نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کیس میں عدالت ایسی آبزرویشن دے چکی ہے،جسٹس منیب اختر

اسپیکر نے 25 مارچ کو قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا حالانکہ آرٹیکل 95 کے تحت 14 دن میں اجلاس بلانا لازم ہے، وکیل سپریم کورٹ بار

14 دن سے زیادہ اجلاس میں تاخیر کرنے کا کوئی استحقاق نہیں، تمام ارکان اسمبلی کو آزادانہ طور پر ووٹ ڈالنے کا حق ہونا چاہیے، منصور اعوان ایڈووکیٹ

ووٹ ڈالنا ارکان کا آئینی حق ، ووٹ کا حق کسی رکن کا absolute نہیں ہوتا، کسی ایونٹ کی وجہ سے کوئی ووٹ ڈالنے سے محروم نہ ہو، چیف جسٹس عمر عطا بندیال

یہ سارا قومی اسمبلی کا اندرونی معاملہ ہے لہذا بہتر ہوگا کہ اسمبلی کی جنگ اسمبلی کے اندر لڑی جائے

عدالت ابھی تک اسمبلی کی کارروائی میں مداخلت کرنے پر قائل نہیں، چیف جسٹس پاکستان کے ریمارکس

 جتھے سے گزر کر آنا جانا نہیں ہو سکتا، یہ ہم نہیں ہونے دیں گے، کوشش کریں گے جلد ریفرنس پر اپنا فیصلہ دیں

سیاسی جماعتیں اپنی سیاسی طاقت پارلیمنٹ میں ظاہر کریں، سیاسی جماعتیں بتائیں وہ کیا چاہتی ہیں

پولیس کسی رکن اسمبلی پر ہاتھ نہیں اٹھا سکتی ہے، رکن اسمبلی قانون توڑے گا تو پولیس بھی ایکشن لے گی

سندھ ہائوس پر حملے کا کسی صورت دفاع نہیں کرسکتا، میں نے وزیر اعظم کو عدالت کی تشویش سے آگاہ کیا،اٹارنی جنرل خالد جاوید خان

صدارتی ریفرنس کیوجہ سے پارلیمنٹ کی کاروائی تاخیر کا شکار نہیں ہوگی،چیف جسٹس پاکستان

عدالت نے کسی کی سماعت 24مارچ جمعرات تک ملتوی کردی

اسلام آباد (ویب ڈیسک)

