FOREIGN MINISTER MAKHDOOM SHAH MAHMOOD QURESHI ADDRESSED THIRD FOREIGN MINISTERS' MEETING OF THE NEIGHBORING COUNTRIES OF AFGHANISTAN, HOSTED BY CHINA, ON 31ST MARCH 2022

پاکستان نے افغانستان سے سفارتی مشنز اور غیر ملکیوں کے انخلا کے لیے سہولیات دیں

افغانستان کی پائیدار معیشت کیلئے اقدامات کیے، 5 ارب کا امدادی پیکج دیا

وزیر خارجہ کا چین میں افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے تیسرے اجلاس کے اختتامی سیشن سے خطاب

ہوانگ شین  (ویب ڈیسک)

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے عالمی برادری پر زور دیا کہ ماضی کی غلطیاں نہ دہرائیں، افغانستان میں جنگ کے خاتمے کے اعلان کا خیر مقدم کرتے ہیں ، پاکستان چار دہائیوں سے افغانستان کی صورتحال کے سبب متاثر رہا۔   چین میں منعقدہ افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے  انہوں نے کہا کہ افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے تیسرے اجلاس میں شرکت کرنا میرے لئے باعث اعزاز ہے۔ہم اس اجلاس کے انتظام و اہتمام اور اس کے انعقاد کے لئے چین کی کاوشوں کو سراہتے ہیں۔گزشتہ اجلاسوں کی طرح ہم افغانستان کی صورتحال کے کثیرالجہتی پہلوئوں پر پیش رفت کے لئے مفصل تبادلہ خیال اور تعمیری راستہ اپنانے کے منتظر ہیں۔اس واضح احساس کے ساتھ پاکستان نے گذشتہ برس اس فارمیٹ کا آغاز کیا تھا کہ ہمسایہ ممالک کا افغانستان کے استحکام میں کسی بھی دوسرے ملک کی نسبت سب سے زیادہ کلیدی مفاد وابستہ ہے۔ہمارا نکتہ نظر یہ تھا کہ ہمسایہ ممالک کے لئے بہت اہم ہے کہ وہ مل بیٹھیں، اپنے نکتہ نظر سے ایک دوسرے کو آگاہ کریں اور 15 اگست کی صورتحال کے بعد مشترکہ سوچ اپنانے کے لئے کام کریں۔یہ امر تسلی بخش ہے کہ یہ اقدام نہ صرف جاری ہے بلکہ فروغ پارہا ہے۔15اگست 2021نے افغانستان میں ایک نئی حقیقت کو جنم دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں صورتحال کی مکمل تبدیلی عالمی برادری خاص طور پر اس کے ہمسایوں کی جانب سے خصوصی توجہ کی متقاضی ہے۔اپنے حصے کے طور پر پاکستان، افغانستان میں جنگ کے خاتمے کے اعلان کا خیرمقدم کرتا ہے۔پاکستان گذشتہ چار دہائیوں سے افغانستان میں جاری تنازعے اور عدم استحکام سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔ابتدائی خدشات و تحفظات کے برعکس ہم نے مشاہدہ کیا کہ کوئی خون خرابہ نہیں ہو اور بڑی حد تک تبدیلی پرامن تھی۔مقام شکر ہے کہ براہ راست تصادم ہو اور نہ ہی بڑے پیمانے پر ہجرت کی نوبت آئی ۔ان حقائق کو دیکھتے ہوئے ہم نے اپنا سفارتخانہ ہمہ وقت کھولے رکھا۔ ہم نے 90ہزار سے زائد سفارتی مشنز، عالمی تنظیموں اور دیگر افراد کے انخلاء میں سہولت کاری فراہم کی۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم نے عالمی برادری پر زور دیا کہ ماضی کی غلطیاں نہ دوہرائی جائیں اور ہم نے عملی ربط وتعلق جاری رکھنے کا حقیقت پسندانہ طرزِ فکر اپنانے پر زور دیا۔