الیکشن کمیشن کے نوٹس کے بعد وزیر اعظم عمران خان کو الیکشن کمیشن میں پیش ہونا چاہیئے تھا
اگر ہرکوئی آئینی اداروں کے اختیارات کو چیلنج کرنا شروع کردے گا توپھر اس ملک کا کیا بنے گا۔ الیکشن کمیشن کو سن کر ہی فیصلہ کریں گے
کیا آرڈیننس کے ذریعہ آئین کے تحت دیئے گئے اختیارات کو ختم کیا جاسکتا ہے، کیا کوئی بھی آئینی اختیار قانون بنا کر ختم کیا جاسکتاہے؟عدالت
الیکشن کمیشن نے آئین کی شق 218 کے تحت حکم جاری کرتے ہوئے حکومتی قانون میں عوامی عہدہ رکھنے والوں کو دی گئی اجازت کو رد کر دیا،بیرسٹرعلی ظفر
کیا کمیشن آئین کے تحت ضابطہ اخلاق جاری نہیں کرتا؟ کیا آزادانہ الیکشن کرانے کے آئینی مینڈیٹ میں ضابطہ اخلاق شامل نہیں؟ جسٹس عامر فاروق
عدالت نے اٹارنی جنرل کو معاونت کے لئے طلب کر لیا ، سماعت 28مارچ تک ملتوی
اسلام آباد (ویب ڈیسک)
اسلام آباد ہائی کورٹ نے انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر الیکشن کمیشن آف پاکستان کے حکم یا نوٹس پر عمل درآمد روکنے کی وزیر اعظم عمران خان کی درخواست مسترد کر تے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان، اٹارنی جنرل آف پاکستان بیرسٹر خالد جاوید خان، کابینہ ڈویژن اوردیگرفریقین کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے28مارچ کو جواب طلب کرلیا۔عدالت نے اٹارنی جنرل کو معاونت کے لئے طلب کر لیا ہے۔جبکہ جسٹس عامر فاروق نے کہا ہے کہ حکومت نے آرڈیننس فیکٹری کھول رکھی ہے،جو کام پارلیمنٹ نے کرنا ہوتے ہیں وہ کام حکومت آرڈیننس کے ذریعے کررہی ہے۔عدالت نے قراردیا ہے کہ الیکشن کمیشن کے نوٹس کے بعد وزیر اعظم عمران خان کو الیکشن کمیشن میں پیش ہونا چاہیئے تھا،اگر ہرکوئی آئینی اداروں کے اختیارات کو چیلنج کرنا شروع کردے گا توپھر اس ملک کا کیا بنے گا۔ الیکشن کمیشن کو سن کر ہی فیصلہ کریں گے۔ وزیر اعظم عمران خان اوروفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی، ترقی اور خصوصی اقدامات اسد عمر کی جانب سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر عوامی عہدہ رکھنے والوں پر پابندی کی خلاف ورزی پر جاری نوٹوسز کے خلاف دائر درخواست پرچیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ کی عدم موجود گی کے باعث سینئر ترین جج جسٹس عامر فاروق نے سماعت کی۔دوران سماعت وزیر اعظم کی جانب وکیل سینیٹر بیرسٹر سید علی ظفر پیش ہو ئے ۔ عدالت نے استفسار کیا ہے کہ کیا آرڈیننس کے ذریعہ آئین کے تحت دیئے گئے اختیارات کو ختم کیا جاسکتا ہے، کیا کوئی بھی آئینی اختیار قانون بنا کر ختم کیا جاسکتاہے؟جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن صرف کوڈ آف کنڈکٹ نہیں بلکہ آرٹیکل 218کے تحت آرڈر کررہا ہے۔ جسٹس عامر فاروق نے وزیر اعظم کے وکیل سید علی ظفر سے اسفتسار کیا کہ کیا ایمرجنسی تھی کہ آپ کو آرڈیننس لانا پڑا؟جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ کیا ہر شخص خود طے کرے گا کہ کسی ادارے کا اختیار نہیں؟۔ اپنے دلائل میں بیرسٹر سید علی ظفر کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کے قانون کو رد کرنے والے حکم کو معطل کیا جائے یا کم از کم نوٹس پر مزید کاروائی روکی جائے۔اس پر جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ ہر کوئی اداروں کی دائرہ اختیار کو چیلنج کرے تو کیا بنے گا، عمران خان کا کنڈکٹ مناسب نہیں، انہیں الیکشن کمیشن میں پیش ہونا چاہئے تھا، ہم صرف نوٹس دیتے ہیں۔جسٹس عامر فاروق نے سوال کیا کہ عمران خان کمیشن کے سامنے کیوں نہیں جاتے؟ حکومت نے آرڈیننس فیکٹری کھول رکھی ہے،کو کام پارلیمنٹ نے کرنے ہوتے ہیں وہ کام حکومت آرڈیننس کے زریعہ کررہی ہے۔ اس پر علی ظفر کا کہنا تھا کہ کمیشن نے قانون کو رد کر کے خود کو عدالت بنا لیا،عمران خان/ وزر کو نوٹسز قانون نہ کہ ضابطے کی خلاف ورزی پر جاری ہو سکتے ہیں۔ بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے قرار دیا ہے کہ آئین الیکشن کمیشن کو قانون سازی کی اجازت نہیں دیتا، ظابطہ اخلاق قانون کی شقوں پر حاوی نہیں۔ اس پر جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ مگر جہاں آئین کی شو 218 آگئی تو اس قانون کیسے حاوی ہو سکتا ہے۔ جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ اگر کل کوئی ہائی کورٹ کے رٹ درخواست کی سماعت کے آئینی اختیار کو قانون سازی کے ذریعے محدود کر دیتا ہے تو کیا ہو گا؟ کوئی بھی آئینی اختیار قانون بناکر ختم نہیں کیا جاسکتا۔ بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے آئین کی شق 218 کے تحت حکم جاری کرتے ہوئے حکومتی قانون میں عوامی عہدہ رکھنے والوں کو دی گئی اجازت کو رد کر دیا۔اس پر جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ کیا کمیشن آئین کے تحت ضابطہ اخلاق جاری نہیں کرتا؟ کیا آزادانہ الیکشن کرانے کے آئینی مینڈیٹ میں ضابطہ اخلاق شامل نہیں؟ ۔بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ فروری کے نئے قانون میں وزیر اعظم اور وزراء کو انتخابی ریلی سے خطاب کرنے کی اجازت ہے بشرطِ کہ اس ریلی میں کوئی ترقیاتی منصوبے کا اعلان نہ کیا جائے، اس پر کمیشن نے 10 مارچ کو صرف اراکین اسمبلی کو ریلیوں سے خطاب کی اجازت دی اور نئے قانون پر جزوی عمل کی اجازت دی۔ان کا کہنا تھا کہ الیکشن ایکٹ میں الیکشن کمیشن کا نامزد افسر صرف الیکشن کے قانون اور قواعد کی خلاف ورزی پر پچاس ہزار روپے کا جرمانہ کر سکتا ہے ،اس میں ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کا ذکر نہیں، الیکشن افسر صرف امیدوار یا جماعت کے خلاف جرمانہ عائد کرسکتا ہے۔سیاسی جماعتوں کے لئے بنایا گیا الیکشن کمیشن کا ضابطہ اخلاق پارلیمنٹ کے منظور کردہ قانون کو رد نہیں کر سکتا۔ عدالت نے تمام فریقین کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے درخواستوں پر مزید سماعت28مارچ تک ملتوی کردی۔