سپریم کورٹ آف پاکستان نے ریمارکس دئیے ہیں کہ آرٹیکل 95 کے تحت ووٹ کا حق سیاسی جماعت کا ہوتا ہے جس کے تحت رکن کے انفرادی ووٹ کی حیثیت نہیں، سیاسی جماعت میں شمولیت کے بعد اجتماعی حق تصور کیا جاتا ہے، ووٹ ڈالنا ارکان کا آئینی حق ہے ،کسی ایونٹ کی وجہ سے کوئی ووٹ ڈالنے سے محروم نہ ہو، یہ سارا قومی اسمبلی کا اندرونی معاملہ ہے لہذا بہتر ہوگا کہ اسمبلی کی جنگ اسمبلی کے اندر لڑی جائے،صدارتی ریفرنس کیوجہ سے پارلیمنٹ کی کاروائی تاخیر کا شکار نہیں ہوگی ۔سپریم کورٹ میں سیاسی جماعتوں کو جلسوں سے روکنے کیلئے سپریم کورٹ بار کی درخواست پر سماعت ہوئی، تو پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان، قائد حزب اختلاف شہباز شریف اور چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری بھی سماعت کے لیے عدالت پہنچے۔سپریم کورٹ بار کے وکیل منصور اعوان نے کہا کہ اسپیکر نے 25 مارچ کو قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا ہے حالانکہ آرٹیکل 95 کے تحت 14 دن میں اجلاس بلانا لازم ہے، 14 دن سے زیادہ اجلاس میں تاخیر کرنے کا کوئی استحقاق نہیں، تمام ارکان اسمبلی کو آزادانہ طور پر ووٹ ڈالنے کا حق ہونا چاہیے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ووٹ ڈالنا ارکان کا آئینی حق ہے، عدالت نے دیکھنا ہے کہ کسی ایونٹ کی وجہ کوئی ووٹ ڈالنے سے محروم نہ ہو، یہ تمام اسمبلی کا اندرونی معاملہ ہے، بہتر ہوگا کہ اسمبلی کی جنگ اسمبلی کے اندر لڑی جائے، عدالت ابھی تک اسمبلی کی کارروائی میں مداخلت کرنے پر قائل نہیں، عدالت نے دیکھنا ہے کہ کسی کے حقوق متاثر نہ ہوں، عدالت صرف چاہتی ہے کہ کسی کے ووٹ کا حق متاثر نہ ہو، یہ تمام نکات اسپیکر کے سامنے اٹھائے جاسکتے ہیں۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل 17 سیاسی جماعتیں بنانے کے حوالے سے ہے، جس کے تحت سیاسی جماعت کے حقوق ہوتے ہیں۔ آرٹیکل 95 کے تحت ووٹ کا حق سیاسی جماعت کا ہوتا ہے، آرٹیکل 95 دو کے تحت رکن کے انفرادی ووٹ کی حیثیت نہیں، نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کیس میں عدالت ایسی آبزرویشن دے چکی ہے، سیاسی جماعت میں شمولیت کے بعد اجتماعی حق تصور کیا جاتا ہے، آئین کی کس شق کے تحت رکن اسمبلی آزادی سے ووٹ ڈال سکتا ہے، بار کا کیس آئین کی کس شق کے تحت ہے یہ تو بتا دیں؟۔بار کے وکیل نے جواب دیا کہ آرٹیکل 91 کے تحت ارکان اسمبلی اسپیکر اور دیگر عہدیداروں کا انتحاب کرتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ بار چاہتی ہے کہ ارکان جس کو چاہیے ووٹ ڈالیں، سوال یہی ہے کہ ذاتی چوائس پارٹی موقف سے مختلف ہو سکتی یا نہیں؟، ووٹ کا حق کسی رکن کا absolute نہیں ہوتا۔بار کے وکیل نے آرٹیکل 66 کا بھی حوالہ دیا جس پر جسٹس منیب اختر نے ٹوکا کہ آرٹیکل 66 کے تحت ووٹ کا حق کیسے مل گیا؟ یہ تو پارلیمانی کاروائی کو تحفظ دیتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ وکیل سے کہا کہ آپ بار کے وکیل ہیں آپ کا اس عمل سے کیا تعلق؟، بار ایسوسی ایشن عوامی حقوق کی بات کرے۔بار کے وکیل نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد بھی عوامی اہمیت کا معاملہ ہے۔