اکتوبر 2021میں میں بذات خود کابل گیا تاکہ مستحکم، پرامن، خودمختار اور خوش حال افغانستان کے لئے پاکستان کے عزم کا اظہار کروں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے افغانستان کی عبوری حکومت کو عالمی برادری کی جانب سے وابستہ توقعات سے بھی آگاہ کیا۔انسانی بحرانوں سے بچا ئومیں مدد اور افغانستان کی پائیدار معیشت کو مضبوط بنانے کی کوشش میں پاکستان نے لگاتار کئی اقدامات کئے جن میں 5 ارب روپے کا امدادی پیکج بھی شامل ہے۔گندم کی فراہمی ، مقامی کرنسی میں تجارت کی جانے والی اشیاکی تعداد میں اضافہ اور مختلف شعبوں میں استعدادکار میں اضافہ انہی اقدامات میں شامل ہیں ۔ہم نے انسانی بنیادوں پر افغانستان کو عالمی امداد کی فراہمی میں پل کا کردار ادا کرکے سہولت بہم پہنچائی ۔انتہائی ابتر انسانی صورتحال اور ممکنہ معاشی انہدام کے پیش نظر، پاکستان نے دسمبر دوہزار اکیس میں او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے غیرمعمولی اجلاس کا انعقاد کیا جس کے نتیجے میں متعدد ٹھوس فیصلے ہوئے۔جن میں ہیومینیٹیرین ٹرسٹ فنڈ اور نمائندہ خصوصی کا تقرر شامل ہے۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ خلاصہ یہ ہے کہ ہماری تمام تر کوششوں کامقصد افغانستان میں استحکام کا فروغ اور انسانی مسائل اور معاشی مضر اثرات سے بچا میں کمی لانا تھا۔آگے بڑھتے ہوئے ان عوامل کا وسیع جائزہ لینا ضروری ہے۔افغانستان میں اگرچہ جنگ ختم ہوچکی ہے، لاکھوں افغان بچے آج بھوک اور فاقہ کشی کا سامنا کررہے ہیں۔ افغان ہسپتالوں کو ادویات، آلات اور اہلکاروں کی شدید کمی درپیش ہے۔اس نازک صورتحال کو دیکھتے ہوئے ہم زور دیتے ہیں کہ سیاسی ترجیحات پر انسانی ناگزیر صورتحال کو فوقیت دی جائے۔اس وقت بنیادی ضرورت انسانیت اور چار کروڑ افغان باشندوں پر توجہ مرکوز کرنے کی ہے۔میں یہاں اس بات کو دہرانا چاہوں گا کہ غیرملکی بینک میں افغان منجمند اثاثے افغان قوم کی ملکیت ہیں اور ان کا استعمال بھی افغانستان کا خودمختار فیصلہ ہونا چاہئے۔ ہم اس کے منجمند اثاثوں تک رسائی میں افغانستان کی مدد جاری رکھیں گے تاکہ یہ قیمتی وسائل افغانوں کی فلاح وبہبود کے لئے بروئے کار آسکیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے خیال میں آج چالیس سال کے تنازعہ کے بعد آخر کار افغانستان میں پائیدار امن کے قیام کا تاریخی موقع میسر آیا ہے۔چنانچہ مل کر، تعمیری شراکت داری کے ذریعے اس عمل کو مضبوط بنایاجاسکتا ہے۔تبدیلی کے اس مرحلے پر عالمی برادری کی عبوری حکومت سے اجتماعیت، لڑکیوں کی تعلیم، انسانی حقوق کے احترام اور انسداد دہشت گردی کے خلاف موثر کارروائی کے حوالے سے توقعات بجا طور پر وابستہ ہیں۔کابینہ میں کسے شامل ہونا چاہیے اس کا فیصلہ افغانستان پر چھوڑ دینا مناسب ہوگاتاہم افغان حکام کو ایسے طریقوں پر غور کرنا چاہئے جس سے حکومتی ڈھانچے میں اجتماعیت اور دیگر شعبہ ہائے زندگی کی نمائندگی یقینی ہو۔یہ امر قابل فہم ہے کہ افغانستان ایک طویل جنگ کے سائے سے باہر آرہا ہے۔ اس کے باجود عملی اقدامات عبوری حکومت کی ساکھ کو مضبوط کریں گے جن میں خواتین کے لئے نوکریوں کو کھولنا شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم افغان اتھارٹیز پر زور دیتے ہیں کہ وہ لڑکیوں کو تعلیم تک رسائی کی اجازت اور انسانی حقوق کے فروغ جیسے مثبت اقدامات جاری رکھیں تاکہ عالمی ربط وتعلق بڑھانے اور درکار مالی وسائل تک رسائی میں مدد مل سکے ۔ہمیں علم ہے کہ انسداد دہشت گردی کی موثر کوششوں کے لئے طویل المدتی پائیدار منصوبہ بندی اور اشتراک عمل درکار ہے۔انسداد دہشت گردی میں پیش رفت، عبوری حکومت کی صلاحیت اور عالمی برادری کی ان کوششوں میں حمایت میں آمادگی پر منحصر ہے۔پاکستان اس ضمن میں افغانستان کی مدد کے لئے آمادہ ہے۔یہ واضح ہے کہ انسانی مدد کے فوری سوال کے بعد ہمیں طویل المدتی معاشی پائیداری اور ترقی پر سوچنے کی ضرورت ہے۔جب تک تجارت وصنعت کا پہیہ رواں ہونے کی اجازت نہیں ہوگی عام افغانیوں کی زندگی میں بہتری نہیں آئے گی۔انہوں نے کہا کہ خطے کو جوڑنے کا خیال انفراسٹرکچر کی طویل المدتی ترقی کے بغیر شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔طویل بنیادوں پر قابل عمل اور خوش حال افغانستان وہی ہے جو پورے خطے کے لئے تجارت اور توانائی کی راہداری کے طور پر بروئے کار آئے۔لہذا خطے کو جوڑنے اور افغانستان میں توانائی کے منصوبہ جات کا فروغ ہمارے دیرینہ مقاصد میں شامل ہے ۔اس ضمن میں ہم چین کی جانب سے، سیاسی سفارت کاری، معاشی تعاون، سلامتی واستحکام پر ورکنگ گروپس کی تشکیل کی تجویز کی حمایت کرتے ہیں۔ہم اس فارمیٹ کے تحت انسداد دہشت گردی میں تعاون بڑھانے کی تجویز زیرغور لانے کے بھی حامی ہیں جو ہمارے مشترکہ مفاد میں شامل ہے۔ہمیں عطیات پر انحصار کرنے والی قوم تخلیق نہیں کرنی چاہئے۔ ہمارا مقصد ہونا چاہئے کہ افغانستان خودانحصار اور معاشی صلاحیت رکھنے والا ملک بنے۔چھے ماہ سے زیادہ ہوگئے ہیں جب ہم نے افغانستان میں سیاسی تبدیلی ہوتے دیکھی۔ اگرچہ عبوری حکومت نے کئی شعبوں میں پیش رفت کی ہے، ہمیں امید ہے کہ یہ سلسلہ جاری وساری رہے گا۔ ہمیں یہ بھی امید ہے کہ دنیا اس معاملے میں اپنا حصہ ڈالنے کا سلسلہ جاری رکھے گی۔ انہوں نے کہا کہ عبوری افغان حکومت کو تسلیم کرنے کے زیرالتوا سوال کو زیادہ دیر تک یوں ہی بغیر حل کے نہیں چھوڑا جاسکتا۔یہ امر ناگزیر ہے کہ عالمی برادری خاص طور پر افغانستان کے ہمسایہ ممالک یہ سوچیں کہ مرحلہ وار انداز میں تسلیم کرنے کے معاملے پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے آگے کیسے بڑھا جائے۔افغان عبوری حکومت کا نوزائدہ ڈھانچہ، گورننس اور انسداد دہشت گردی کی صلاحیتوں کے حوالے سے ہماری مدد کا متقاضی ہے۔یہ ہمارے اجتماعی مفاد میں ہے کہ افغان بھائیوں اور بہنوں کی مدد کی جائے تاکہ وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکیں۔اپنے حصے کے طور پر پاکستان نے استحکام، امن، ترقی اور خوش حالی کی کوششوں میں ہمیشہ افغانستان کو مدد فراہم کی ہے اور کرتا رہے گا۔