بلوچستان عوامی پارٹی حکومت کا ساتھ چھوڑ گئی، عدم اعتماد میں اپوزیشن کاساتھ دینے کا فیصلہ

تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد جو حکومت بنے گی وہ  بلوچستان کے مسائل کے حل کے لیے کام کرے گی،شہباز شریف

غیر ملکی مداخلت ثابت ہوئی تو عمران خان کے ساتھ کھڑا ہوں گا، بلوچستان عوامی پارٹی واپوزیشن رہنماوں کے ہمراہ پریس کانفرنس

بہت جلدی ہم شہباز شریف کو وزیراعظم بنائیں گے اور بلوچستان سے وزیر لیں گے، زرداری

ہم چاہتے ہیں کہ نئے انداز  میں ملک کو سنبھالا جائے، خالد مگسی

اسلام آباد(  ویب نیوز)

حکومتی اتحادی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی(بی اے پی-باپ) نے وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتمادمیں اپوزیشن کاساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے 4 ممبران قومی اسمبلی تحریک عدم اعتماد میں  اپوزیشن کا ساتھ دیں گے۔اسلام آباد میںبلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما خالد مگسی، پی ڈی ایم سربراہ مولانا فضل الرحمان، پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری، سابق صدر آصف علی زرداری کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر  شہباز شریف کا کہنا تھا کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد جو حکومت بنے گی وہ  بلوچستان کے مسائل کے حل کے لیے کام کرے گی۔شہباز شریف کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں مسائل کے حل کے لیے بی اے پی سے بھرپور تعاون کریں گے، بلوچستان کے عوام کے لیے ہم صدق دل سے کام کریں گے،4 ایم این ایز کا ساتھ دینے کے فیصلے کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور  بی اے پی کے فیصلے کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ شہباز شریف نے وزیراعظم عمران خان کے تحریک عدم اعتماد سے متعلق غیر ملکی مداخلت کے الزام پر وزیراعظم کو چیلنج دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان وہ خط قومی اسمبلی میں لائیں اگرغیر ملکی مداخلت ثابت ہوئی تو میں عمران خان کے ساتھ کھڑا ہونگا۔شہباز شریف نے کہا کہ عمران خان کو غیر ملکی مداخلت کاالزام لگاتے وقت گریبان میں جھانکنا چاہیے، فارن فنڈنگ سے متعلق عمران خان کیا جواب دیں گے، فارن فنڈنگ قوانین کی صریحا خلاف ورزی کی گئی۔ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کیخلاف ہماری جنگ سیاسی ہے، جیسے میرے خلاف فرنٹ مین کا الزام لگا یہ بھی ویسا ہی خط ہے، کہیں غیرملکی مداخلت ہے تو چیلنج کرتا ہوں پارلیمان میں خط پیش کریں اگر غیر ملکی مداخلت ثابت ہوئی تو میں عمران خان کے ساتھ کھڑا ہونگا۔پاکستان پیپلزپارٹی  کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا کہ یہ ان کی مہربانی ہے کہ میرے پاس آئے اور مجھے عزت دی اور ان سے مذاکرات کیے اور انہیں سمجھایا بلوچستان کی اگر کوئی خدمت کرسکتا ہے تو اس وقت ہم اپوزیشن میں بیٹھے ہوئے جو لوگ ہیں وہی کرسکتے ہیں۔ یہ سمجھتے ہیں کہ بلوچستان ہے تو پاکستان ہے، اگر بلوچستان نہیں ہے تو پاکستان نہیں ہے، اس لیے ہم ان کی مجبوریوں اور ان کے دکھوں کو اس مقام پر جا کر ٹھنڈا کرنا چاہتے ہیں تاکہ ایک دفعہ پھر جہاں سے سلسلہ ختم ہوا تھا وہاں سے شروع کریں۔ ابھی عدم اعتماد کا موسم ہے تو بہت جلدی ہم شہباز شریف کو وزیراعظم بنائیں گے اور بلوچستان سے وزیر لیں گے،صدر پی ڈی ایم مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ  متحدہ اپوزیشن کا ساتھ دینے پر  خالد مگسی اور بلوچستان کے ارکان اسمبلی کا شکریہ ادا کرتے ہیں، جے یو آئی کی پارلیمانی بنیاد کے پی اور  بلوچستان ہے، ہم بلوچستان کی ترقی کے لیے پر عزم ہیں، بلوچستان کے عوام ہمیں اپنے ساتھ پائیں گے۔مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ حالت نزع میں اللہ کلمہ بھی قبول نہیں کرتا، جن آقاوں نے عمران خان کوبھیجا ان کے مقصد پورے نہ ہوئے تو یہ خود آقاوں پربوجھ بن گیا ہے، عمران اپنی ناکامیوں پر روئے،عمران کو مسلط کرنا امریکا، یورپ اور اسرائیل کی حماقت تھی۔ایک سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ق لیگ کیساتھ بات چیت جاری رکھنے کی گنجائش موجود ہے، پہلے ق کے  پاس سات اور باپ کے پاس پانچ  ارکان تھے، اب ق کے پاس پانچ اور باپ کے پاس سات  ارکان ہیں۔چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کے نمبر شروع سے پورے ہیں، ہم نے  یہ کام اتحادیوں کے ساتھ مل کر کرنا ہے، سیاسی اختلافات تو چلتے رہتے ہیں، ہماری تعداد پوری ہے اور اب ہمارے نمبر بڑھتے جارہے ہیں۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما  خالد مگسی کا کہنا تھا کہ ہمارے لیے اس وقت موقع ہے کہ اپوزیشن کی دعوت قبول کریں، بلوچستان مسلسل محرومیوں کا شکار ہے، سارے معاملات مشاورت کے ساتھ طے کیے ہیں،  ہم چاہتے ہیں کہ نئے انداز  میں ملک کو سنبھالا جائے، معاملات حل کیے جائیں، اٹکا کر نہ رکھا جائے۔انہوں نے کہاکہ اپوزیشن نیک ارادے کے ساتھ آئی ہے اس لئے ان کے ساتھ ہیں اور ان کی حمایت کا فیصلہ کیا ہے ،پریس کانفرنس میں گفتگو کرتے ہوئے بی این پی سربراہ اخترمینگل کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت نے ہمیں نظر انداز کیا، ہمارے مسائل پر توجہ کے بجائے ہمارا مذاق اڑایا گیا، موجودہ  حکومت نے ہمیں نظر انداز کیا ہے، موجودہ  حکومت میں بلوچستان کے ایشوز کو پہلے دن  اجاگر کیا، تمام ہتھکنڈے عدم اعتماد میں تاخیر کے لیے استعمال  کیے گئے۔