چیف جسٹس  نے کہا کہ بار بار پوچھ رہے ہیں سندھ ہاس میں کیا ہوا؟ بار ایسوسی ایشن کو سندھ ہاس پر بات کرتے ہوئے خوف کیوں آرہا ہے؟ بار کو عدم اعتماد کے حوالے سے کیا تحفظات ہیں۔ چیف جسٹس آئی جی اسلام آباد سے پوچھا کہ کیا دفعہ 144 لگ گئی ہے؟، رپورٹ کے مطابق شام 5.42 بجے 35 سے 40 مظاہرین سندھ ہائوس پہنچے تھے۔آئی جی اسلام آباد نے بتایا کہ اسلام آباد میں پہلے سے ہی دفعہ 144نافذ ہے، ریڈ زون کے اطراف تک دفعہ 144 کا دائرہ بڑھا دیا ہے، مظاہرین چھتے کی صورت میں سندھ ہاس نہیں آئے تھے، پولیس نے دو اراکین اسمبلی سمیت 15افراد کو گرفتار کیا گیا، پھر جے یو آئی نے بھی سندھ ہائوس جانے کی کوشش کی، تو پولیس نے بلوچستان ہاس کے قریب جے یو آئی کارکنان کو روکا، سندھ ہائوس واقعے پر شرمندہ ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ سندھ ہائوس واقعہ پولیس کی اتنی ناکامی نظر نہیں آتا، بلکہ اصل چیز اراکین اسمبلی کو ووٹ ڈالنے سے روکنے کا ہے، ڈی چوک پر ماضی قریب میں بھی کچھ ہوا تھا جس کے تاثرات سامنے آئے، ہفتے کو کیس سننے کا مقصد سب کو آئین کے مطابق کام کرنے کا کہنا تھا، دیکھیں سندھ ہاس حملے کی تحقیقات کہاں تک پہنچی ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی جماعتیں اپنی سیاسی طاقت پارلیمنٹ میں ظاہر کریں، سیاسی جماعتیں بتائیں وہ کیا چاہتی ہیں، پولیس کسی رکن اسمبلی پر ہاتھ نہیں اٹھا سکتی ہے، رکن اسمبلی قانون توڑے گا تو پولیس بھی ایکشن لے گی، عدالت نے سیاسی قیادت کے درمیان ثالث کا کردار ادا کرنا ہے تاکہ جمہوریت چلتی رہے ، حساس وقت میں مصلحت کیلئے کیس سن رہے ہیں۔اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ سندھ ہائوس پر حملے کا کسی صورت دفاع نہیں کرسکتا، میں نے وزیر اعظم کو عدالت کی تشویش سے آگاہ کیا، اس پر وزیر اعظم نے کہا پرتشدد مظاہرے کسی صورت برداشت نہیں، سندھ ہائوس واقعے کی ایف آئی آر درج ہو چکی ہے جس کو شیکایت ہے وہ متعلقہ فورم سے رجوع کریں، سندھ ہاس جیسا واقعہ دوبارہ نہیں ہونا چاہیے، او ائی سی کانفرنس کی وجہ سے ریڈ زون حساس ترین علاقہ ہے، ہمیں سپریم کورٹ بار کی استدعا سے کوئی اختلاف نہیں، وزیراعظم سے گفتگو کے بعد عدالت کو کچھ باتیں واضح کرنا چاہتا ہوں۔اٹارنی جنرل نے حکومت کی طرف سے یقین دہانی کرائی کہ قومی اسمبلی اجلاس کے موقع پر کوئی جتھہ اسمبلی کے باہر نہیں ہو گا، کسی رکن اسمبلی کو ہجوم کے ذریعے نہیں روکا جائے گا، کئی سیاسی جماعتوں نے اس حوالے سے بیانات دیے ہیں، ہم پولیس اور متعلقہ اداروں کو احکامات جاری کررہے ہیں، عوام کو اسمبلی اجلاس کے موقع پر ریڈزون میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہو گی، کوئی رکن اجلاس میں نہ انا چاہیے تو زبردستی نہیں لایا جائے گا، پارٹی سربراہ آرٹیکل 63 اے کے تحت اپنا اختیار استعمال کر سکتا ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ ڈالنے والوں کو روکا نہیں جاسکتا، اس نقطے پر حکومت سے ہدایات کی بھی ضرورت نہیں، البتہ پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ ڈالنے پر آرٹیکل 63 اے کی کارروائی