترجمان دفتر خارجہ نے کہاکہ ہم اقوام متحدہ، متعلقہ عالمی تنظیموں سمیت عالمی برادری پر بھی زور دیتے ہیں کہ وہ بھارت پر دبا وڈالنے میں اپنا کردار ادا کرے کہ اکثریت کے زور اور امتیاز کی بنیاد پر بھارت میں ابھرتی لہر کو روکے اور تمام اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے تحفظ کو یقینی بنائے۔یاد رہے کہ گزشتہ روز بھارتی ہائی کورٹ نے ریاست کرناٹک کے کلاس رومز میں حجاب پر عائد پابندی کو برقرار رکھنے کے حق میں فیصلہ دے دیا تھا، پابندی کے حکم نامے کے بعد پرتشدد مظاہرے بھی دیکھے گئے تھے اور چند ہفتوں کے بعد دیے گئے فیصلے نے ملک کی مسلم اقلیت کے ساتھ امتیازی سلوک کے حوالے سے نئے خدشات کو جنم دیا ہے۔