ہو گی، حکمران جماعت پر ہارس ٹریڈنگ کا کوئی الزام نہیں، کسی اپوزیشن جماعت پر بھی الزام نہیں لگاں گا، کوئی بھی سرکاری آفیسر غیر قانونی حکم ماننے کا پابند نہیں، یقین دہانی کروتا ہوں کہ پارلیمانی کارروائی آئین کے مطابق ہوگی، آئینی تقاضوں کو پورا نہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں، ہم سپریم کورٹ سے کوئی حکم امتناع نہیں مانگ رہے اور صدارتی ریفرنس کی وجہ سے قومی اسمبلی کی کارروائی بھی متاثر نہیں ہوگی۔اٹارنی جنرل نے نکتہ اٹھایا کہ کسی کو ووٹ کا حق استعمال کرنے سے روکا نہیں جاسکتا، لیکن ووٹ شمار ہونے پر ریفرنس میں سوال اٹھایا ہے، ووٹ ڈالنے کے بعد کیا ہوگا یہ ریفرنس میں اصل سوال ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ سندھ ہاس واقعہ پر اٹارنی جنرل کا موقف خوش آئند ہے، توقع ہے حکومت بھی سندھ ہاس واقعے کی مذمت کریگی، تمام سیاسی جماعتیں ذمہ داری کا مظاہرہ کرتی ہیں، مگر بعض غیر ذمہ داران سیاست میں آکر ایسی کوئی حرکت کرسکتے ہیں جبکہ ایڈووکیٹ جنرل سندھ پولیس سے رابطہ کر سکتے ہیں، صدارتی ریفرنس کی سماعت لارجر بینچ کرے گا، ہمارے پاس دستاویزات نہیں ہے کہ 25مارچ کو اسمبلی اجلاس بلانے کی کیا وجہ ہے، اس عمل کو خوش اسلوبی سے مکمل کرنا ہے، ہمیں 24 تاریخ کو مواد لاکر دکھا دیں، اگر تمام سیاسی جماعتیں متفق ہوئیں تو کوڈ آف کنڈکٹ بنا لیں گے۔اپوزیشن لیڈر کے وکیل نے بھی پرامن جلسوں کی یقین دہانی کرواتے ہوئے کہا کہ چاہتے ہیں تمام عمل امن و امان کیساتھ مکمل ہو۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ پی ٹی آئی اور اپوزیشن ضلعی انتظامیہ سے ملکر جلسوں کی جگہ کا تعین کریں، جگہ کے تعین سے تصادم کا خطرہ نہیں ہوگا۔پی پی پی کے وکیل فاروق نائیک نے اعتراض اٹھایا کہ اسپیکر قومی اسمبلی نے بروقت اجلاس کیوں نہیں بلایا۔اس پر چیف جسٹس نے کہا اسپیکر کی رولنگ عدالت کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ کوشش کریں ڈی چوک پر جلسہ نہ ہو، اکھٹے بیٹھ کر اتفاق رائے پیدا کریں، لوگوں کو لاکر کسی ووٹ ڈالنے والے کو روکنے کی اجازت نہیں دینگے، ڈی چوک کا استعمال نہ کریں، جو بھی احتجاج اور جلسے ہوں ضلعی انتظامیہ کی مشاورت سے ہوں، ایک جماعت جہاں جلسہ کر رہی ہو وہاں دوسری کو اجازت نہیں ہوگی، دونوں فریقین کے جلسوں کی ٹائمنگ الگ ہو تاکہ تصادم نہ ہوسکے، ریفرنس پر حکومتی اتحادیوں کو نوٹس نہیں کر رہے، تمام جماعتیں تحریری طور پر اپنا موقف دینگی، کسی کو ووٹ ڈالنے سے روکنے کا کوئی سوال ریفرنس میں نہیں اٹھایا گیا، موجودہ حالات میں حکومت کا موقف بہت بہتر نظر آ رہا ہے۔جے یو آئی کے وکیل نے کہا کہ ہم نے او آئی سی کے احترام میں 23کو ہونے والا جلسہ 27تک ملتوی کیا، لیکن حکومت کہہ رہی ہے کہ جو اراکین ووٹ ڈالنے جائیں وہ جتھے سے گزر کر آئے گا۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ جتھے سے گزر کر آنا جانا نہیں ہو سکتا، یہ ہم نہیں ہونے دیں گے، کوشش کریں گے جلد ریفرنس پر اپنا فیصلہ دیں، صدارتی ریفرنس کیوجہ سے پارلیمنٹ کی کاروائی تاخیر کا شکار نہیں ہوگی۔عدالت نے کسی کی سماعت 24مارچ جمعرات تک ملتوی کردی۔